مولانا ریپبلک آف پاکستان۔منصور ندیم

 پاکستان  کے  تمام حلقوں خواہ وہ سیاسی ، مذہبی یا ریاستی عسکری ادارے ہوں ، ایسا لگتا ہے ان سب کی باگیں احتجاج پسندوں اور شدت پسندوں کے حوالے ہیں، اور  یہی  کلچر بتدریج پروان چڑھ کر عوامی مجمعوں میں بھی آ گیا ہے ، اب انصاف اور عدل کا ہر   فیصلہ  سماج کے پاس صرف احتجاج کے ذریعے حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے۔پاکستان میں سیاست ہو یا مذہب  دونوں ہی شدت پسندی اور بد تہذیبی کے مظاہر پر نظر آرہی ہے-

تحریک  لبیک یا رسول اللہ کے مولوی خادم حسین رضوی اور سنی تحریک کے عباس قادری  جن کی  جماعت کو پاکستان کی وزارت داخلہ نے کالعدم جماعت بھی  قرار دیا ہوا ہے، ان دنوں دونوں جماعتوں کے کارکن راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے جڑواں شہروں کے افراد کو سفر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دوران احتجاج گزشتہ ہفتے ایک ایمبولینس کو راستہ نہیں دیا گیا ایمبولینس کو راستہ نہ   ملنے کے باعث ایک آٹھ سالہ بچہ حسن بلال وقت پر ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے انتقال کر گیا۔

یہ صورتحال بظاہر جاری رہنے کے امکانات ہیں, تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے راولپنڈی اور اسلام آباد کی انتظامیہ کی کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ یہ جماعت وزیر برائے قانون زاہد حامد کے استعفے کے بغیر مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی ٹیم کے رکن عنایت الحق نے کہا کہ وزیر قانون کے مستعفی ہونے کے بعد ہی دیگر مطالبات پر مذاکرات کریں گے۔ لوکل انتظامیہ نے ہم سے بارہا  رابطہ کیا، ہمارا پہلا مطالبہ وزیر کے استعفی کا ہے ، سیون سی اور بی کی پہلی حالت میں بحالی، چاروں طرف اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر لگانے کی اجازت دی جائے، آسیہ بی بی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس کو تیزی سے چلایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو 12 ربیع الاول کو ملک بھر سے نکالے جانے والے جلوسوں کا رخ اسلام آباد کی جانب ہوجائے گا۔

اس وقت اگر آپ اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی اور خارجی راستوں پر جا کر کھڑے ہوں تو پریشان حال شہریوں، سامان سے لدے ہوئے ٹرکوں کے علاوہ جو سب سے اذیت ناک آواز ہو گی وہ ایمبولینس کے سائرن کی ہو گی جسے راستہ دینا شاید کسی کے بس میں نہیں ، نہ گاڑی چلانے والے کے اور نہ ہی باہر موجود ٹریفک وارڈن کے۔ٹریفک دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کسی وجہ سے چند منٹ کے لیے ٹریفک رک جائے تو اسے دوبارہ بحال ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ اس میں وقت اور انسانی جانیں  ضائع ہو جاتی ہیں۔ جس ملک میں آئے دن جلسے جلوس ہوتے ہوں‘ وہاں زندگی معمول کے مطابق نہیں چل سکتی۔  مطالبے اور احتجاج کی نفسیات ایک قوم کی قوتِ عمل کو سلب کر لیتی  ہے اور اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔

اسلام آباد میں احتجاج کرنے والا گروپ اشتعال دلوانے کے لیے نفرت پر مبنی تقاریر بھی کر رہا ہے -اگر کوئی مولوی خادم حسین رضوی کی صرف وہ تقاریر جمع کر دے جو گزشتہ ایک ہفتے میں فرمائی گئیں‘ اور پھر ایک عامی سے سوال کرے, کیا ان میں سے کوئی ایک تقریر ایسی ہے جسے مذہبی اخلاقیات  کےلیے بطور مثال سنایا جا سکے؟  تو یقیناً  اس  کا جواب ماسوائے شرمندگی کے کچھ نہ ہوگا۔

احتجاج کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں۔ اگرچہ ایک جمہوری معاشرے میں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، میڈیا آزاد ہو‘ آزادیٔ اظہارِ رائے کو بطور قدر مانا گیا ہو، وہاں احتجاج کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ احتجاج اس لیے ہوتا ہے کہ بات کی شنوائی نہ ہو۔ جہاں یہ مسئلہ نہ ہو وہاں احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا؛ تاہم اس کے باوجود میں احتجاج کو لوگوں کا جمہوری حق تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے کچھ آداب بھی ہونے چاہییں۔ پاکستان کا آئین نقل و حرکت کو ایک شہری کے بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے۔ وہ احتجاج کس طرح آئینی ہو سکتا ہے‘ جو ایک شہری کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے؟

سوال تو ان مذہبی ٹھیکیداروں سے بھی بنتا ہے کہ  جو خود کو خدا کا منتخب طبقہ کہلانے کے  دعویدار بنتے ہیں اور عام عوام کے لیے جن کا دعویٰ  ہے  کہ صرف وہی اصل اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں۔ اتنے بڑے کام کا دعویٰ  کرتے ہوئے  گالم گفتار کرتے ہیں، پھر گالیوں کا جواز اسلامی تعلیمات سے پیش بھی کرلیتے ہیں۔شاید افتخار عارف کا مصرع ان کے لیے ہی ہے کہ”امت سید لولاک سے خوف آتا ہے” ۔

حیرانی کی بات ہے کہ دو تین ہزار افراد نے کس طرح دارالحکومت کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔
کیا یہ سوال نہیں پیدا ہوتا ہے کہ ‘ایک دہائی کی دہشت گردی کے بعد بھی ریاست شدت پسندوں کے ہجوم کو اسلام آباد کا محاصرہ کرنے سے روکنے کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی ریاست میں یہ صلاحیت ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کوئی بھی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کیا ریاستی اداروں کی اس خوفناک خاموشی کو ان کی رضامندی سمجھا جائے؟ کہیں یہ اس تاثر کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کافی نہیں کہ شاید   ان دھرنے والوں کو کسی کی تھپکی ضرور ہے، ورنہ حکومت کے لیے ان چند سو افراد کو ہٹانا کوئی مسئلہ نہیں‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرحکومت عام  شہریوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو  انہیں پاکستان کا موجودہ نام بدل کر  “پاکستان بنانا ریپبلک”   یا   “پاکستان مولانا ریپبلک”  رکھ دینا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply