حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا…….محمد حسیب حیات ٹوانہ

ایک دن پاپا نے ہمیں بتایا کہ کل سے تم لوگوں کو قاری صاحب پڑھانے آئیں گے ۔ اگلے دن ہم نے بستر سے نکل کر آنکھیں ملنا شروع کی تھیں کہ اسی حالت میں ہمیں ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا گیا, جہاں قاری صاحب ہمارے منتظر تھے. قاری صاحب نے ہمیں تقریباََ   سال ایک پڑھایا ۔ یہ خود ابھی طالب علم تھے ۔جناح کالونی میں کوئی مدرسہ تھاوہاں پڑھتے تھے. کسی دور دراز کے علاقے سے تھے. واپس چلے گئے اور جاتے ہوئے ایک اور قاری صاحب کو ہم سے جوڑ گئے ۔ میں قرآن شریف مکمل کر چکا تھا ۔ نئے قاری صاحب نے چھوٹے بہن بھائیوں کا قرآن ختم کروانا تھا ۔ صبح میں بھی انہی کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا ۔ جب سب کا قرآن ختم ہو گیا تو پاپا کا ارادہ بنا کہ قاری صاحب کو ہٹا دیا جائے ۔ انہی دنوں ہم نے قاری صاحب کو بتادیا کہ ہم لوگ یہاں سے ایوب ریسرچ چلے جائیں گے ۔
یہ سردیوں کے دن تھے ۔ ایک صبح قاری صاحب آئے اور پاپا کو ہاتھ کے اشارے سے گھر سے باہر آنے کو کہا. گلی میں پانچ ہزار روپے گرے پڑے تھے ۔ قاری صاحب نے یہ بات پاپا کو بتائی ۔ پاپا نے اپنا بٹوہ چیک کیا تو رات انہیں کوئی بندہ پیسے دے کر گیا تھا, وہ بٹوے میں نا تھے ۔اس دن کے بعد پاپا نے فیصلہ کیا کہ قاری صاحب جب تک خود ہمارا گھر نہیں چھوڑیں گے, میں انہیں منع نہیں کروں گا ۔ اسوقت قاری صاحب کو پاپا تین سو روپیہ دیا کرتے تھے ۔ قاری صاحب بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے, ماں تھی پانچ بھائی اور ایک بہن ۔ مدرسے میں تعلیم کے ساتھ ٹیوشن پڑھا کر نظام زندگی چلا رہے تھے ۔

ہم لوگ ایوب ریسرچ چلے گئے ۔ ہمارا گھر مسجد کے بالمقابل تھا اور اس مسجد کے خطیب قاری صاحب کے ماموں تھے ۔ یہ سب اتفاقات تھے یا پھر خدا کے ڈالے ہوئے جوڑ جس سے ہمارا قاری صاحب سے تعلق مضبوط تر ہوتا گیا.قاری صاحب اپنے ماموں کے مدرسے میں پڑھتے تھے.جو کچھ عرصے بعد جناح کالونی سے لکڑ منڈی شفٹ ہوگیا اور قاری صاحب ہمارے ہاں مانگے کی سائیکل پر آنے لگے ۔ جب قاری صاحب مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے تو انہوں نے ایک مسجد میں نماز تراویح پڑھانی شروع کر دی ۔ یہ مسجد شہر سے بہت باہر تھی۔ اپریل  کے مہینے کی مسحور کن راتوں کی تمام تر خوشگواریت کو مچھروں کی فوج کے حملے ناخوشگوار بنائے رکھتے تھے۔ ماہ رمضان ختم ہوا تو قاری صاحب سال کی نیت باندھے تبلیغی جماعت کے ہو رہے ۔ میں نے استفسار کیا! قاری صاحب گھر کیسے چلے گا ؟ بولے سب معاملات اللہ چلانے والا ہے.میں نے قاری صاحب سے کہا کہ آپ ہماری مسجد میں آجائیں ,بولے اس دنیا کا نظام انسان کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کی مرضی سے چلتا ہے۔ہماری مسجد کے خطیب چونکہ ایک بڑے عالم دین تھے ,وہ ہر سال تراویح پڑھانے امریکہ جاتے تھے. اسی لئے ہماری مسجد میں نمازیں پڑھانے کے لئے ایک ایڈیشنل امام کی ضرورت بھی تھی جسے پورا کرنے کے لئے ایک فل ٹائم امام رکھ لیا گیا۔
ایک سال گزر گیا اور رمضان کا مہینہ پھر سے آگیا۔ تبلیغی جماعت والوں نے قاری صاحب کو عید اپنے گھر والوں کے ساتھ منانے کی خاطر سال سے کچھ روز پہلے گھر بھیج دیا۔
ہماری مسجد کے امام صاحب جو کہ کچھ نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ ان نفسیاتی مسائل کو عام زبان میں  جِنوں کا اثر کہا جاتا ہے ۔ وہ صاحب رمضان کے آخری عشرے میں عجیب و غریب سی حرکتیں کرنے لگے تھے ۔ عید سے تین روز پہلے اس نے مسجد کی صفوں کو آگ لگا دی مجبورا انہیں مسجد سے فارغ کرنا پڑ گیا ۔
مگر اس کے ساتھ ہی مسجد میں امامت کا مسئلہ بھی کھڑا ہوگیا ۔انتظامیہ نے ہمارے قاری صاحب کو کچھ روز کے لئے طلب کر لیا ۔ اس کے بعد قاری صاحب کو مستقل بنیاد پر رکھ لیا گیا اور پھر قاری صاحب اسی مسجد کے ہو کر رہ گئے ۔ قاری صاحب کو آخری سانسیں آنے تک سرکاری نوکری نصیب نا ہوسکی ۔ بڑے امام صاحب پکے پکے امریکہ سیٹل ہوگئے اور ان کے جانے کے بعد ان کے بیٹے کو خطیب مسجد بنا کر سرکاری طور سولہواں گریڈ بھی عطا کر دیا گیا مگر قاری صاحب چند ہزار کی نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ مدرسے میں بچوں کو حفظ کرواتے دنیا سے چلے گئے.وہ بہت عظیم انسان تھے ۔میں نے ان کے منہ سے کسی قسم کا گلہ یا کوئی شکا یت نہیں سنی۔ انہوں نے کبھی کسی کی بد تعریفی نہیں کی ۔ میں نے انہیں ہمیشہ مثبت بات کرتے دیکھا اور دوسروں کے لئے قربانی دینے کو ہر دم تیار پایا ۔قاری صاحب کے ایک بھائی تھے جن کے گردے فیل ہوگئے تھے ۔ وہ اپنے بھائی کا علاج کرواتے رہے۔ جس کا آخری حل گردے کی ٹرانسپلانٹ کا تھا ۔ قاری صاحب نے بھائی کو اپنا گردہ دینے کا فیصلہ کیا .اسی نیت سے کراچی چلے گئے ۔ یہ خبر ان کے ہونے والے سسرال کو ملی تو انہوں نے منگنی توڑنے کی دھمکی دے   ڈالی مگر قاری صاحب کے فیصلے میں لچک نا آئی ۔ اور پھر سچ میں ان کی منگنی ٹوٹ گئی ۔ قاری صاحب نے اسے رب کی مرضی کا نام دیا اور ان کے منہ سے ایک لفظ شکایت کا سننے کو نہیں ملا ۔ قاری صاحب کے گردہ دینے سے پہلے ہی بھائی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ۔بہت سالوں کے انتظار کے بعد قاری صاحب کی کسی اور جگہ شادی ہوئی۔
آج انہیں رونے والے سات بچے ہیں ۔ قاری صاحب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کے ساتھ گزارا وقت ان کی سادگی ان کا اللہ پر ایمان ان کا خلوص ان کا حسن سلوک ایسے اوصاف تھے جو یاد بن کر مجھ سمیت بہت لوگوں کے دلوں کو ہمیشہ گرماتے رہیں گے۔کچھ یادیں تھیں جو شئیر کر دی ہیں ۔ اس بارے لکھنا چاہوں تو بہت کچھ لکھ سکتا ہوں ۔   قاری صاحب کی  جب نوکری لگی تو وہ مسجد سے متصل ڈیڑھ کمرے کا گھر انہیں مل گیا ۔ کمرہ اصل میں ایک تھا .ساتھ چھوٹے سے برآمدے کو کمرہ بنایا ہوا تھا ۔ بعد میں چھوٹے صحن میں بھی ایک کمرہ ڈال لیا. اس گھر میں ماں کے ساتھ تین بھائی بھی رہے. سب کی یہیں پر شادی ہوئی, بچے ہوئے, اس چھوٹے سے کھڈے میں تین تین بچے ہوئے ۔ قاری صاحب نے سب کو ساتھ رکھا ۔بڑے بھائی کو بڑا بھائی مانا ۔ ماں کو اس کا رتبہ دیا ۔  قاری صاحب ہمیں پڑھانے کے ساتھ ساتھ چند اور گھروں میں بھی پڑھاتے تھے ۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ ایک گھر والوں نے چھے ماہ سے کوئی پیسہ نہیں دیا ۔ یہ سن کر مجھے تو بہت غصہ آیا ,میں نے کہا آپ نے مانگے کیوں نہیں ؟۔ کہنے لگے دین کا کام کرنا ثواب ہوتا ہے اور اگر نیت پیسے کمانے کی کر لی جائے تو ثواب ختم ہوجاتا ہےاور دنیا داری رہ جاتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا اور پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ.

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply