کیونکہ میں زندہ ہوں ۔۔نعمان خان

عمیر حسرت نے نجانے کس دھن میں کہا تھا کہ ہر سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ ” میں زندہ ہوں”۔ اس کا کہا یہ جملہ کئی دنوں تک میرے ذہن میں اودھم مچاتا رہا ، اور میں اس جملے کے حصار میں رہا۔
مجھے گمان رہا ہے کہ یہ جملہ واقعی میں بہت جامع ہے۔ جیسے کوئی پوچھے کہ رو کیوں رہے ہو تو میں کہوں کیونکہ  کہ میں زندہ ہوں۔ کوئی پوچھے ہنس کیوں رہے ہو تو میں جواب دوں اس لیے کہ میں زندہ ہوں۔
خیر بات ہے اور جھٹلائی بھی جا سکتی ہے ، مانی بھی جا سکتی ہے۔ باتیں ماننے یا جھٹلانے کے لیے ہی تو ہوتی ہیں  ۔

قصہ ایسا گنجلک  و دماغی نہیں ہے ، بہت سیدھے سیدھے سوالات ہوتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ سیدھے ان کے جوابات ہوتے ہیں۔ جیسے کہ کل کہیں پڑھا کہ
Existence is a myth لطف لیا ، کافی دیر اس بات کا بعد ازاں اس کو بکواس کہہ کر کوئی اور بات تلاش کرنے لگ گیا میں۔

میں بھی اس کرۂ ارض کی اس مغلوب اکثریت میں سے ہوں جن کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے اور اس زعم کا شکار بھی ہوں کہ میں ہونے اور نہ ہونے کے اس کھیل کو اچھا خاصا سمجھتا ہوں۔
مجھے اچھا لگتا ہے کہ میری تمام پلاننگ کہیں اور بھی درج ہے۔
کل میں نے دن کے کسی لمحے ، جو لمحے پہلی بار آئے تھے ، اپنے دوست کو فون کیا اور کہا کہ یار عدالت کے کام چھوڑو اور آج کا دن مجھے دے دو۔ میرا دوست ایک مشہور و مصروف وکیل ہے اس نے میری بات مان لی اور پھر اپنے ایک اور دوست کو میں نے فون کیا کہ مجھے ملو ، مجھے تم سے ملنا آیا ہوا ہے۔
پھر ہم تینوں ایک ڈھابے پر اکھٹے ہوئے اور میں نے ان کو کہہ دیا کہ یار آج کا دن بہت مختلف گزرنے والا ہے۔ آج ہم بابو چاچا کو ملنے جاتے ہیں ۔
دھوپ بدن کو تسکین کم تکلیف زیادہ دے رہی ہے اور گرد اڑ رہی ہے۔۔ درخت مراقبے کی حالت میں ہیں ۔
تیز رفتار دنیا میں یہ دن بہت سست روی سے گزر رہا ہے اور ہم جیسے کاہل لوگ اس کا صحیح سے جائزہ لے رہے ہیں۔

سرائے نعمت خان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔اس گاؤں میں ایک دربار ہے ، علی محمد سرکار رحمۃ اللہ علیہ کا۔ بابو چاچا اس دربار پر ہوتے ہیں ۔بابو چاچا اس دربار پر کس عہدے پر فائز ہیں معلوم نہیں ۔بابو چاچا کب سے ہیں وہاں، یہ بھی معلوم نہیں ۔ بابو چاچا کا اصل نام کیا ہے یہ بھی معلوم نہیں لیکن جو جو معلوم ہے بتائے دیتا ہوں۔

بابو چاچا ایک ضعیف العمر شخص ہیں اتنے ضعیف العمر لوگ میں نے بہت کم دیکھے ہیں ، یہ بابو چاچا کی پہلی انفرادیت ہے۔ بابو چاچا کی کمر عمر اور وقت کے بوجھ سے جھک گئی ہے، بہت جھک گئی ہے مکمل کمان بن چکی ہے اور شاید کمان خالی بھی ہے ۔ بابو چاچا مسکراتے رہتے ہیں بغیر دانتوں کے بھی ان کی مسکان دنیا کی چند بہت بھلی مسکانوں میں سے ہے اور بابو چاچا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بابو چاچا کتابوں سے آلودہ نہیں ہیں۔  بڑے کھرے ستھرے اور فطری آدمی ہیں، ان کا لمحہ لمحہ خدمت میں گزرتا ہے اور نوازنے میں۔

ہم جونہی دربار میں پہنچے تو بابو چاچا ندارد ۔ وہاں بیٹھے ایک ملنگ سے پوچھا کہ بابو چاچا کہاں ہیں تو کہنے لگا کہ بابو چاچا کہیں گئے ہوئے ہیں،ہم منتظر بیٹھ گئے۔ انتظار وہاں بُرا نہیں لگتا ،ہمیں بھی نہیں لگا بُرا
ہم نے کہا کہ ان کے آنے تک سگریٹ کھول کر صاف کر لیتے ہیں ۔۔ مبادا کہیں بڑا ، اور برا تمباکو ہی نہ ہو۔۔

یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ ہمارے ہم خیال لوگ جو سگریٹ کی صفائی اور تمباکو کی باریکی کے قائل ہیں ، دکھائی دیے ، ہم نے ان کے پاس جانے کو بہتر جانا، ہم خیال لوگوں میں رہنا ایک حسین واقعہ ہے۔ اب تین چار سگریٹ مسلسل گردش میں ہیں اور یقیناً ان کا تمباکو باریک بھی ہے اور اچھا بھی۔ اسی اثناء میں بابو چاچا آجاتے ہیں ، بابو چاچا کو جب میں اپنے دوستوں کا تعارف ان کے علاقوں کے نام سے دیتا ہوں تو بابو چاچا مسکراتے ہوئے کہتے ہیں
” کتھے دیاں چڑیاں ، رب کتھے آنڑ ملائیاں”
کہاں کے پکھیرو رب نے کہاں آن ملائے۔  بابو چاچا کے آتے ہی سکون ، مسرت اطمینان سا ، ہر چیز پر ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہوا۔
بابو چاچا ایک فرد تو ہے ، بابو چاچا تہذیب بھی ہے۔ اپنے اپنے بابو چاچے تلاش کریں اور ان سے محبت کریں۔

مصطفی زیدی کا ایک شعر بھی پڑھیے

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی ابر بھی طوفان بھی ساغر سے اٹھا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply