کینسر (2) ۔ سفید خون/وہاراامباکر

دسمبر 1947 کی صبح بوسٹن کی ایک لیبارٹری میں سڈنی فاربر نیویارک سے آنے والے ایک پارسل کا انتظار کر رہے تھے۔ بچوں کے ہسپتال کے تہہ خانے میں اس لیبارٹری سے سو فٹ دور ہسپتال کے وارڈ میں سفید لباس میں بچے بستروں پر لیٹے تھے۔ ڈاکٹر اور نرسوں کی گہما گہمی تھی۔ لیکن فاربر کی لیب خالی اور بے آواز تھی۔ شیشے کے مرتبان اور کیمیکلز الماریوں میں رکھے تھے۔ فارملین کی تیز بو پھیلی تھی۔
اس لیب میں کوئی مریض نہیں آتے تھے۔ صرف مریضوں کے ٹشو یا پھر پوسٹ مارٹم کے لئے لاشوں کو لایا جاتا تھا۔ فاربر پیتھولوجسٹ تھے۔ پوسٹ مارٹم کرنا، بیماری کی شناخت کرنا، خلیات پہچاننا ان کی ڈیوٹی تھی لیکن مریض کا علاج نہیں۔
فاربر کی مہارت بچوں کی بیماریوں میں تھی۔ بیس سال سے اسی لیب میں مائیکروسکوپ سے سیمپل دیکھتے گزاری تھی۔ ترقی کر کے چیف پیتھولوجسٹ بن چکے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کسی زندہ مریض کو چھوا نہیں تھا۔ خلیوں اور ٹشو کے درمیان خود کو قیدی محسوس کر رہے تھے۔
فاربر کچھ نیا اور بڑا کرنا چاہ رہے تھے۔ مائیکروسکوپ دنیا سے حاصل کردہ علم کو بیماریوں اور مریضوں کی دنیا میں استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ نیویارک سے آنے والے پارسل میں زرد کرسٹل تھے۔ یہ امینوپٹرین تھی۔ انہوں نے یہ اس موہوم سی امید میں منگوائے تھے کہ وہ بچوں کے لیوکیمیا (خون کے سرطان) کے لئے کچھ کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کا لیکیومیا ڈاکٹروں کو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے پریشان اور کنفیوز کر رہا تھا۔ اس بیماری کا تجزیہ کیا جا چکا تھا۔ اس کو کلاسیفائی، مزید کلاسیفائی اور بہت صبر سے مزید تقسیم کیا جا چکا تھا۔ اینڈرسن اور بوائیڈ کی لکھی کتابوں میں لیکیومیا کے خلیوں کی تصاویر اور ٹیکسانومی تفصیل سے پڑھی جا سکتی تھی۔ لیکن یہ تمام علم میڈیکل سائنس کی بے چارگی کو بڑھا ہی دیتا تھا۔ فوٹوگراف اور تجزیے، جیسے کسی نمائش کے لئے ہوں۔ مریضوں کے لئے میڈیکل سائنس کے پاس کوئی عملی تجویز نہ تھی۔
تشخیص کر دینے کے بعد مرنے کا انتظار کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیوکیمیا کی دریافت 19 مارچ 1845 کو سکاٹ لینڈ کے ڈاکٹر جان بینیٹ نے کی تھی۔ ایک اٹھائیس سالہ مریض کو تلی میں پرسرار سوجن تھی۔ اسے پیٹ میں بائیں طرف ٹیومر محسوس ہوا تھا جو اگلے چار ماہ میں بڑھتا رہا اور پھر بڑھنا رک گیا۔
ٹیومر تو رک گیا لیکن مریض کی مشکلات بڑھ رہی تھیں۔ اگلے ہفتوں میں ایک کے بعد دوسری تکلیف نمودار ہوئی۔ بخار، خون بہنا، شدید درد کے دورے۔ پھر بغل، گردن اور ٹانگ پر ٹیومر نکلنے لگے۔ مریض کا اس وقت کا روایتی علاج جونکوں کے ساتھ حجامہ کیا گیا لیکن جلد ہی انتقال کر گیا۔ بینیٹ نے پوسٹ مارٹم کیا اور انہیں اس میں غیرمعمولی چیز نظر آئی۔ اس مریض کے خون میں سفید خلیے بہت ہی زیادہ تھے۔
یہ خلیے پیپ میں زیادہ ہوتے ہیں۔ بینیٹ نے اندازہ لگایا کہ کسی انفیکشن سے مقابلے کے لئے پیپ تھی اور مریض کا انتقال انفیکشن سے ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ لاش کے احتیاط سے کئے گئے تجزیے میں، ہر عضو اور ٹشو کو چھان لینے کے بعد کہیں پر بھی نہ انفیکشن ملی، نہ زخم اور نہ کوئی السر۔ ایسا لگتا تھا کہ خون خود ہی خراب ہو کر پیپ گیا ہو۔ بینیٹ نے اسے “خون کا پیپ بن جانا” کہا اور یہاں پر بات ختم کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینیٹ اس بارے میں غلط تھے۔ اس سے چار ماہ کے بعد ایک جرمن محقق رڈولف ورچو نے ایک اور کیس پبلش کیا جو ایسا ہی تھا۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون کا خون سفید خلیوں سے بھرا ہوا تھا۔ تلی میں کثیف چھالے بنے تھے۔ پوسٹ مارٹم کے وقت پیتھولوجسٹ کو اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے مائیکروسکوپ کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ سفیدی خون میں تیرتی نظر آ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ورچو کو بینیٹ کے کیس کا پتا تھا لیکن وہ بینیٹ کی تھیوری سے متفق نہیں تھے۔ یہ غیرمعمولی علامات انہیں پریشان کر رہی تھیں۔ اتنی بڑی تلی؟ پیپ کا کوئی ذریعہ نہیں۔ کوئی زخم نہیں۔ ورچو کو شک تھا کہ مسئلہ خون کا ایبنارمل ہو جانا ہے۔ انہوں نے اس بیماری کا نام “سفید خون” رکھا۔ 1847 میں اس کا نام لیوکیمیا کر دیا گیا۔ (لیوکوس یونانی زبان میں سفید کو کہتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینیٹ کی طرح ہی ورچو کو بھی نہیں پتا لگا تھا کہ بیماری کیا ہے لیکن انہوں نے صاف لکھا کہ وہ اس کو نہیں سمجھتے۔ یہ لکھنا اور ٹھیک نام دینا اہم اقدامات تھے جس نے سوچ کا میدان ہموار کیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply