کشف المحجوب ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

“کشف المحجوب” تصوف کے موضوع پر قریب قریب ایک ہزار سال قدیم دستاویز ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ دین کے حوالے سے بات جتنی قدیم ہوگیٗ اتنی ہی صداقت سے قریب تر ہو گی۔ سوٗ درجۂ اِستناد تک پہنچتی ہوئی تصوف کے حوالے سے کوئی بات تلاش کرنی ہو تو ہمیں” کشف المحجوب” سے استفادہ کرنا ہوگا۔ ایک بنیادی فکری مغالطہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے‘ جب ہم کسی موضوع سے متعلق ٗ غیرمتعلق لوگوں کی بات بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ تصوف کے حوالے سے بنیادی معلومات مستتشرقین سے نہیں ملیں گی۔ میرے پاس مریض آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سنا ہے فلاں اینٹی بائیوٹک کے بہت سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں، میں اُن سے پوچھتا ہوںٗ یہ بات آپ کو کسی ڈاکٹر نے بتائی ہے؟ وہ کہتے ہیں”نہیںٗ یہ بات ہم نے فلاں اور فلاں کی زبانی سنی ہے” جس شعبے کی بات زیر ِ غور ہو‘ اگر اس شعبے کے لوگ گواہی نہ دیں تو اُس بات کو افواہ کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ قانون کا شعبہ ہو تو ہمیں کسی ایڈووکیٹ کی بات پر اعتبار کرنا چاہیے، سڑکوں اور پلوں کی بابت کوئی بات دریافت کرنی ہو تو ہمیں کسی انجینیر سے رابطہ درکار ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تصوف کی بابت ہم مستشرقین، منکرین اور ملحدین کی سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرلیں۔

کشف المحجوب‘ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی وہ تصنیف ہے‘ جو زمانے کی دست برد کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ اِس کا اصل مسودہ آج بھی ماسکو کے میوزیم میں محفوظ ہے۔ماسکو سے چلنے والے قابضین بخارا اور سمرقند کے نوادرات پر بھی قابض ہو گئے۔ لاہور کی فضاؤں کو ناز کرنا چاہیے کہ کشف المحجوب لاہور ہی میں تحریر ہوئی۔
حضرت علی ہجویری‘ اکتوبر 1009ء میں آج کے افغانستان کے علاقے غزنین میں پیدا ہوئے، علم و فضل میں یکتا یہ نادرِ روزگار شخصیت تبلیغِ اسلام کی غرض سے اپنے مرشد حضرت ابوالحسن ختلی ؒ کے حکم پر 1039ء میں لاہور تشریف لاتی ہے اور تاحال یہیں مقیم ہے۔ اس وقت لاہور اگرچہ سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر پے در پے حملوں کے تحت مفتوح حالت میں فاتح کے قدموں میں گر چکا تھا لیکن یہاں کے باشندے اپنے فاتحین سے کبیدہ خاطرتھے۔ اِن کے دلوں کو فتح کرنا ابھی باقی تھا۔ یہ کام ظاہر ہے‘ اہلِ ظاہر کے بس میں نہیں تھا، چنانچہ اقلیمِ باطن سے باطن کی دنیا کا ایک شہسوار با پیادہ آیا— اور دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ لاہور کے دلوں کو اس طرح فتح کر لیاکہ اہلِ ہند اپنے فاتح کی جود و سخا دیکھ کر اِسے دان کرنے والے “داتا” کے نام سے یاد کرنے لگے۔ آپؒ کے ایک مریدِ باصفا حضرت ابو سعید ہجویریؒ آپؒ کے ہمراہ تھے، اُن ہی کے ایک سوال کے جواب میں آپؒ نے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ راہِ فقر و تصوف بنیادی طور پر “سلونی سلونی” کی صدائے باز گشت ہے۔ یہاں بے مقصد کلام نہیں، بلکہ صرف سوال کا جواب ہے —- بقدرِ ظرف اور بقدرِ طلب۔ کتاب کے آغاز میں آپؒ نے اپنے مریدِ باصفا کا تہہ در تہہ سوال بھی تحریر کیا ہے: سوال یہ تھا” مجھے بیان فرمایئے :تصوف کے راستے کی حقیقت اور صوفیا کے مقامات کی کیفیت ، اور اُن کے اقوال و نظریات اور رموز اور اشارات ، اور دلوں پر اللہ کی محبت کے ظاہر ہونے کی کیفیت ، اور یہ کہ انسان عقلیں آخر اِس کی حقیقت کی دریافت سے کیونکر حجاب میں ہیں، اوریہ کہ نفس اِس سے گریز کیوں کرتا ہےاور انسانی روح اِس کی پاکیزگی کے بیان سے آرام کیسے پاتی ہے؟”
اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنابِ ابو سعیدؒ کی طلبِ حق کس قدر شدید تھی کہ اُن کے سوال کے جواب میں حضور فیضِ عالمؒ نے ایک مکمل کتاب تصنیف کر دی۔ اس کتاب کے دیباچے میں آپؒ نے مقصدِ تصنیف بھی تحریر کیا ہے ” پس !میں نے یہ کتاب اس لیے تصنیف کی ہے کہ ان دلوں کو صیقل ( پالش) کرے جو حجابِ غینی ( عارضی حجاب) میں گرفتار ہیں لیکن اُن کے دلوں میں نورِ حق کا سرمایہ موجود ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کی برکت سے اُن سے حجاب اٹھ جائے گا اور وہ معانی کی حقیقت کی راہ پائیں گے”

صاحبو! پینتیس برس ہونے کو آئے ہیں، کشف المحجوب کا ایک عامی قاری ہوں، اگر کوئی مجھ سے پوچھے‘ کیا تم نے کشف المحجوب پڑھ لی ہے؟تو یقین مانیے ! میں اسے یہی بتا سکوں گاکہ ابھی پڑھ رہا ہوں۔یہ 13 جنوری 1985ء کی سردیوں کی ایک صبح تھی‘ جب مجھے حضرت واصف علی واصفؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپؒ نے اپنی کتاب”کرن کرن سورج” تحفے میں دی اور ساتھ ہی ساتھ “کشف المحجوب” پڑھنے کی تلقین کی۔ مابدولت ان دنوں فلسفے کی خارزار وادیوں سے گزر کر اپنا دامنِ خیال تار تار کر چکے تھے۔اس دن سے” کشف المحجوب” ایسی شروع ہوئی کہ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئی۔ بس— یہ کتاب ہے، ایک عالمِ تحیر ہے، اور ہم ہیں دوستو!

سچ پوچھیں تو کشف المحجوب کا ہر جملہ محبوب کی ایسی نشیلی آنکھ کی مانند ہے کہ اس میں بے محابا ڈوب جانے کو دل چاہتا ہے۔ یہ معنی دَر معنی کی ایسی وادیٔ ہوشربا ہے کہ اِس سے باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔یوں بھی ہوا کہ یہ کتاب دوستوں کے ہمراہ پڑھنا شروع کی اور ایک جملے کے دوران ہی فہم کی استعداد اور ہمت جواب دے گئی— صحو سے سکر تک شعور کا سفر ایک جست میں تمام ہوا— اور ایک فقرے پراِس فقیر کا فکر گھنٹوں صامت و ساکت رہا۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی کم و بیش ہر محفل میں” کشف المحجوب “سے کوئی واقعہ یا جملہ بطور حوالہ ضرور موجود ہوتا۔مقام ِ حیرت ہے کہ آپؒ ایک ہی واقعے سے مختلف جہات کے کتنے ہی اسباق باآسانی اخذ کر لیا کرتے ۔ یہ کتاب فی الواقع ایک کتابِ حیرت ہے۔ مرشد نے معرفت کو ہمہ حال تحیر سے تعبیر کیا ہے۔ آپؒ اکثر اوقات یہ جملہ دہراتے‘کوئی اس کا کتاب کا آسان زبان میں ترجمہ کردے تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جائے۔ صاحبو! میں نے جانا کہ یہ جملہ میرے لیے تھا، چنانچہ گزشتہ کچھ عرصے سے چند احباب کی مددسے اِس نایاب دستاویز کا آسان فہم ترجمہ کرنے کی سعی ٔ مسلسل میں ہوں۔ یہ راز قبل اَز وقت اس لیے طشت اَز بام کر رہا ہوں کہ یار لوگ مجھ سے پوچھتے رہیں اور اِن کا پوچھنا میرے لیے محرک و مہمیز ہو۔میرے اخلاص میں اتنا دم کہاں کہ مدح اور ذِمّ ایسے محرکات سے آزاد ہو سکوں اور اپنے وجود کے جمود سے ٗبغیر کسی بیرونی تحریک کے ٗباہر نکل سکوں۔ اِس ترجمے کی تحریک یوں بھی ہوئی کہ فی زمانہ تصوف کے اصل چہرے پر کئی پردے ڈال دیے گئے ہیں، کچھ اپنوں کی کرم فرمائیاں اور کچھ غیروں کی مہربانیاں کہ تصوف کو دین کے متوازی ایک دین بنا دیا گیا۔ ہم دوستی اور دشمنی دونوں انتہاؤں کی خبر لانے والی قوم ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا میں بسنے والے اسے ایک عجمی پودا تصور کرتے ہیں، وہ ظاہر پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں، نماز پڑھتے ہیں‘ قائم نہیں کرتے، اُن کا روزہ سحر اور افطار کی گھڑیوں سے آگے نہیں بڑھتا، وہ کسی حکم کی غایت اور منشا تک پہنچنے کی جستجو کو تصرف فی الدین تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف بائیں بازو کی انتہا میں لبرل لوگ ہیں ‘جو تصوف کے کسی ایسے آسان ایڈیشن کے انتظار میں ہیں جوشریعت کی قید سے”آزاد” ہو۔ غرض !انہیں اپنی ذہنی عیاشی کے لیے تصوف نامی کسی پُرسکون جزیرے کی تلاش ہے۔ ایسے عالم میں تصوف کے اصل جوہر کو سامنے لانا اشد ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے یہ کام آج سے ہزار برس پہلے ہوا پڑا ہے۔ فارسی زبان اور اُس کے بوجھل تراجم راہِ تفہیم میں حائل ہیں۔ میرے پاس اُردو اَدب سے شغف رکھنے والے نوجوان آتے ہیں، پوچھتے ہیں ” کشف المحجوب” کا مطالعہ مطلوب ہے ‘ کون سا ترجمہ پڑھنا چاہیے؟ ہر ترجمہ تجویز کر کے دیکھ لیا ٗ نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوا۔ نوجوان کچھ صفحات کے بعد ہی دل چسپی قائم نہیں رکھ پاتے۔ کچھ تراجم اتنے ثقیل ہیں کہ عام عوام کی فہم سے باہر، اور کچھ اتنے سادہ کہ اصل عبارت کا مفہوم ہی ماند پڑ جاتاہے۔خانۂ سماعت میں مرشد کی بات بھی گونج رہی تھی اور حالات و واقعات بھی اِس اَمر کا تقاضا کر رہے تھے کہ اِس کام کا بیڑہ اُٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ بہت جلد یہ حقیقت بھی منکشف ہو گئی کہ یہ استعداد اور استحقاق سے کہیں آگے کا معاملہ ہے، یہاں توفیقِ الٰہی کے سوا کوئی اَمر معاون نہ ہو گا۔ بس! ایک دشت ِ فکر کی پہنائی ہے اور ہم ہیں دوستو!!

“کشف المحجوب” میں ایک جملہ درج ہے‘ مفہوم اِس کا یوں ہے کہ نبی اپنی اُمت سے باطنی جہت سے مخاطب ہوتا ہے، صاحبو! بارگاہِ نبوت ورسالتؐ کے فرستادہ اَولیاء بھی باطنی جہت سے کلام کرتے ہیں اور اُن کی تصانیف بھی اپنے قاری کے باطن سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ظاہر کی حد مقرر کی جا سکتی ہے‘ باطن کی کوئی حد نہیں کہ ہر باطن درحقیقت باطن دَر باطن ہوتا ہے۔ ظاہر و باطن کے سنگم پر اِس کا آغاز تو موجود ہے‘ لیکن اِس کی انتہا کہیں نہیں۔ باطن ایک ایسا واقعہ ہے کہ جب ایک بار وقوع پذیر ہو جائے ‘ تو صدائے “کُن” کی طرح اس کی گونج مسلسل جاری رہتی ہے۔ یہ بے حد— اَن حد تک پہنچائے بغیر دم نہیں توڑتا۔ ظاہر میں اُس کی صفات ملتی ہیں —باطن میں وہ خود ملتا ہے۔ الغرض “کشف المحجوب” کی باطنی واردات کبھی کم نہیں پڑتی۔ یہ ہرلمحہ نئی آن اور نئی شان کے ساتھ اپنے قاری کے شعور کے ساتھ ہم کلام ہوتی ہے۔ اخلاص اور تسلیم شرط ہے۔” کشف المحجوب” کا ہر جملہ اپنے موضوع پر ایک مکمل مقالہ ہے۔ اگر فارسی متن سامنے رکھ کر پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تحریرحسن ِ بلاغت سے کس قدر مالا مال ہے۔ یہ کتاب نہیں ٗبلکہ ایک نصاب ہے۔ یہ تصنیف ِ دل پذیر سالک کے لیے بیک وقت ایک ٹیکسٹ بک بھی ہے اور ریفرنس بک بھی، اسے سالک کی ایک بیڈ بک ہونا چاہیے۔

معلوم ہوا کہ ترجمہ مترجمین کے لیے نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ عام قارئین تک بات پہنچانے کے لیے ہونا چاہیے۔ بسا اوقات ہم اپنے ہنر کی داد پانے کی کوشش میں اپنے ہدف سے دور ہو جاتے ہیں۔ مضمون اور صاحبِ مضمون سے وابستگی اچھے ترجمے کی کلید ہے۔ بات سمجھ کر سمجھانے کا قرینہ ترجمہ کہلاتا ہے۔ ترجمہ کرنا لغت کا کام نہیں، لغت صرف الفاظ کا متبادل مہیا کرتی ہے۔ بہترین متبادل کا انتخاب ہی مترجم کا امتحان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی لفظ اپنے علاوہ کسی اور لفظ کا مترادف نہیں ہوتا — انسانی چہرے کی طرح ہر لفظ اپنی جگہ بے مثال اور بے بدل ہے۔ ترجمہ اتنا آسان اور بامحاورہ ہونا چاہیے کہ ایک اوسط درجے کا قاری اصطلاحات میں اُلجھے بغیر اسے بلاتکان روانی سے پڑھتا چلا جائے۔ مترجم کو مصنف اور اس کے قاری کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے۔ روحانی کلام کے ترجمے کے ضمن میں تشریح اور تحریف دونوں اصل متن میں متصرفات کے باب ہیں ۔ مترجم کو متصرف نہیں ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترجمہ اگر اصل تحریر کی چاشنی کا مزہ نہ دے‘ تو سمجھ لیں کہ ترجمے کا حق ادا نہیں ہوا۔ ترجمہ دراصل ایک ترجمانی ہے۔ ہر جملے کو ایک مکمل مضمون سمجھ کر اِس کی ترجمانی نہ کی جائے تو سمجھ لیں‘ ترجمہ مکمل نہیں ہوا۔ ہم اس قابل کہاں کہ اُن کی ترجمانی کریں، ہاں! وہ قبول کر لیں تو اور بات ہے۔
ع گر قبول افتد‘ زہے عز شرف!

Advertisements
julia rana solicitors

تصوف اور شریعت میں کیا ربط اور رابطہ ہے— ظاہر اپنے باطن سے کیسے متعلق ہے—- تزکیۂ نفس اور اِخلاص کا حصول کیسے ممکن ہے، معرفت ِباری تعالیٰ کی حقیقت کیا ہے ، روح کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے، قدیم حادث سے کیونکر ممیز ہے، توحید کی تعریف کیا ہے، تصوف میں رائج کون سا فکر صائب ہے اور کون سا غیر صائب ، تصوف کی مختلف اصطلاحات کی تعبیر اور تطبیق کیا ہے، نماز ‘روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی حقیقی روح کیا ہے— اِن سب کی حقیقت کشف المجحوب میں یوں بیان کر دی گئی کہ ایک طالب حق کی نظر میں محجوب مکشوف ہوا جاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply