نو مسلموں کے حقوق اور ہمارا معاشرہ۔رانا اورنگزیب

اس کے چہرے پر داڑھی بہت بھلی لگ رہی تھی آج وہ مجھے دس سال کے   بعد ملا۔میں نے بہت دیر اور بہت دور تک سوچا کہ بزرگ کو کہیں دیکھا ہے مگر یاد داشت نے اس کی اصل شبیہ دکھلانے سے معذرت  کرلی۔وہ سامنے چاۓ کی دکان پر بیٹھا پیالی سے ہلکی ہلکی چسکیاں لے رہا تھا اور اپنی کسی گہری سوچ میں گم تھا۔کہ اچانک ایک پاس سے گزرتے شخص کا ہاتھ اس کی پیالی سے ٹکرایا اور چاۓ چھلک گئی۔کچھ چاۓ اس کے کپڑوں پر گری اور کچھ اس کے ہاتھ پر۔مگر اس سے یہ ضرور ہوا کہ بزرگ کا انہماک ختم ہوگیا اور انہوں نے اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر بھی توجہ دینا شروع کردی۔۔۔

سب پر سے گھومتی ان کی نظر جب مجھ تک پہنچی تو ایک لمحے کے لیے  وہ ٹھٹھکے پھر ذرا غور سے   مجھے دیکھا۔ان کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک پیدا ہوئی  ۔

پھر انہوں نے ہڑبڑا کے اپنی پیالی وہیں پاس پڑے بنچ پر رکھی اور دونوں بازو کھول کے میری طرف لپکے۔۔ اوۓ رانا پتر توں کدھروں نکل آیا  ایں ۔مجھ سے بھر پور معانقہ کرنے کے بعد بصد اصرار چاۓ کا آرڈر دیا۔ چاۓ پیتے ہوۓ میں نے ان کی خیریت دریافت کی۔ پھر چاچی کا پوچھا۔ بچوں کے بارے میں سوال سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کہنے لگے رانے پتر   صاحب (یہ ان کا میرے لیے اک خاص خطاب ہوتا تھا )میں تو دھوبی کا کتا بن گیا یارا۔نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، تیری چاچی تو کب سے چھوڑ گئی دونوں بیٹے اور بیٹی مجھے نہ ملنا چاہتے ہیں نہ کوئی  تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مسجد چھوڑ کے آجا ،اگر ہمارے ساتھ تعلق رکھنا ہے۔

یہ کوئی  عام کہانی نہیں ہے ،یہ کوئی  ایسا دکھ نہیں ہے کہ جس کو بیان کرتے ہوۓ ایک مسلمان کا دل نہ کٹے! یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوئی  جب میں پڑھائی  سے بدظن ہوا اور گھر والوں    سے جب صبح، دوپہر، شام    طعن وتشنیع اور پھٹکار حکیم کی دوائی  کی طرح       ملنے  لگی تو میں نے بھی ایک غریب گھرانے کے سپوت کی طرح سوچا اور فیصل آباد شہر کا رخ کیا ۔ایک فیکڑی میں ملازمت شروع کرلی۔اس فیکڑی میں ادھیڑ عمر عورتیں بھی کام کرتی تھیں۔مجھ پر اللہ کا بہت کرم ہے اور میری ماں کی دعائیں کہ مجھے کسی عورت میں کبھی بھی کوئی  اور رشتہ نظر نہ آتا سواۓ ماں اور بہن کے۔ اب جب سے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے مجھے ہر بچی اپنی ہی بیٹی کی طرح نظر آتی ہے۔فیکڑی میں کام کرنے والی عورتوں کو بھی میں ماسی چاچی ماں جی ہی کہتا۔

ان میں سے ایک ایسی بھی تھی جو کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھتی تھی اور کیتھولک مسلک سے تھی۔اس کے ساتھ اس کا خاوند بھی اسی فیکڑی میں کام کرتا تھا جس کا نام( فرضی نام) اقبال تھا۔اقبال مسیح بہت ہی فرمانبردار اور پیار کرنے والا انسان دوسروں سے اس طرح پیش آتا کہ بندہ بلاوجہ ہی اپنے آپ کو صاحب سمجھنے پر مجبور ہوجاتا۔وہ بیچارا اپنی ڈیوٹی کے علاوہ کئی افسروں کی گاڑیاں اور موٹرسائیکل بھی صاف کردیتا۔بہت بار ایسا ہوا کہ فیکڑی مالک نے کوئی  مٹھائی ، بریانی یا ایسی ہی کوئی  دوسری چیز  مزدوروں کے لیے  منگوائی  تو  یہ  دونوں میاں بیوی  اپنی پلیٹ لے کر  ایک سائیڈ پر الگ  بیٹھ جاتے۔جبکہ سارے مسلمان ورکر چاہے کوئی  ہیلر تھا یا مینجر سب ایک جگہ بیٹھ کر  کھاتے.

میرے والد صاحب ٹیچر تھے، اب ان کو ریٹائرڈ ہوۓ بھی سترہ سال ہوچکے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہمیں بڑوں کی عزت کرنا سکھایا ۔گاؤں  کا کوئی بھی موچی مسلی حتیٰ کہ عیسائی  بھی سامنے ہوتا تو مجھ میں آج بھی جرات نہیں کہ کسی کو نام سے تو تڑاخ سے مخاطب کر سکوں۔ ہمیشہ اپنے سے بڑوں کو چچا تایا بھائی  ہی کہہ کر  پکارا۔اس عیسائی  کو بھی میں ہمیشہ چاچا جی ہی کہتا جبکہ عام ورکر اور افسر اس کو نام سے یا اوے کہہ کے بلاتے تھے۔

مجھے ناجانے کیوں ان کے اس طرح علیحدہ بیٹھنے پر ایک عجیب سی شرمندگی کا احساس ہوتا۔میں جب بھی ہوٹل سے چاۓ وغیرہ منگواتا تو چاچا جی سے ہی منگواتا اور اپنے ساتھ بٹھا کے اپنے ذاتی کپ میں ان کو چاۓ دیتا۔ پہلے اس کو پلاتا پھر خود پیتا۔وہ عموماًانکار کرتا یا اپنی پیالی اٹھانے لپکتا مگر میں اس کو منع کر دیتا اور اپنے کپ میں پینے پر مجبور کرتا وہ بیچارہ چاۓ پی کے بھاگتا ہوا جاتا اور کپ دھو کے لاتا مگر کوشش کرتا کہ کپ کے اندر اس کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔

چاچی دوپہر کے لیے روٹی گھر سے لے کر آتی۔ دونوں میاں بیوی جب روٹی کھانے بیٹھتے تو جتنے لوگ ان کے پاس سے گزرتے یا ان کے سامنے ہوتے سب کو فرداً فرداً اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دیتے، کچھ لوگ مہذب انداز میں منع کردیتے۔ کچھ ان کا شکریہ ادا کرتے ۔کچھ اس بات پر ان کو خشمگیں  نظروں سے گھورتے۔ میں عموماً باہر کھانا کھاتا تھا مگر جب بھی کبھی میں کھانے کے وقت ان کے آس پاس ہوتا تو وہ مجھے بھی کھانے کی دعوت دیتے اور میں نے کبھی انکار نہیں کیا، چاہے چند  نوالے  کھاتا مگر کھاتا ضرور۔چاچی روز مجھے ڈھونڈ کے ملتی ۔میرے سر پر ہاتھ پھیرتی اور میرا ماتھا چومتی۔ اس سب کی وجہ سے کچھ لوگ میرے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کرتے اور مجھے تضحیک کا نشانہ بھی بناتے۔لیکن مجھے کبھی ان کی پرواہ نہ رہی۔

پھر مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری ملی تو میں ان کو چھوڑ کے چلا گیا۔نہ کبھی کسی نے ان کا ذکر کیا نہ کبھی میں نے ان سے کوئی رابطہ رکھا اور آج اچانک دس سال کے بعد وہ مجھے چاۓ کی دکان پر مل گئے۔چاۓ پینے کے بعد چاچا جی مجھے ساتھ ہی موجود مسجد میں لے گئے۔ مسجد میں بنے ایک کمرے میں ان کی رہائش ہے۔ وہاں مجھے بٹھایا۔  گپ شپ شروع ہوئی ۔۔

میں نے پوچھا چاچا ،چاچی کو کیا ہوا؟ کہنے لگا بیمار تھی تیری چاچی، ایک دن ایسے ہی مر گئی جیسے غریب مرتے ہیں۔ ساری  زندگی یسوع کی بن کے گزاری ،جاتے جاتے اللہ اور محمدﷺ کی بن کے چلی گئی اور مجھے محمد اقبال بنا گئی، میں نے پوچھا چاچا یہ سب کیسے ہوا؟ کہنے لگا رانا پتر صاب!  تم تو جانتے ہو ہمارا مکان مسجد کے پچھواڑے تھا۔وہاں روز مولوی درس قرآن  دیتا تھا۔ ہم اسلام کے بارے میں تو ویسے ہی سب جانتے تھے مگر ایک دن ایک مولوی نے ساری رات مریم علیہ اسلام اور عیسیٰ ابن مریم پر تقریر کی میں تو تھکا ہوا تھا سو گیا۔۔اور فجر کے وقت مجھے جگایا اور کہنے لگی وے بالے مینوں پانی گرم کرکے غسل تے کروا دے۔میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا ؟

کہنے لگی بعد میں بتاؤں گی ،جب میں اس کو غسل کروا دیا ،تو مجھے کہنے لگی تم بھی غسل کر لو۔میں بھی اچھی طرح نہایا۔ کہنے لگی بالے ساری  زندگی تیرے ساتھ رہی ہوں ،بھوک میں بھی، ننگ میں بھی۔کیا میں نے کبھی تم سے کوئی  شکوہ شکايت کی ہے؟

میں بولا نہیں! پھر کہنے لگی۔ بالے میں نے ز ندگی میں تجھ  سے کوئی فرمائش کی ہو؟ کبھی کچھ مانگا ہو؟ اگر تجھے  یاد ہو تو بتاؤ۔۔

میں نے کہا کبھی تو  نے مجھے تنگ نہیں کیا، کچھ نہیں مانگا مگر تو ایسی باتیں کیوں کر رہی  ہے ؟

کہنے لگی، ہے اک گَل ،مگر پہلے وعدہ کر جو بھی آج منگاں گی توں مینوں ضرور دیویں گا۔میں نے کہا کملیے کچھ منگ تو سہی۔ چاہے جان منگ لے، وہ بھی دے دوں گا۔

کہنے لگی بالے مجھے دوزخ کی اگ سے بڑا ڈر لگتا ہے کیا تجھے نہیں لگتا؟

میں سوچ میں پڑگیا اور اپنی  زندگی پر نظر دوڑائی  تو ایسا کچھ نہ ملا، جو دوزخ سے بچالے۔میں نے کہا ڈر تو لگتا ہے مگر خداوند یسوع ہے نا! کہنے لگی اگر یسوع بھی کام نہ آۓ تو؟ مجھے حیرت ہوئی  کہ کہاں سارا دن خداوند کو یاد کرتی ہے اور کہاں اتنا شک۔ میں غصے سے بولا یہ کیسی باتیں کر رہی ہے ؟کیا تجھے   اپنی موت نظر آرہی ہے؟

کہنے لگی وے بالے موت تو انسان کو پیدا ہوتے ہی نظر آنے لگتی ہے۔ مگر بندہ خود کو دھوکا دیتا رہتا ہے کہ مجھے ابھی نہیں مرنا۔ایسے وقت میں تو بندے کو رب نظر آتا ہے۔اور مجھے بھی سوہنا رب نظر آرہا ہے۔ مگر وہ ہم سے ناراض ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں ؟ کہنے لگی ہم نے ساری  زندگی مسیت کی چھاں تھلے گزار دی، مگر اپنے رب کو راضی نہیں کرسکے بالے ،جے توں غصہ نہ کریں تے چل مولوی صاحب کے پاس اور کلمہ پڑھ لیں ۔سوہنے مدینے والے کا!

بالے جے مدینے والا راضی ہوگیا نا تے سمجھ لے اپنی  زندگی کسی کم کی ہوجاۓ گی اور موت وی۔مر تو ویسے بھی جانا ہے تو کیوں نہ اللہ کی پسند کو قبول کرکے مریں۔

میں کچھ دیر تو غم وغصے کی کیفیت میں بیٹھا سوچتا رہا پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ چلو اتنے سال کی رفاقت کا صلہ اس کی خواہش کو پورا کر کے دیتا ہوں ۔شاید اس طرح اس کی  زندگی کے بچے کھچے دن آسانی سے گزر جائیں۔ہم دونوں نے فجر کی جماعت کے فوراً بعد سب نمازیوں کے سامنے امام مسجد کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔مولوی صاحب سے نماز کا طریقہ سمجھا اور نماز ادا کی سب نمازیوں نے ہمیں مبارک باد دی۔ہم خوشی خوشی اپنے گھر آۓ تو ہم سے پہلے ہمارے اسلام قبول کرنے کی خبر ہمارے بیٹوں اور بیٹی کو ہوچکی تھی۔

پہلے تو انہوں نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ۔پھر ہم دونوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ واپس اپنے مذہب میں آجائیں۔بہت دلیلیں دی بہت منت سماجت کی مگر ہم نے کہا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں اب ہم اسلام سے نہیں پھریں گے۔ہم نے اپنی اولاد کو سمجھایا کہ تم بھی اسلام قبول کر کرلو۔مگر وہ نہیں مانے ۔الٹا ہمیں دھمکانا شروع کردیا،آخر کار  ہمیں انہوں نے گھر سے نکال دیا۔اب ہم نے فیکڑی مالک کے پاس پناہ لی تیری چاچی تو چند  دن بعد  فوت ہوگئی، مگر میں ابھی تک  زندہ ہوں۔اللہ کاشکر ہے رانے پتر صاحب اس نے ہمیں ہدایت نصیب کردی۔میں نے پوچھا چاچا کبھی بچوں سے ملنے بھی جاتے ہیں یا نہیں۔کہنے لگے کہ وہ میری شکل دیکھنے کے روادار بھی نہیں ہیں۔اور نہ ہی اب میں ان سے کوئی تعلق رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور مسلمان کی کافر سے رشتے داری نہیں ہوسکتی۔

یہ تو تھی ایک عیسائی  کے مسلمان ہونے کی کہانی۔ اب آئیں ذرا اپنے معاشرے کے مسلمانوں کا جائزہ لیتے ہیں۔چاچا محمد اقبال سے جب میں نے مسلمانوں کے رویے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ اپنی سابقہ برادری کے لیے میں دیندار بن گیا یعنی مسلمان اور نئی برادری بھی مجھے دیندار ہی سمجھتی ہے یعنی گھٹیا یا غیرمسلم۔ سواۓ چند لوگوں کے، میرے ساتھ ملنا کھانا پینا پسند نہیں کرتے۔ایک حاجی صاحب جو کہ ہر سال عمرہ کرتے ہیں، کئی حج کرچکے  ہیں سارا دن مذہب کی قرآن  وحدیث کی باتیں  کرتے  ہیں مگر میرے ساتھ نماز میں بھی کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔

ایک بار میں اگلی صف میں نماز کے لیے کھڑا تھا۔ حاجی صاحب بے دھیانی میں میرے ساتھ کھڑے ہوگئے سلام پھیرنے کے بعد جیسے ہی مجھے دیکھا تو حاجی صاحب غصے سے لال پیلے ہو گئے اور  فرمانے لگے ،بالے تم اگلی صف میں کیوں کھڑے ہوۓ ؟میں نے عرض کیا جناب پہلی صف کا ثواب   زیادہ ہے اس لیے۔حاجی صاحب فرمانے لگے ابھی تم نئے مسلمان ہو تم کو نماز کے آداب کا علم نہیں ،اس لیے اگلی صف میں مت کھڑے ہوا کرو۔

میں نے سوال کیا کہ دوسرے نمازی اور امام مسجد صاحب نے حاجی صاحب کی اس بات پر کوئی  تبصرہ نہیں فرمایا؟ان کو کسی نے نہیں ٹوکا؟ کہنے لگے کہ حاجی صاحب مسجد کمیٹی کے سربراہ ہیں بھلا امام مسجد اور دوسرے نمازی ان کی بات کا رد کیسے کرتے ۔زیادہ تر نے تو ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔

رانے پتر اس دن پہلی بار مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں نے مسلمان بن کے کہیں غلطی تو نہیں کرلی۔مگر پھر میرے اللہ نے مجھ کو حوصلہ عطا کر دیا اور صبر بھی۔ چوہدری صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے یہیں فیکڑی میں یہ چھوٹی سی مسجد بنادی اب اس مسجد کا متولی ،خادم ،موذن  اور  کمیٹی کا سربراہ بھی میں ہی  ہوں۔امام صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔ پانچ وقت نماز پڑھا جاتے ہیں، صبح شام مجھے درس قرآن دیتے ہیں۔بس پتر اب میں بہت خوش ہوں ،ایک حسرت ہے دل میں کہ مجھے سوہنا ایک بار اپنے گھر کا دیدار کرادے اور بس ایک بار مدینے والے سے چند باتیں کرنے کا موقع مل جاۓ۔

میں نے پوچھا چاچا مدینے والے سے کیا بات کرنا چاہتے ہو؟ بولا !بس رانے پتر! ہیں کچھ حسرتیں، جو آقاﷺ  کے سامنے ہی رکھوں گا۔اور ایک بہت بڑا شکوہ بھی ہے مگر نعوذ باللہ آقا سے نہیں ہے آقا کی امت سے ہے ۔جو نبوی راستے چھوڑ چکی ہے جو حسب نسب میں غرور کرنے لگی ہےا ور جو کافروں کو تو اچھا سمجھتی ہے مگر اپنے غریب مسلمان بھائیوں سے نفرت کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پڑھنے والوں کے لیے ضروری نوٹ: بہت سے نومسلم بھائیوں کی طرف سے ایسے ہی گلے شکوے سننے کو ملے ہیں۔اس پر مکمل لکھوں تو بہت واقعات ہیں مگر براۓ مہربانی اگر آپ کے اردگرد کوئی  بھی نومسلم بھائی  ہو تو اس کا احترام کیجیے اور اس کے دکھ سکھ بانٹیے۔کیونکہ اس نے دین محمدی کے لیے اپنا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی  سب کو چھوڑا ہے تو اس کے  ساتھ ماں باپ بہن بھائیوں کا سلوک کریں ناکہ اس کی پرانی ذات برادری قبیلے یا پیشے پر طنز کریں۔ وما الینا الالبلاغ!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”نو مسلموں کے حقوق اور ہمارا معاشرہ۔رانا اورنگزیب

Leave a Reply to علی اختر Cancel reply