• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ویرات کوہلی- بارش کا پہلا قطرہ ؟۔۔محمد وقاص رشید

ویرات کوہلی- بارش کا پہلا قطرہ ؟۔۔محمد وقاص رشید

پچھلے مضمون کے آخر پر بھارتی ٹیم کے میچ ہار کر دل جیتنے والے کپتان اور بہترین انسان ویرات کوہلی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جو مضمون لکھنے کا عزم کیا تھا وہ حاضر ہے۔ اسکے دوران اسی موضوع سے عین متعلقہ کچھ نئے حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں جو کہ کچھ ایسے غیر متوقع بھی نہیں تھے۔محبت کے باغبان ابھی ویرات کوہلی کے لگائے پودے کو پانی دے ہی رہے تھے کہ دونوں اطراف سے کچھ نفرت کے بیوپاری ہمیشہ کی طرح اٹھے اور نام نہاد مذہب کی آڑ میں یہ پودا اکھاڑنے لگے۔نام نہاد مذہب کیوں لکھا میں نے؟
خدا نے انسان کو پیدا کیا۔خدا دمِ تخلیق یہ جانتا تھا کہ میں کس بچے کو ہندو کے گھر بھیجنے جا رہا ہوں اور کس بچے کو مسلمان کے گھر، تو کیونکہ خدا کی شان ہی غیر متعصب عادل و منصف شہنشاہ ہونا ہے۔ اس لیے خدا کو اپنے کیے گئے فیصلے اور تقسیم پر ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہر خالق کو اپنی تخلیق سے محبت ہوتی ہے،یک ماں کو ہی لیجیے۔ پدری شفقت اسکی ممتا کا اس لیے مقابلہ نہیں کر سکتی کہ ماں بچے کی تخلیق کے تمام مراحل میں ایک خالق والے عشق سے گزرتی ہے۔ جنت دراصل اس عشق کے پاؤں کے نیچے ہوتی ہے،خدا نے اسی عشق میں گوندھی ممتا سے ستر گنا زیادہ محبت کا دعویٰ  کیا۔خدا ایک تو رحیم دوسرا اتنی   عظیم مخلوقات کا خالق ہو کر ایک کو کہتا ہے یہ اشرف ہے۔ برتر مخلوق تو کیا خدا کو اس مخلوق سے محبت نہیں ہو گی؟۔یقیناً  ہو گی اور ہے۔ اس نے سوچا انسان میرا نائب ہے مجھے اس سے محبت ہے لیکن میں نے اس محبت کو اختیار دے کر آزمانا ہے۔خدا سے محبت کی آزمائش کا نصاب ہی تو مذہب ہے،جو ہے ہی محبت کی آزمائش اس میں نفرت کیسی،اسی محبت کے فلسفے پر اسلام عالمین کے لیے رحمت ہستی انتہائی منافرت سے بھرپور مزاحمت کے ہوتے ہوئے پروان چڑھا۔(یاد رہے کہ رحمت للعالمین جب خدا نے انہیں کہا تو اس عالمین میں تمام کے تمام انسان آتے ہیں )۔

برصغیر میں ایک علاقہ تھا ہندوستان۔۔۔ یہاں ایک قوم بستی تھی ہندوستانی،اس قوم میں اکثریتی طور پر دو مذاہب کے لوگ تھے۔ ہندو اور مسلمان،یہاں کے لوگ بہت امن پسند تھے،اسی لیے جسمانی طاقت والے بیرونی حملہ آور ہوں یا ذہنی قوت والے انگریز تاجر انکے حکمران بننے میں انہیں زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوا۔انگریز کے یہاں سے انخلاء کے وقت حکمرانی کا سوال پیدا ہوا تو سیاسی بنیادوں پر ایک کھینچا تانی کا آغاز ہوا،جو کہ کوئی بڑی بات نہیں ایسا ہی ہوتا ہے، غلبے کی طاقت تو انسان کی جبلت میں ہے،لیکن مشکل وہاں کھڑی ہوئی جب اسے مذہبی منافرت میں تبدیل کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انگریز کے یہاں آنے سے پہلے ہمارے آباؤ اجداد مسلمان نہیں تھے؟اور انکے ہندوازم پر کار بند نہیں تھے میری نظر میں ہم سے بہتر تھے اور وہ اس لیے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر دونوں نفرت نہیں بیچتے تھے۔ مسلمان ، محبت کے دین کی درست تفہیم کرتے تھے۔اپنے مفادات اور حکمرانی کی چوٹی پر چڑھنے کے لئے مذہب کو سیڑھی کے طور پر استعمال نہیں کرتے تھے۔

اسکا مطلب یہ ہوا کہ کیونکہ برصغیر کی جغرافیائی نفسیات میں ایک جذباتیت ہے۔ جو کہ اندھی تقلید و عقیدت کو جنم دیتی ہے جن کے ہوتے مذہب کی من پسند تفہیم کو خدا پسند بنا کر پیش کرنا محض جوشِ خطابت کے بائیں ہاتھ کی چیچی انگلی کا کھیل ہے تو بس نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔پاکستان 74 برس سے اس مطلب کی تلاش میں ہے جسے ایک نعرے کی صورت میں پیش کر کے اس ملک کی بنیادوں کو ایک نسل کے خون سے سیراب کیا گیا  اور اگلی دو نسلوں کے پسینے سے میڈیا ہائپ کے نتیجے میں اپنی حد سے زیادہ بڑھی  ہوئی رعونت کے ملبے تلے دبنے والے بھارتی ہوں یا پاکستان کے وزیرِ داخلہ جیسے سیاست کے لئے مذہبی سٹنٹ کرنے والے دونوں نے ہمیشہ کی طرح مذہب کارڈ کے استعمال میں عافیت جانی۔محض سیاسی مفادات کے لیے اپنی قوم اور سماج کو تعصب کی انتہا پر پہنچانے والوں نے وہاں محمد شامی کو مسلمان ہونے کا طعنہ دیا پاکستان جانے کا کہا۔۔۔ تو ایسے میں یہاں کے شعبدے بازوں نے مذہب فروشی کے لیے ایک کرکٹ میچ کو عالمِ اسلام کی فتح قرار دیا۔

آپ غور کریں تو ویرات کوہلی اس وقت سے ایک عہد ساز کھلاڑی مانا جاتا ہے جب اس نے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا، لیکن اچھا انسان وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی فکری تربیت اور اصلاحِ احوال کے نتیجے میں بنا لیکن یہاں ہمارے وزیرِ داخلہ کو ان دونوں چیزوں سے دور کا علاقہ بھی نہیں۔

اسکا مطلب کیا ہوا۔؟ اسکا مطلب دونوں ملکوں میں ایک ہی جیسے دو طرزِ فکر رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ ویرات کوہلی اور ہمارے قومی ہیرو بابراعظم اور رضوان کی تصاویر کو ہمارے ہاں بہت پذیرائی ملی، میں نے فیس بک پر بے شمار لوگوں کو اسکی تعریف کرتے دیکھا، یہ نہیں کہ ہم جیتے ہوئے تھے اس لیے حقیت یہ ہے کہ ہمارے ہاں آہستہ آہستہ یہ مثبت فکری تبدیلی آ رہی ہے،جو کہ بہت خوش آئند ہے۔

اوپر بیان کیے گئے مذہبی اور جغرافیائی پسِ منظر کے آئینے میں اگر دیکھا جائے تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ راستہ کیا ہے۔

اسلام کیونکہ ہے ہی محبت کا دین ،انسانیت کا مذہب تو وہ لوگ میری نظر میں اسلام کے حقیقی فلسفے اور اسکی روح پر عمل پیرا ہیں جو کسی بھی قسم کی نفرت اور عصبیت کی بنیاد پر اپنے فکر و عمل کو استوار نہیں کرتے دوسرا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ برصغیر میں مذاہب سیاست میں اوپر جانے کے لیے بطورِ سیڑھی استعمال ہوتے ہیں اس لیے بھی ہر باشعور اور معاملہ فہم انسان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مذہب کارڈ کے ذریعے سیاسی بیوپاریوں کے چولہے کا ایندھن نہ بنے۔

اب تک کی ستر سالہ مذہبی سیاسی شعبدے بازی سے دونوں طرف کے بیوپاریوں کی تو خوب چاندی ہوئی۔
ایک مذہب کا نعرہ لگانے پر ہم عام عوام میں سے انکی دکانیں چمکانے کے لیے فطری جذباتیت کا شکار کروڑوں مفت کے سیلز مین مل گئے۔ اندھی تقلید کرنے والے کروڑوں مذہبی ہاکرز مل گئے اور ان کے مفاداتی چولہوں میں اپنا خون بطورِ ایندھن ڈالنے والے ملتے رہے، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مذہب کو سمجھیں۔اسکی درست تفہیم کریں، بقولِ ظفر زیدی صاحب
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جسکا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے

ہندوستان اور پاکستان اب دنیا پر دو حقیقتیں ہیں۔ انکے لوگوں کو اب سوچنا ہو گا کہ اب تک کی پون صدی میں اس جذباتیت اور مذہبی منافرت نے ہمیں کیا دیا۔ غربت ،جہالت ،بے روزگاری ، افلاس ،بھوک ننگ ، احتیاج ، خوراک کی کمی ، دواوعلاج کا فقدان اور انگنت محرومیاں جن کو بالکل نصف کر کے درمیان میں ایک لکیر کھینچی گئی ہے ، اور یہی اس تیسری نسل کا حاصل ہے۔

ہماری بات کرکٹ کے میدان سے شروع ہوئی تھی کرکٹ کے میچ میں بھی ایک ٹرننگ پوائنٹ آتا ہے، جہاں سے بازی پلٹ جایا کرتی ہے، دنیا کی تاریخ گواہ ہے بڑے بڑے انقلاب فردِ واحد کی کسی ایک جنبش سے کسی ایک نظریاتی اور فکری کاوش سے بھی آئے۔ امریکہ کی ایک سیاہ فام سکول ٹیچر کا نسلی تفاوت کو تسلیم کرنے سے انکار دہائیوں بعد بننے والے پہلے امریکی صدر باراک اوباما کی صدارت کی بنیاد تھا، ہم اس نئی تہذیب کا آغاز ویرات کوہلی کے بہترین عمل کو کیوں نہیں کر سکتے؟

دونوں اطراف کے انسانیت سے محبت کرنے والے ایک لمحے کو آنکھیں بند کریں اور وہ منظر نامہ ذہن میں لائیں کہ پاکستان اور ہندوستان کی عوام کے شعور کے باعث دونوں ملکوں کے مذہب کارڈ کھیلنے والے حکمرانوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔ نفرت کی دیواریں گرا دی گئیں۔ حاصل ہونے والی اینٹوں سے دونوں طرف محبت کے سکولوں کی بنیادیں استوار کر دی گئیں، دونوں اطراف منافرت کے بیوپار کے خاتمے کے ساتھ ہی الفت و یگانگت کی تجارت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔بارڈ ر کے دونوں اطراف زمین سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پیار کی سیڑھی چڑھ کر اس غیر اسلامی غیر ہندو خط سے تیزی سے اوپر آنے لگے۔دونوں اطراف غذائی قلت کا شکار بچوں کی بجھی ہوئی آنکھوں میں احساسِ تشکر کے دیے جلنے لگے۔ دونوں اطراف میں تجارتی تعلقات کے عروج کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہمسائے ہونے کے ناطے معاشی و اقتصادی ترقی نے رفعتوں کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ بیماروں کے زخموں کے لیے یہ نئی تہذیب کا مرہم ہی شفا کا باعث بن گیا۔دونوں اطراف کے بھاری بھرکم دفاع کے بجٹ فلاح پر لگنے لگے اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں برصغیر نے تمام ان دوسرے براعظموں کو پیچھے چھوڑ دیا جو ہمیں ہماری ہی کج فہمی اور جذباتیت کے باعث لڑوا کر اپنے اپنے ملکوں کی پوری پوری اکانومی  اور  اسلحے کی صنعتیں چلاتے رہے اور ترقی کرتے رہے اور ہمارے نوجوان انکے ملکوں میں بسنے کے خواب دیکھتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اپنی آنکھیں کھول لیں۔ ابھی اس خواب کی تعبیر کی بنیاد رکھنے کا وقت ہے، جسکی پہلی اینٹ ویرات کوہلی کی بابر اعظم کو پیار بھری جپھی ہو سکتی ہے۔آئیں اپنے اپنے حصے کی اینٹ رکھیں۔ اگر ابھی اتنا اندھیرا ہے کہ یہ راستہ نظر نہیں آتا تو کیا ہوا، آئیں نفرت کے خلاف اپنے اپنے حصے کی محبت کی شمع جلائیں، کہ یہ شمعیں مل کر کل بر صغیر کے افق پر انسانیت کی وہ صبح روشن کریں جسکی محبت کی کرنیں دمِ سحر ایک ہی تابانی سے مندر میں بھی داخل ہوں مسجد میں بھی۔۔۔ کیونکہ بقولِ فراز؛
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply