رشتہ داری میں دھوکہ کب ہوتا ہے؟۔۔تنویر سجیل

کیسی بے بسی  کا زمانہ چل رہا ہے کہ اگر کسی کو دنیا کے کسی کونے میں مو جود  کسی بھی شئے ، شخص  یا کسی بھی قسم کی معلومات  درکار ہوں تو وہ صرف ایک کلک کی بدولت اس کے متعلقہ تمام معلومات  بمعہ اس کے اچھے برے اوصاف کے جان سکتا ہے مگر رشتہ طے کرنے یا قبول کرتے وقت آسانی سے دھوکہ کھا لیتا ہے ۔ زمانے کی ترقی پر کس کو شک و شبہ ہو گا کہ آج جدیدیت کے اس دور سے گزر رہے ہیں جس کو کبھی  انسان اس سے پہلے نہ سوچ سکا ۔ آج انٹرنیٹ کی ایجاد سے لیکر نئی نئی ایپس ، ویب سائیٹس  اور گیجٹس نے زندگی کی بہت سی ضروریات کو گھر کی دہلیز کے اندر ہی پورا کر دیا ہے ۔

انفارمیشن کے اس سیلابی دور میں اب وہ تمام معلومات انسانی دسترس میں آسانی سے ہیں جن کے  حصول  کے لیے انسان کو  میلوں  کا  سفر کرنا پڑتا تھا تاکہ مطلوبہ معلومات  کو حاصل کر سکے ۔ آج ہم ممکنات کی اس دنیا  کے باشندے ہیں جہاں پر نا ممکن والا لفظ صرف اتنے معانی رکھتا ہے  کہ ہم کسی قسم کی معلومات کے حصول کے لیے خود سے کوشش ہی نہ کریں یا پھر درست انداز کا استعمال نہ کریں ورنہ تو ٹیکنالوجی کی جدت نے وہ تمام سہولیات پیدا کر دی ہیں جو ناممکن کو ممکن بنانے میں ممکن کوشش کر چکی ہے ۔مگر پھر بھی انسان اکثر غلط اور جعلی معلومات کے دھوکے میں آکر زندگی کے انتہائی اہم فیصلے مناسب طور پر درست نہیں لے پاتا جو زندگی بھر کے لیے ایسے روگ میں بدل جاتے ہیں جن سے جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے ۔

ایسے فیصلوں میں سب سے اہم فیصلہ  لائف پارٹنر یا  شریک حیات کا انتخاب اور چناؤ ہے ۔  اور یہ بات تعجب کے لائق ہو گی کہ معلومات کے سیلاب کے اس دور میں بھی لوگ شادی طےکرتے وقت ایسے دھوکے کھاتے ہیں کہ اپنی زندگی کو ہی داؤ پر لگا لیتے ہیں  زندگی کے اتنے بڑے فیصلے پر لیا جانے والا فیصلہ اکثر ایسی  معلومات کی بنیاد پر لیا  جاتا ہے  جو کہ  جھوٹی، غلط اور جعل سازی پر مبنی ہوتی ہے  مزید حیرانی کی بات  یہ ہے  کہ ایسے دھوکے اب معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں  جس میں نقصان صرف ایک شخص کی زندگی کا نہیں ہوتا بلکہ پورے خاندان کو ایسے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں جن کا ازالہ پھرعمر بھر نہیں ہو پاتا ۔

اب  ذرا سنجیدگی سے  غور کیجیے  کہ یہ دھوکے معمول کا حصہ کیوں بن رہے ہیں ؟ لوگ ایسے دھوکے میں کیسے آجاتے ہیں ؟ ایسی کونسی  خاندانی، سماجی اور عقل کی رکاوٹ ہوتی ہے کہ لوگ دوسرے لوگوں کے فراڈ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ؟

ان سب سوالوں کے جواب بہت آسان اور سادہ ہیں جن کو کوئی بھی ایک اوسط درجہ کی ذہانت والا شخص بھی آسانی سے تلاش کر سکتا ہے  اور ایسے عظیم دھوکے سے  اپنی اولاد اور خاندان کو بچا سکتا ہے ۔ مگر کیا کیا جائے کہ انسانی عقل  کبھی کبھی بہت آسان اور سادہ باتوں سے ایسے دھوکے کھالیتی ہے کہ عقل بھی سراپا ماتم بن جاتی ہے تاہم پھر بھی یہ سوچنا بہت اہم ہے کہ ہم ہی  آخر اس دھوکے کے خریدار کیو ں بنیں۔

تو چلیے ان آسان اور سادہ سوالوں کے جوابات سے پردہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں  کہ آخر یہ دھوکے کن محرکات کی بدولت ممکن ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ سب کو علم ہے کہ   سب کو  معلوم ہے کہ شادی جیسے اہم معاملے پر لوگ انتہائی سنجیدگی سے سوچ بچار کرتے ہیں اور رشتہ بھیجنے یا  قبول کرنے  کے پورے عمل میں  جانے انجانے اور دوسروں پر آنکھ بند کر کے بھرسہ کرنے  کے چکر میں  ایسی غلطیاں کر لیتے ہیں جن  کا آخری فیصلہ طلاق یا          خلع ہوتا ہے  تاکہ زندگی کو ایک مستقل عذاب  اور جہنم بنانے سے بچایا جا سکے۔

ہمارے ہاں اکثر شادیاں بڑے طے کرتے ہیں جس میں اولاد کی پسند کا کبھی تو خیال رکھ لیا جاتا ہے  مگر اکثر ان کی پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اب ہوتا  یہ ہے کہ خاندان کے لوگ خاندان میں ہی نزدیک و قریب کے کسی گھر رشتہ بھیجتے ہیں یا قبول  کرتے ہیں جس کے  حوالے سے خاندان کی آپس کی دو چار ملاقاتوں کے بعد لاگ سے لیکر جہیز تک کی چھوٹی چھوٹی  بات بھی طے کر لی جاتی ہے ۔ مگر جب متوقع دلہا یا دلہن اور ان کے فیملی کے رجحانات، رویوں اور عادات کی بات آتی ہے تو اس کویہ سوچ کر ہی کم اہمیت دی جاتی کہ اپنا  ہی تو خاندان ہے، دیکھا بھالا ہے اور کون سا غیروں میں بیاہ رہے ہیں ۔

غفلت اور نظر اندازی کی یہ حماقت شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی اپنے رنگ دکھانے شروع کر دیتی  ہے  کہ جب پتہ چلتاہے  کہ لڑکا  نشہ باز ہے، غیر ذمہ دار ہے اس کا اپنا کوئی کاروبار ہی نہیں ، سماجی حیثیت بھی انتہائی غیر شریفانہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری طرف لڑکی والوں کی طرف سے بھی ایسا ہو جاتا ہے  کہ میک اپ آرٹسٹ کے آرٹ کا نمونہ بنا کر دکھائی جاتی ہے ، ظاہری  حسن و دلکشی کو مصنوعی  ڈھکوسلوں سے مس یونیورس بنا کر پیش کیا  جاتا ہے ، بتائی گئی تعلیم  و تربیت جھوٹ تھی، گھر داری سے نا واقف تھی  یا کسی قسم کے جسمانی، نفسیاتی و جذباتی نقص کو چھپا کر رکھا گیا ہے  جب رشتہ طے ہو رہا ہوتا ہے ان سب اہم باتوں سے وقتی غفلت پوری زندگی کی سزا بن جاتی ہے ۔

بہو یا داماد ڈھونڈنے کا دوسرا رائج طریقہ  رشتہ کروانے والی ماسی اور میرج بیوروز کا دھندا  کرنے والے  ہیں  جہاں پر آپ جب بھی رابطہ کریں تو آپ کو اپنی حیرت گم کرنے کا انتہائی نادر موقع ملتا ہے کہ آپ تو ایویں ہی رشتہ  تلاش کرنے کے لیے خوار ہو رہے ہیں ۔ جبکہ آپ کے مطلوبہ پروپوزل کو کب سے سنبھالے بیٹھے ہیں اور   وہ تو کب سے  صرف آپ کی آمد کے منتظر ہیں  اور جونہی آپ ان سے رابطہ کرتے ہیں  تو آپ کو ایک نہیں ڈھیروں ایسے رشتے بتاتے ہیں کہ جن کی معلومات اور کوائف سن کر آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں  کہ آپ کی توقعات اور خواہشات تو  بہت کم درجے کی ہیں  جبکہ ان کے پاس  ایسے نادر ہیرے نما رشتے ہیں جن کی چمک دمک سے سارا خاندان جگمگا سکتا ہے لڑکے یا لڑکی کے ایسے ایسے اوصاف اور قابلیت کے گن بتائے جاتے ہیں کہ دل مچل اٹھتا ہے کہ ابھی مولوی صاحب کو  بلاؤ اور ابھی رشتہ پکا کرو  کہیں تاخیر  کی صورت میں کوئی دوسرا گھر نہ لےاڑے ۔

مگر رشتہ  کروانے میں دھوکے کی شروعات بھی یہیں سے ہوتی ہیں،  جب کوئی ان لچھے دار باتوں کے جادو میں آجاتا ہے اور چند ابتدائی و سرسری ملاقاتوں کے بعد رشتہ طے کر لیتا ہے ۔ دراصل یہ حقیقت بھی سبھی جانتے ہیں کہ رشتہ کروانے والی ماسی یا میرج بیوروز والے اپنے کاروباری نفع کی آڑ میں  ایسا بہت کچھ بول دیتے ہیں جس کا حقیقت سے ذرا بھی کوئی تعلق  نہیں ہوتا۔    پھر بھی دھوکہ کھانے کی پہلی وجہ باتوں کی رنگینی  اور غیر ضروری حد تک بھروسہ کرنے سے شروع ہوتی ہے  کیونکہ انسانی نفسیات کچھ ایسی ہے  جو ان رنگین اور لچھے دار باتوں سے پیدا ہونے والی خوشی سے اتنا متاثر ہوتی ہے کہ وہ ہمارے سوچ بچار کے عمل کو وقتی طور پر مفلوج کر دیتی ہے اور ہم ظاہری شان و شوکت اور مصنوعی پن کی عیاری کے جال میں خود جا کر پھنس جاتے ہیں ۔

بطور ماہر نفسیات ایسے بہت سے کیسز سے آئے روز واسطہ پڑتا ہے جہاں پر شادی کے نام پر دھوکہ ہواہوتا ہے اور جب اس بارے تفصیل سےمعلومات لی جاتی ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ رشتہ کرتے وقت ایسا کون سا  کسی نے جادو ، ٹونہ کر دیا تھا  کہ اپنے متوقع لائف پارٹنر ، بہو یا داماد  کی بنیادی  ذاتی، سماجی ، نفسیاتی  اور جذباتی حالت کی خبر نہیں لی  اور نہ ہی  محلے سے ، آس پڑوس سے ، دوست احباب کے ذریعے یا خود جا کر اس کی ذاتی زندگی  میں جھانک کر  کیوں نہیں دیکھا اور صرف بھائی ، بہن،ماں، باپ، چچا ،تایا  ،مامے اور پھوپھے پر آنکھ بند کر کے اعتماد کر لیا ۔

زندگی کے اس اہم فیصلے پر اعتماد، جذبات اور غفلت کی بھینٹ چڑھ کر زندگی  برباد کرنے کی روش  دراصل ہماری اپنی ہی نالائقی  اور سستی کا تحفہ ہوتا ہے یہ دھوکہ کوئی دوسرا  ہمیں آکر نہیں دیتا  بلکہ اپنی کم علمی  ،  کم عقلی   اور خاندانی رشتہ  داروں پر اندھے اعتماد کی وجہ سے خود ہی یہ دھوکہ کھا لیتے ہیں اور ساری عمر دوسروں کی عیاری  وچالاکی کا پرچار کرکے اپنے  زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جدت کی اس دنیا میں ناممکنات اور دھوکہ  صرف اپنی چوائس ہے خود کو خود کے  جذباتی فیصلوں سے بچانا ذاتی ذمہ داری ہے۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply