مذہبی معیارات ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

رِیت یہی ہے کہ مذہب پسند افراد کو اعلی اقدار و اخلاق کا علمبردار گردانا جاتا ہے اور مذہب بیزار پر تمام تصور کردہ گناہوں و کوتاہیوں کا لیبل لگانا عمومی رویہ ہے، یہ تصور مذہب پسند کا اپنا پھیلایا ہوا ہے کہ جہاں ایک طرف معاشرے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی جا سکے، وہیں اپنے ہم خیال افراد کی نگاہوں کا تارا بنے رہنا بھی مقصد ہے، اس طرح وہ اور اس کے ہم خیال کسی بگاڑ کی ذمہ داری سے گویا کہ مبرّا قرار پاتے ہیں، باوجود اس کے کہ مذہب کے نام پر تاریخ کے بدترین جرائم سرزد کئے گئے اور ان جرائم میں مخالف نکتۂ نظر رکھنے والوں کا تعاقب و استحصال سرِ فہرست ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیونکر دیندار انسانوں کی اکثریت صرف خود ہی کو صراطِ مستقیم پر سمجھتے ہوئے سماجی درستی کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں، اور وہ یہ خوش فہمی کیسے پالتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتے ہوئے بھی اس قدر اعتماد کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں کہ ان کی اس سینہ زوری پر کٹر ملحد بھی پچھلے قدموں پر جاتا محسوس ہوتا ہے۔

اس کا سیدھا سا جواب ان کے پاس یہی ہے کہ ہم چونکہ خدا کے گھر جانے والے اور پابندی سے عبادات پہ عمل پیرا رہنے والا گروہ ہیں اسی لئے روحانیت کے سرچشمے ہماری ہی ذات سے پھوٹتے ہیں، اور شیطانی راہ پر چلتے ہوئے جہل و کفر، گناہ و ظلم کی تاریکیاں تمہاری پیدا کردہ ہیں، یقین و اعتماد سے بھرپور اس رائے پہ قائم رہنے کیلئے انہیں ایک نفسیاتی مقامِ ارتکاز میسر ہے، اس مقام پہ انہیں خدا کی رحمت بھی دکھائی دے رہی ہے، یہی مقام انہیں گناہ کے بعد رجوع کرتے ہوئے نومولود جیسے پوِتر ہونے کا یقین دلاتا ہے، یعنی توبہ کا گرین سگنل اسی مقامِ ارتکاز پہ چمک رہا ہے، اکابرین سے اپنی نسبت اور خدائے بزرگ کی مدد، رحمت و شفقت پہ یقین رکھنے کی ترغیب انہیں حوصلہ نہیں ہارنے دیتی اور اسی مرکز کے گرد ایک نفسیاتی سکون پاتے ہوئے مکمل ڈھٹائی کے ساتھ سینہ زوری جاری رکھتے ہیں۔

ان کے برعکس الحاد کی طرف جھکاؤ رکھنے والے افراد کیلئے مشکلات کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں چونکہ ایسا کوئی نفسیاتی سہارا میسر نہیں اس لیے تمام تر ذمہ داری انہیں اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑتی ہے اور یہی اس مشاہدے کی واحد وجہ ہے کہ لادین افراد سماج کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر رہے ہیں۔

دین دار طبقے کی بھاری اکثریت خدا کی محبت میں دین دار نہیں بلکہ اس کے خوف سے انہوں نے یہ راستہ منتخب کر رکھا ہے، اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ اپنی انا کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے، انا بذاتِ خود کوئی بُری چیز نہیں اس وقت تک جب تک آپ خود اسے ٹھیس نہیں پہنچاتے، اور یہ ٹھیس اس وقت لگتی ہے جب آپ دوسروں کے ساتھ خود کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نامکمل ہیں جبکہ آپ کی انا کا بنیادی مقصد ہی اپنی اہمیت کا احساس ہے، اور دوسروں کے ساتھ تقابل میں جب احساسِ کمتری دامن گیر ہوتا ہے تو انا کو ٹھیس لگنے سے فرد ذہنی تردد کا شکار نظر آتا ہے، اسی تردد سے نجات کی کوشش فرد کو ایسے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہے جہاں اس کے سامنے دو مختلف راستے بِچھے ہوئے ہیں اور ان دو میں سے فرد کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

ایک راستہ یہ ہے کہ انا کو مکمل ڈھیل دے دی جائے ، اسے اس کی مرضی کرنے دی جائے، خود کو انا کا غلام بنانے والے اسی شخص کو انا پرست کہا جاتا ہے، دوسرا راستہ “پرہیز گاری” کا ہے یعنی انا کو مارنے کی کوشش، اس کوشش میں انا خاموش ہوکر نہیں بیٹھے گی بلکہ کسی انتہائی قدم کی طرف فرد کو مجبور کرے گی، اور سب سے پہلا انتہائی قدم یہ ہے کہ فرد کی شخصیت کا مکمل انکار کرتے ہوئے اس کی توجہ دوسروں کی طرف دلائے گی، بالخصوص ان “بھٹکے ہوئے” لوگوں کی طرف جنہیں راہِ راست پہ لانا گویا کہ آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ تقوے کا ہیضہ یہیں سے شروع ہوتا ہے اور یہ اس صورت میں ہوگا اگر فرد طبعاً عاجز واقع ہوا ہے، وگرنہ اس بات کے امکانات ہیں کہ انا کا ٹکراؤ جارحیت سے ہوجائے، ایسے میں فرد سیدھا جرم کی دنیا میں قدم رکھے گا۔ دوسرے الفاظ میں انا پرست اور مذہب پرست ایک ہی وجود کی دو انتہائیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منطقی ادیان ہمیشہ اعتدال کا سبق دیتے آئے ہیں۔

دین دار آدمی کو لگتا ہے کہ وہ خدا کی طرف رجحان رکھتا ہے لیکن پیراڈوکس یہی ہے کہ یہ انا ہے جو آپ کو خدا کی طرف دھکیلتی ہے، وگرنہ خدا کی طرف کوئی بیرونی راستہ منتخب کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ آپ کے اندر موجود ہے اور ہر شخص اپنے اندر ایک خدائی عنصر لئے ہوئے ہے چاہے وہ کوئی ملحد ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی انا سے بچنے کیلئے خدا کی طرف تمام کوششیں اندرونی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوششیں ہیں اور اندرونی اہمیت کے منوانے کی طلب تب ہی سامنے آتی ہے جب آپ کسی کمپلیکس یا خوف سے جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، خدا کی طرف حقیقی راستہ دوسروں کی نقالی کئے بغیر اپنے اندر جھانکنا ہے، شخصیت کا کامل ہونا اسی کو کہتے ہیں ۔

مذہب پرست افراد کو شاید یہ رائے پسند نہ آئے، اور عدل کا تقاضا ہے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ مذہب پرست افراد تمام ایک جیسے نہیں، ان میں بھی اعتدال پسند روحانی و متقی افراد موجود ہیں جو سماج کے مزاج کو سمجھتے اور ایک دائرے کے اندر لچک دکھاتے ہیں لیکن ان کی عمومی اکثریت اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے دوسروں کا استحصال کرنا اپنا بنیادی فرض سمجھتی ہے۔
ملحدین کے بارے یہ رائے زبان زدِ عام ہے کہ وہ کسی خدا پر یقین نہیں رکھتے، ایسے ملحدین کی تعداد بہت کم ہے، اکثریت کسی خدا، کسی سپر پاور، یونیورس یا ابسولیوٹ انٹیلیکٹ پر یقین رکھتی ہے، لیکن یہ افراد خالق اور مخلوق کے بیچ کسی وسیلے کے قائل نہیں، یعنی اسی لئے کسی بھی مخصوص مذہب کے ساتھ خود کو نتھی کرنا یہ حضرات مناسب نہیں سمجھتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہب کی تشریح کے مطابق روح کسی عالمِ بالا کی شے ہے، اس زمین پر مختصر وقت گزارنے کے بعد اس روح کو واپس اپنے آبائی گھر لوٹنا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس مادّی دنیا میں روح کا وقتی قیام اس مادّی دنیا کو سنوارنا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply