دو قومی نظریہ جانتے ہیں کیا ہے؟ دراصل؟۔۔ بلال شوکت آزاد

کل رات میچ جیتنے کے فوراً بعد گراؤنڈ سے جو جشن شروع ہوا اور کشمیر تا کابل, دبئی تا ڈھاکہ اور دہلی و بھارتی پنجاب تک اس کی چمک دمک اور گونج پہنچی تو بھی پاکستان کی اعلیٰ ظرفی اور حسن اخلاق میں رتی برابر کمی نہ آئی ۔ رعونت اور تکبر کا شائبہ تک شامل نہ ہوا بلکہ اس قدر عاجزی و انکساری دکھائی کہ ہارنے والی ٹیم کے کپتان اور ورلڈ کلاس کھلاڑی ویرات کوہلی کی سپورٹس مین شپ اور سپورٹس مین سپرٹ کو نا صرف سراہا بلکہ جیت اور خوشی کے باوجود, کشمیر میں بھارتی مظالم کے باوجود اور بھارتی مہاسبائیت کے باوجود اس کی تعریف بڑے پن سے کی اور ہمارے شہزادوں نے اس کو اس سے بڑھ کر لوٹایا کہ وہ بہرحال کھیل میں سینئر ہے تو اس کو خوش دلی سے گلے لگایا اور ہاتھ ملایا۔۔ حالانکہ اِس طرف بھی ملی جلی آوازیں اس عمل کے خلاف اٹھیں لیکن وہ بھی ردِ عمل ہیں ناکہ بغض اور حسد جیسا بھارتی ہمیشہ سے ہم سے رکھتے آئے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف بارڈر کے اس پار کیا تماشا ہوا اور ہورہا ہے؟

ان کے ہی سکواڈ کے مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے , اس کا کردار خراب کیا جارہا ہے، غداری کے فتوے لگ رہے  ہیں اور مطالبہ کیا جارہا  ہے کہ اسے پاکستان جانا چاہیے کیونکہ کل کی شرمناک شکست کی ذمہ داری صرف اور صرف شامی پر ہے۔

اسی طرح وریندر سہواگ اور گوتم گمبھیر جیسے کھلاڑی بھی اپنا بغض اور تعصب چھپا نہ پائے اور کھل کر کشمیری و بھارتی مسلمانوں کے لتے لیتے نظر آئے۔

جانتے ہیں کہ اس سارے سنیریو میں اچھائی اور اعلی ظرفی کی بلندی پر کون تھے؟

ہم۔ ۔ ۔ ہم پاکستانی جنہوں نے کھیل کو بیشک جنگ سمجھا اور فتح کو جنگی فتح لیکن اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہارے ہوئے دشمن کے سالار کو وہ عزت اور قدر دی جس کا وہ حقدار تھا چہ جائیکہ وہ خود قومی تعصب کا شکار تھا یا نہیں تھا۔

ہمارا یہ انسانیت پر مبنی اعلیٰ  ظرفی کا مظاہرہ بیشک دوقومی نظریہ کا ترجمان ہے بالکل ویسے جیسے بھارتی مہاسبائی عوام کا مسلمانوں بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے خلاف رویہ دوقومی نظریہ کی حقانیت پر لوہے کی مہر ہے۔

دیکھو بھائیو, دشمن سے بھی حسن سلوک اور اس کے حق میں ہدایت کی دعا میرے نبیﷺ  سے ناصرف ثابت ہے بلکہ اس کا بارہا جگہوں پر حکم بھی ہے ۔رویے وہ دعوت ہیں جن کے آگے کلمات کی دعوت بھی کچھ نہیں اور ہمیں اگر دشمن کے گھر میں نقب لگانی ہے تو ہمیں سنت کے مطابق اپنے رویے اور اعلیٰ ظرفی کی دعوت اور اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔

باقی بھارت میں جو کچھ کشمیری و بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے یہ ہمارے ان احباب کے لیے نکتہ تغیّر و تبدل ہے جو ابو الکلام آزاد کی فکر کو درست سمجھتے ہیں جبکہ جناح کی فکر کے حامی اس نکتہ کو سمجھیں کہ دوقومی نظریہ سمجھانے کا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوسکتا ہے جب آپ کا دشمن آپ کے سامنے ڈھیر ہو اور آپ اپنی اسلامی اساس اور تربیت کا بہتر سے بہترین مظاہرہ کریں۔

دو قومی نظریہ محض دو مذاہب اور دو تہذیبوں کے فرق کا ہی نام نہیں بلکہ دو رویوں اور دو الگ مگر متضاد مزاجوں کی حامل قوموں کے تشخص کا بھی نام ہے۔کوہلی کی جنہوں نے حسن ظن اور اعلیٰ ظرفی میں تعریف کی یا جنہوں نے پاکستان سے بغض اور حسد میں اس کو چڑھایا دونوں صورتوں میں کل ہمارا امیج اور میسج جو دنیا کو گیا وہ الحمد اللہ مثبت ترین ہے جبکہ بھارت سے جو ردِ عمل آیا وہ دنیا کے لیے منفی ترین پیغام بن گیا ہے, دنیا کو آپ نہیں بتاؤ گے کہ دو قومی نظریہ کیا تھا, کیا ہے یا کیا ہوگا بلکہ آپ کا ہر ایسے موقع پر کیا ایسا عمل دنیا کو یہ فرق سمجھا اور بتا دے گا ان شاء اللہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ وقت دور نہیں جب ہم کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ایسے جشن منایا کریں گے ان شاء اللہ۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply