ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر۔۔بنت الہدیٰ

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر۔۔بنت الہدیٰ /میرا شمار بھی پاکستان کی اس اسّی فیصد آبادی میں ہوتا ہے جنہوں نے مطالعے یا کتب بینی کی ابتدا مذہبی کتابوں سے کی۔ نصابی کتابوں کے علاوہ گھر میں موجود سب سے زیادہ کتابیں مذہبی افکار و تعلیمات پر ہی مبنی ہوتیں۔ جیسے فقہہ حدیث تفسیر قرآن اور سیرت وغیرہ   ۔ گرچہ کتب بینی آپ سے مختلف موضوعات اور علوم کے مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔

سکول میں سائنس کے مضمون میں دلچسپی پیدا ہوئی تو رجحان سائنسی علوم پر مشتمل کتابوں کے مطالعے کی طرف گیا لیکن بچپن ہی سے ذہن پر لگ چکی مذہب کی عینک کا اثر یہ ہوا کہ سائنس پڑھتے ہوئے بھی ہر موضوع کو دین کے سانچے میں جانچا جاتا۔  جو تحقیق یا نظریہ مذہب سے مخالفت کرتا دکھائی دیتا اسے مکمل جانے بغیر ہی رد کردیا جاتا ۔  اسی طرز پر مطالعہ کرتے ہوئے سائنسی نظریات اور ایجادات کو قرآن اور احادیث سے ثابت کیے جانے کا بھی ایک روایتی کام شروع کردیا۔  جو نظریہ سائنس پیش کرتی ہم فخریہ انداز میں کہہ دیتے یہ بات تو چودہ سو برس پہلے ہی بتادی تھی ہمارے دین نے ۔ اور اب یہی بات دوہرا کر کیا خاک کارنامہ انجام دیا ہے سائنس نے ۔ یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ سائنسی نظریات تجربہ گاہ سے گزر کر سامنے لائے جاتے ہیں اور پھر انہیں عملی میدان میں لاکر ہی نت نئی ایجادات اور دریافتیں عمل میں لائی گئیں ۔ علم تو ہمیں مذہب نے دے ہی دیا تھا مگر نہ تو ہم نے اسے تجربہ گاہ سے گزارنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی تحقیقی عمل سے گزار کر سائنسی علوم کی ترقی میں اپنا حصہ پیش کیا۔  یوں مذہب کی عینک نے ہم پر تحقیق اور تدبر کے دروازے بند کردیے۔

گرچہ مذہب اسلام خود ہم سے سب سے زیادہ تقاضا تحقیق اور تدبر ہی کا کرتا رہا، مگر ہم تو پیدائشی مسلم تھے سو ہمیں ہمیشہ یہی لگاکہ یہ تحقیق اور تدبر نامی چڑیا جو ہماری مذہبی کتاب کی ہر دوسری شاخ پر آکر چہچہانے لگتی ہے یہ تو ان راہ گم کردہ کافروں کو راہ راست پر لانے کے لیے ہے اور ہم تو ہیں ہی راہ راست پر سو ہم اسے پُھر کر کے اڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔

اور یوں سائنسی علوم کا مطالعہ فرماتے ہوئے بھی میں مذہبی علوم کو سینے سے لگائے بڑی ہی عقیدت و احترام کے ساتھ سائنسی نظریات کے صحیح یا غلط ہونے یا پہلے سے ثابت شدہ بتلانے پر ہی اکتفاء کرتی رہی۔

یوں زندگی بہت ہی پُرسکون گزر رہی تھی ۔ اس قسم کے مطالعے سے دین اور دنیا دونوں ہی امن و امان میں تھے ، مگر قدرت کو یہ امن و شانتی منظور نہ تھی شاید۔ اور پھر سائنس پڑھتے پڑھتے گاڑی کا اسٹئیرنگ فلسفے کی جانب موڑ دیا گیا۔
گرچہ یہ حادثہ انجانے میں ہوا تھا۔۔
لیکن سائنسی علوم سے وابستگی اور مذہب سے لگاؤ  نے میری نظر میں فلسفے جیسے خشک ترین موضوع کو اتنا دلچسپ بنا دیا تھا کہ میں نے بھی خوشی خوشی گریجویشن کے لیے فلسفے کا انتخاب کرلیا۔
فلسفہ کیا پڑھ لیا ذہن کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

دماغ میں ہونے والے اس جھماکے سے تفکّر کے بند کواڑوں پر پڑا قفل کھل گیا  اور سوالات کی وہ بوچھاڑ  ہوئی کہ سائنس اور مذہب دونوں ہی تشکیک کے دائرے میں آگئے۔

لا الہ کا سفر طے کیے بغیر ہی میں الّا اللہ کے جس دائرے میں آگئی تھی فلسفے نے کفر کے فتاویٰ  سے بھرے اس تنگ دائرے کو مزید وسعت دیتے ہوئے اچھی خاصی چھان پٹک کے بعد وجود کو ‘میں’ سے نکال کر ‘تو’ کا مرکز بنادیا ۔

فلسفے کی بھول بھلیوں سے گزرتے ہوئے بھی کتب بینی کا سفر جاری رہا  اور وہ بھی اس جدید انداز میں کہ اب کتب بینی کے لیے کسی عینک کی ضرورت نہ رہی تھی۔ جو کتاب بھی پڑھی جاتی اسے پرکھنے اور سمجھنے کے منطقی اصول فلسفہ اچھی طرح سمجھا چکا تھا ۔

بس پھر کیا تھا۔۔ مطالعے کے شوق نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف انواع کے مضامین کی کتابوں کے ذائقے چکھوا دیے  اور میں چٹخارے لے لے کر انہیں پڑھنے لگی ۔
اور پھر انہی مختلف مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے ادب کی پُراسرار وادی میں جا پہنچی۔  یہاں تخیل کی آزاد پرواز نے مجھے بےحد متاثر کیا۔  اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔  اپنے تخیل کو بُننے کے لیے مجھے لفظوں کا بھرا پورا جہان جو مل گیا تھا۔
اب میرا ہر تخیل قرطاس پر جلوے بکھیرنے لگا۔۔

لیکن یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں تھا کہ ادب اور فلسفہ دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس کے بالکل ساتھ ہی ساتھ ایک گہری کھائی ہے۔ذرا قدم لڑکھڑائے اور آپ کھائی کے اندر۔۔

اس مشکل اور پُرخطر راہ سے گزرتے ہوئے میں نے بیک وقت مذہب ،ادب اور فلسفے کے گٹھ جوڑ سے ایک مضبوط رسی بُننا شروع کردی۔جہاں میرا عقیدہ اور عقیدت میرے تخیل کی گرہ بنتے اور فلسفہ اسے حقیقت سے قریب تر رکھتا اس طرح تخیل کی اونچی اڑان بھرتے ہوئے بھی مذہب سے ملی روحانیت میری پرواز کو راہ گم کرنے سے بچائے رکھتی اور فلسفہ نت نئے نظریات اور افکار کو بنانے اور انہیں قبول یا رد کرتے ہوئے آگے بڑھنے میں میرا معاون بن گیا۔
فلسفے نے تحقیق اور تدبر کی راہ متعارف کروائی تو ادب نے تخیّل کو لفظوں میں بیان کرنے کا سلیقہ دیا۔۔
لیکن ادب، مذہب اور فلسفے کے مثلث میں رہتے ہوئے اپنے زیر قلم آنے والے موضوعات کو فکری مغالطوں اور غیر ضروری الجھاو سے بچ بچا کر اپنے تخیل کو سادہ الفاظ میں پرونا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
یا یوں کہیے کہ صراط مستقیم پر چلتے چلتے میں خود کو پل صراط پر لے آئی۔۔۔

اور اب اس راہ پُرخطر پر میں اپنے تخیّل اور قلم کو سنبھالے جس انداز میں قدم جمائے کھڑی ہوں اس کیفیت کی ترجمانی مزا غالب ہی کرسکتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگ!

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply