مذہبی و مسلکی آزادی۔۔سکندر پاشا

مذہبی حوالے سے اگر بات کی جائے تو بہت دور تلک نکل جائے گی، لیکن مسلکی حوالے سے خوشی یا غم کا دن ہو تو دوسرے مسالک والے ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ تم وہابی، تم دیوبندی، تم بدعتی و مشرک بریلوی ہو تم فلاں ہو اور تم تو فلاں ہی ہو۔

حضور ﷺ کا میلاد منانا بطور خوشی کے زیادہ احسن ہے یا پھر وفات بطور غم منانا زیادہ اہم ہے۔؟ یہ بریلوی مکتبہ فکر کا مسئلہ ہے۔

بارہ ربیع الاوّل کو سنی دیوبندی مکتبہ فکر کے علما  سیرت النبی کانفرنس یا خاتم الانبیاء یا اسی طرح دیگر ناموں کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں۔اب وہ غم کے طور پر مناتے ہیں یا پھر بریلوی مکتبہ فکر کی مخالفت میں مناتے ہیں۔؟ یہ سنی دیوبندی مکتبہ فکر کا مسئلہ ہے۔

اسی طرح سنی دیوبندی مکتبہ فکر کے علما  یومِ  ابو بکر صدیق، یومِ  عمر فاروق، یوم عثمان غنی، یوم علی المرتضی اور یوم حسن وحسین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) مناتے ہیں۔
اب یہ غم کے طور پر مناتے ہیں یا شیعہ مکتبہ فکر کی مخالفت میں یہ دن مناتے ہیں۔؟ یہ سنی دیوبندی مکتبہ فکر کا مسئلہ ہے۔

کیونکہ ظاہری طور پر صرف شخصیات میں فرق ہے کہ ایک طبقہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ولادت مبارکہ کا دن بطور خوشی مناتے ہیں اور دوسرا طبقہ حضور ﷺ  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادت یا وفات کا دن بطور غم یا کسی مکتبہ فکر کی مخالفت میں مناتے ہیں۔

فرق اتنا ہے کہ جو بریلوی مکتبہ فکر منا رہا ہے اسے    دیوبندی مکتبہ فکر بدعت کہتا ہے اور حضور ﷺ کے ولادت کے دن کو قرآن وحدیث یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں اس دن کے منانے کی شرعی حجت مانگی جاتی ہے۔

اس کے مقابل سنی دیوبندی طبقہ بھی حضور کے ولادت کے دن بھی حضور ﷺ کے نام سے منسوب کانفرنس یا جلسہ منعقد کرتے ہیں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟
یا صحابہ کرام کی تاریخ شہادت یا وفات کے دن کو کیوں جلوس اور کانفرنس کرکے منعقد کیا جاتا ہے اور اس کی شرعی کیا حیثیت ہے۔؟

کیونکہ ایک طرف خوشی کے طور پہ یہ دن منایا جا رہا ہے اور دوسری طرف بطور غم یا کسی مکتبہ فکر کی مخالفت میں منایا جاتا ہے، فرق تو کچھ خاص بالکل بھی نہیں۔

آپ نہیں مانتے تو نہ  مانیں، لیکن تمام مکاتبِ  فکر میں کچھ ایسی غلطیاں ضرور ہیں جن کا قرآن و حدیث یا صحابہ کرام کی زندگی میں کوئی ثبوت نہیں ملتا، اگر بالفرض کوئی دلائل گھڑتا بھی ہے اور مقدس شخصیات کے دن کو بطور غم یا خوشی کے مناتا بھی ہے تو کم سے کم ان کو آزادی کا حق دینا چاہیے۔

بریلوی مکتبہ فکر میلاد کا دن بطور خوشی مناتے ہیں تو منائیں، سنی دیوبندی خلفائے اربعہ کی شہادت یا انتقال کے ایام بطور غم مناتے ہیں تو منائیں، لیکن اس قدر تعصب پسندی اختیار کرکے ایک دوسرے پر فتوے لگانا تو سمجھ سے باہر ہے، جبکہ ہمارے ہاں آپس کی مذہبی و مسلکی تعصبات انتہائی زیادہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ منافرت پھیلتی جا رہی ہے۔

بریلوی ہیں تو دیوبندیوں کو بھاشن دیتے ہیں (میرا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے ہے) کوئی دیوبندی ہے تو بریلوی پہ شرک و بدعت کے فتوے لگاتا ہے۔

مسلکی معاملات پر فتویٰ  کتابوں کی حد تک ٹھیک رہتا ہے، کیوں ہر طرف کے علما  نے ایک دوسرے کو گمراہ ثابت کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کے نتائج کبھی مثبت نکلے ہوتے تو آج اس قسم کی نفرتیں نہ ہوتیں۔ اور اگر ہم نجی زندگی میں بھی اس قسم کی چیزیں کتابوں سے نقل کرکے دوسروں پہ تھوپنے لگ جائیں تو بذات خود میں اس عمل کو اچھا نہیں سمجھتا۔ تمام مسالک کے علما  نے ایک دوسرے کو قرآن و حدیث سے دلائل کی روشنی میں اپنے اپنے مسلک کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے مثبت نتائج تو ہمیں آج تک نظر نہ آئے۔

مذہبی معاملات میں اگر قانون اور آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کوئی حدود سے  تجاوز نہیں کرتا تو اس کو آزادی دینی چاہیے، اور مسلکی معاملات میں ہر کسی  کو چھوٹ ہونی چاہیے۔

بحیثیت مسلمان اور پھر ہر بندہ اپنی ذات میں یا اپنی گھریلو زندگی میں یا اپنے رشتہ داروں میں کتنے قرآن و حدیث مخالف رسوم و رواج اپنائے ہوئے ہے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

کم سے کم اپنے معاشرے میں یا اپنے گھر اور رشتہ داروں پر ہم تنقید کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ ایسا نہ ہو ہم ان کی نظر میں کھٹک جائیں اور وہ ہم سے نفرت کرنے لگ جائیں، تو خدا کے لئے یہاں بھی ایک دوسرے کا خیال رکھیے، جس طرح آپ اپنے حقیقی  رشتوں کا خیال رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply