• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/اپنے وقت کا ایک عظیم کلاسیکل شاعر ابونواس مجھ سے ہمکلا م تھا (قسط18)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/اپنے وقت کا ایک عظیم کلاسیکل شاعر ابونواس مجھ سے ہمکلا م تھا (قسط18)۔۔۔سلمیٰ اعوان

بغداد کی رات کے اِس پہلے پہرجب میں دجلہ کے پانیوں میں ڈوبی روشنیوں کے عکس، کہیں اُن سے بنتے کہکشاں جیسے راستے، کہیں چمکتے دمکتے چھوٹے چھوٹے گولے سے پانیوں میں مستیاں کرتے، کہیں قریبی ہوٹلوں کی روشنیاں ستاروں جیسے روپ لئیے پانیوں میں اُتری ہوئیں، کہیں مُنے چُنے قمقمے جلتے بُجھتے دیکھتی اور ان کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے رُوپ اور صُورتوں کے تحّیر میں گُم تھی۔مجھے تو معلوم بھی نہ ہوا تھا کہ کب ایک وجہیہ عرا قی بو ڑھا میرے پاس آکر بیٹھ گیا تھا۔اُسکا روایتی لباس، اُس کی مخمور آنکھیں، اُسکی سنہری رنگت، اُسکا بانکپن سبھوں نے میری توجہ کھینچ لی تھی۔میں نے قدرے حیرت اور استفہامیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا تھااور اُس کے بارے میں کُچھ جاننے کی خواہشمند ہوئی۔
یقیناََ آنکھوں کی زبان اُس نے پڑھ لی تھی۔گھن گرج سی تھی لہجے میں جب بولا تھا۔
”میرے نام سے منسوب جدید بغداد کی اِس اہم شاہراہ ابونواس پرتم کس ٹھُسّے
سے بیٹھی ہو۔اور تم نے نہ مجھے یاد کیا، نہ خراج تحسین پیش کیا۔حد ہو گئی ہے دجلہ کے فراق میں ہی گھُل رہی ہو۔“
”اوہَو“میں مسکرائی تھی اور سمجھ بھی گئی تھی کہ میرا مخاطب کون ہے؟
”کمال ہے جب سے یہاں آکر بیٹھی ہوں آپ کے ہی خیال میں تو گم ہوں۔“
شاعر کی جوانی،اُس کے دلکش خدوخال، اُس کی شہابی ر نگت اور سنہرے بال اگر تب راہ چلتے لوگوں کو متوجہ کرتے تھے تو بڑھاپا بھی کم شاندار نہ تھا۔شاہوں جیسا بانکپن تھا اُس میں۔
سچی بات ہے وجاہت تو آنکھوں میں کُھب گئی تھی۔مرعوبیت نے وضاحت بھی فوراً ہی کرنی شروع کردی تھی۔
”لو میں نے تو جب عراق آنے کا قصد کیا۔عراق سے متعلق لٹریچر اور معلومات کے جھمیلوں میں اُلجھی۔تم تو اُسی دن سے میرے سامنے آگئے تھے اور میرے ساتھ رہنے لگے تھے۔اور یہ بھی تھا کہ میں ابونواس روڈ پر دجلہ کے کنارے بیٹھ کر تم سے لمبی چوڑی باتیں کرنا چاہتی تھی مگر یہ افلاق مجھے مچھلی کے چکروں میں ڈالے ہوئے تھا۔اب تھوڑی سی تفصیل تم بھی سُن لو تاکہ تمہارا گلہ کچھ دور ہوسکے۔
مچھلی کھلانی ہے آپ کو۔اُس نے گاڑی ایک جگہ پارک کر دی تھی۔
”مچھلی“بلڈ پریشر کا بھُوت میرے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
میرے اظہار پر وہ من موہنا سا لڑکا ہنس پڑا تھا۔
دجلہ کے کنارے بیٹھ کر مچھلی نہ کھائی تو بغداد آنے کا فائدہ۔میں ہلکے نمک کے ساتھ بنانے کا کہوں گا۔
تو پھرAL MAZGOUFفش ریسٹورنٹ میں آگئے۔ یہ تمہاری ابونواس روڈ ڈانس کلبوں اورکیسنو کیلئے بھی بڑی شہرت رکھتی ہے۔
یہاں دجلے کے کنارے کنارے دُور تک چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹوں کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا ہے۔عمارتیں، ہوٹل اور صفائی سُتھرائی کا معیار تو بس اوسط درجے کا ہی ہے لیکن روشنیوں،دجلہ،گھاس کے لان،درختوں کا پانی میں جھکاؤ،ماحُول اور لوگوں کے اُبلتے سیلاب نے اِنہیں خاص بنا دئیے ہیں۔اندر باہر طوفان سا برپا ہے اور لگتا ہے جیسے پانیوں کے اوپر ایک جہاں آباد خود میں گُم ہے۔
ایک کونے میں شطرنج کھیلی جا رہی ہے تو ذرا آگے تاش کی بازی جمی ہوئی ہے۔فضا میں کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلی ہوئی ٍ ٭٭٭
ہیں۔بچوں والے لوگ ہیں تو محبتوں اور یاریوں والے بھی بہتیرے ہیں۔شیشہ پینے والے کِس مزے سے بیٹھے حقّہ پیتے اور موسیقی پر سردھُنتے ہیں۔موسیقی بہت اونچی پر دلنواز سی ہے۔
عراقی موسیقی،میسو پوٹیما موسیقی اور عرب موسیقی کا دل کش امتزاج ہے جس پر
ایرانی روایتی موسیقی نے بھی اپنا اثر ڈالا ہے۔یہ افلاق نے مجھے بتا یا ہے ابھی۔
یہ عودOudبج رہا ہے اور یہ مشہور عوڈسٹOudist احمد مختار ہے۔
تالاب کے کنارے کھڑا افلاق کچھ بات کرتا ہے۔میں بھی پاس چلی گئی
تھی۔مچھلیوں کی تو بہار لگی پڑی تھی۔چھلنی سے تین نو عمر لڑکے گاہکوں کے بتانے پر مچھلیاں پکڑ
پکڑ کر اِس زور سے فرش پر مارتے تھے کہ بیچاریوں کو شاید سانس لینا بھی نصیب نہ ہوتاتھا۔
چاقو سے پیٹ چاک ہوا۔گند مند نکلا پھر مچھلیاں لوہے کی سلاخوں میں پرو کرکونے میں بنے لکڑیوں کے آلاؤ کے گرد کھڑی کر دی گئیں۔
اور جو لڑکا شیف کا کام کرتا ہے بڑی شان ہے اُس کی بھی۔پینٹ قمیض پہنے ایپرن چڑھائے، وجاہت والا جیسے شیف نہ ہو آرٹسٹ ہو۔
”زندگی تو کھانے کیلئے ہے“جیسے خیال رکھنے والوں کیلئے تو یہ لوگ آرٹسٹ ہی ہیں۔بیٹھنا میں نے وہاں چاہا تھا”جہاں تیرا نظارہ درمیان میں“والی بات ہو بغداد میں دجلہ سے بڑا”تیرا“بھلا کون ہو سکتا ہے۔یوں تمہارا خیال بھی تو ساتھ ہی تھا۔
ہاں یہ بات بھی ہے تمہارے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں کہ پاکستان میں جو کچھ تم پر پڑھا وہ ادب کے حوالوں سے تو بہت اہم تھا۔مگر مجھ جیسی کچھ تنگ نظر، رواجی اخلاقیات کے بندھنوں میں جکڑی عورت کیلئے بظاہر کچھ اتنا پسندیدہ نہ تھا۔کہیں رسوائے زمانہ نظروں سے گزرا۔کہیں مذہبی اقدار کا باغی اور کہیں شہوانیت کا مارا ہوا۔پر اندر کی بات بتاؤں کہ میں نے بھی چَسکے لے لے کر تمہیں پڑھا اور اپنی ادبی سہیلیوں کو بھی سُنایا۔
خیر لونڈے تو تمہاری شاعری کا ایک مستقل مزاج حصّہ ہیں۔ایک ایسی نظم جسمیں عقیدے اور مذہب کی بھی جھلک ہے وہاں یہ دیوانگی کفر کی حد تک چلی جاتی ہے۔پھڑ پھڑ کرتی شاعری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی ہے۔
Last Friday night I encountered a mob
of wildly milling men all yelling
“Judgment! The Last Hours upon us!
The return to Allah! The prophets say
a sign of the End shall be
the Sun at Midnight! Here it is!
We tremble! We submit!”
I laughed & said, ” This is no sun
that rises as a star, but only
my friend, young Ahmad, brightening
the velvet canopy with his crystal track,
the dogstar on his forehead, venus on his cheek”
دیرتک میں اِس نظم کے حصار میں قید رہی تھی۔
ابو نواس تمہاری اس نظم کو پڑھتے ہوئے میرے اندر کے شیطان نے اگر چَسکہ لیا تھا تو خیر کے تربیت یافتہ پہلو نے فطرت کے خلاف ورزی پر احتجاج بھی کیا تھا۔
I love a willing boy, a dangerous gazelle
his Forehead a moon half-veiled
by the clouds of his coalblack hair
who lolls around in his underwear
demands no jewelry or perfume
never goes on the rag
or gets pregnant
ایک شام تمہاری ایسی ہی نظمیں پڑھتے ہوئے جہاں تم نرم و نازک لطیف سے جذبات پر بہتے بہتے گندگی کی پاتال میں اُترجاتے تھے۔میں نے بے اختیار ہی اُس وقت ہاتھوں میں پکڑے نظموں کے پلندے کو درازمیں گھسیڑ دیا تھا کہ میرا بڑا بیٹا غضنفر کمرے میں داخل ہوا تھا۔عالمی ادب کے قدیم و جدید شعرا اور ادیبوں سے شناسا اپنے اِس بیٹے سے میں نے تم پر بات نہیں کی تھی۔
Come right in boys. I’m
a mine of Luxury–dig me
Well-aged brilliant wines made by
monks in a monastry! shish-kababs!
roast chickens! Eat! Drink! Get happy!
and afterwards you can take turns
Shampooing my tool
اور پھر ایسے ہی ایک دن میں نے زچ آکر انہیں پٹخ دیا اور خود کو لعن و طعن کرتے ہوئے اپنے اندر کو ڈپٹا۔
”بہت ہوگیا۔بہت ہوگیا علموں بی بی بس کر اب۔تھوڑی دیر کیلئے اِس موضوع سے ہٹ کر اُس کی شاعری کی اورخوبصورت پرتیں دیکھ۔لونڈے بازی پر ہی تیری سوئی اٹک گئی ہے۔
ابونواس “
میں نے کُرسی کی اگلی ٹانگوں پر زور ڈالتے اور پچھلی کو اٹھاتے ہوئے خود کو اُس کے قریب کیا۔
”مجھے یقیناََ اپنی خوش قسمتی پرر شک آ رہا ہے کہ آٹھویں صدی کے وسط اور آخری دہائی کاعربی کلاسیکل شاعری کے ایک بہت بڑے نام کاحامل شاعر ابونواس نے مجھے شرفِ ملاقات بخشا ہے اور میرے پاس آ کر بیٹھا ہے۔ “
”ابو نواس“
میں کچھ جھجھکی تھی۔
”کہو۔ جو کہنا چاہتی ہو۔تم ایک دبنگ بندے کے سامنے بیٹھی ہو۔“
“ابو نواس میں گنہگار سی کچی پکی مسلمان عورت تمہاری شاعری کا جو ورقہ پھرولتی تھی وہی مجھے مایوس سا کرتاتھا۔ ابونواس میں جاہل سی،محدود سے ذہنی افق کی مالک تمہاری شراب اور شراب نوشی،لونڈے بازی،پھکڑبازی اور خدا سے مخول بازی کو اس طرح ہضم نہ کر سکی جیسے شاید باقی لوگ کرتے ہوں گے۔اب میں بھی کیا کروں تم خمریات(Khamriyyat)(شراب نوشی) مدحققارات(Mudhakkarat)(لونڈے بازی) اورمجنیات(Mujuniyyat)(کفر بکنے والا)کے چکروں سے ہی نہیں نکلتے تھے۔
شاعری کا سارا تانا بانا تو ان ہی موضوعات کے گرد بُنتے رہے۔“
”بس تو اتنا سا علم لے کر بیٹھی ہو۔“
ابونواس نے اپنے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت کو مضبوطی سے ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے درمیان میں معمولی سے خلا کا راستہ بھی بند کرتے ہوئے گہرے طنز سے کہا۔
”ایک میں کیا بغداد کے بیشتر شُعرا اور لکھاری بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عرب دُنیا کی اکثریت کا یہی انداز تھا۔چلوابنِ روا ندی کو چھوڑو تمہارا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ولادہ بنت المستقفی کی شاعری کا تو جائزہ لینا تھا۔تمہیں پتہ چلتا نویں صدی کی عورتوں کی روشن خیالی اور دانشوری کا۔ابو العلاء المعریٰ کو پڑھنا تھا۔اس کے ہاں اگر شہوانیت نہیں مگر مذہب پر تنقید ہے۔خدا پر ایسی نُکتہ چینی ہے کہ تم جیسے چھوٹے ذہن کے لوگ پل نہ لگائیں اور مُرتد اور کافر کے فتوے دائر کردیں۔ جنت اور جہنم کے پسِ منظر میں لکھی گئی اُس کی مشہور نظم ”رسالت الغفران“ کہ جس سے دانتے نے متاثر ہو کر ڈیوائن کامیڈی لکھی۔ہمارے عہد کے مفکر،دانشور،شاعر اور ادیب زیادہ ترقی یافتہ تھے۔تم لوگوں کی نسبت زیادہ روشن خیال تھے۔
وہ تمہارے محبوب فارسی کے شُعرا عُمرِخیاّم اور حافظ جن کی شاعری پر تم جیسے لوگ سر دُھنتے ہیں۔میرے ہی تو جانشین ہیں۔میری روایات کے امین ہیں وہ۔یونانی اور رومی شاعروں کو پڑھو۔ دنیا کے فلاسفروں اور دانشوروں کا مطالعہ کرو۔ انکے کام بھی میرے جیسے ہی تھے۔
سچی بات ہے اگر یہ طعنہ نہ بھی ملتا تب بھی مجھے اپنے سطحی سے علم کابخوبی احساس
تھا۔ میرے ہاں دعوٰی تو سرے سے ہی نہیں تھا۔دعوٰی تو سرا سر جہالت ہے۔
میں نے اپنے اِن جذبات کا اظہار بڑے نرم اور شائستگی و متانت میں ڈوبے لہجے اور انداز میں کیا۔تھوڑا سا زور اِس بات پر بھی دیا کہ شاعری کی بہت ساری اصناف میں شاعر کِس میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سامنے آیا ہے اِسے پرکھنا تو یقیناََنقادوں کا کام ہے۔عام قاری تو لُطف کیلئے پڑھتا ہے۔تاریخ میں درج یہ سچائی اور حقیقت بہت کھُل کر سامنے آئی ہے کہ تمہارے علم کی وسعت بے پایاں،تمہاراحافظہ قوی اور یادداشت غیر معمولی تھی۔تمہارے عہد کے نقادوں کی رائے بشمول ابوحاتم المکّی ”کہ ابونواس کے ہاں عمیق گہرائی اور سطحی پن دونوں ہیں۔ابونواس اگر خود اس کا اظہار نہ کرے تو بسا اوقات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔“
یوں تمہاری جی داری اور حوصلے کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔ابوالعتاہیہ جیسا صوفی خدا پرست شاعر مقابلے پر ہو اور مذہبی لوگوں کی جماعتیں بھی تمہارا تیا پانچہ کرنے پر تُلی رہتی ہوں تب بھی تم کہتے تھے۔
سرور ملتا ہے مجھے اُن کاموں کے کرنے سے جنہیں روکتی ہے مقدس کتاب میں گریز پاہوں اُن سے جنکی اجازت دیتی ہے مقدس کتاب۔
بغداد کے کوچہ و بازار میں اگر ابو العتاہیہ کا صوفیانہ کلام گونجتا تھا
کھا سوکھی روٹی کا ٹکڑا
پی ٹھنڈے پانی کا پیالہ
تنہا بیٹھ اور غور کر
مقصد حیات کو سامنے رکھ۔
یہ چند گھڑیاں بہتر ہیں
بلند و بالا محلات میں شاہوں کے حضور بیٹھنے سے
ٍ اب تیرے چاہنے والے تجھے یوں گنگناتے اور گاتے تھے۔
ٍ ”ابونواس۔
فائدہ اٹھا اپنی جوانی سے
جان لے یہ باقی نہیں رہے گی
صبح و شام کی شرابیں ملا
نشہ کا لطف اٹھا اور مخمور ہو
”چچ چچ چچ۔“
ایسا طنزیہ اور تمسخرانہ انداز تھا۔نگاہیں جو چہرے پر جمی تھیں وہ اِن احساسات سے لبالب بھری تھیں۔بڑی خفت سی محسوس ہوئی تھی۔ایک تو گرمی اوپر سے شرمندگی۔مساموں سے پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔
”اندھا تھا ابو العتاہیہ۔اندھے زندگی بسر کرتے ہیں۔گزارتے نہیں۔ میں نے زندگی اُس کے حُسن و رنگوں کے ساتھ بھرپور انداز میں گزاری ہے۔کوئی بار بار ملنے والی چیز تھی یہ۔“
میں خاموش ہو گئی تھی۔یقیناََ میں اُس وقت اُسے وہ سب نہیں سُنانا چاہتی تھی جو میرے قلب و ذہن میں شور مچائے جاتا تھا۔چاند چہرے جیسے لڑکے، ان کے مرمریں بدن،زیر جاموں کی نرماہٹ اور اس کے جاندار بوسے۔
”ابو نواس زمانہ قدیم سے جدید تک دنیا بھر میں شہرت کے اعتبار سے مقبول ترین کئی ایک الف لیلوی کہانیوں می ں تمہاری حِس ظرافت، تمہارا مزاح اور تمہاری ذہانت بہت دلنشین انداز میں سامنے آئی ہے۔ اپنی کوئی ایسی ہی کہانی آج کی رات دجلہ کے کنارے مجھے سناؤ۔
ابو نواس کھلکھلا کر ہنس پڑا اور کہانی شروع ہوئی صیغہ غائب میں۔
ابونواس بہت چالاک ہوشیار آدمی تھا۔خلیفہ نے اُس کی چالاکیوں کے بارے
میں سُنا۔ہوشیاریوں کے متعلق جانا۔ غیر معمولی ذہین اور فطین آدمی ہے۔ درباریوں نے زمین وآسمان کے قلابے ملائے تھے۔
”پیغام بھیجو اُسے۔ خلیفہ ملنا چاہتا ہے۔فوراََ۔لیکن اُسے بتا دو کہ وہ میرے پاس اُس وقت نہ آئے جب سُورج چمکتا ہو۔اور جب اندھیرا ہو تب بھی نہیں۔
ہاں اُسے بتاؤ کہ اُس نے میرے پاس اپنے پاؤں پر چلتے ہوئے نہیں آنا ہے اور
نہ ہی اُسنے کِسی جانور پر سوار ہو کر آنا ہے۔
اور ہا ں یہ اُس پر واضح کر دو کہ اگر اُس نے میرے ممنوع کردہ کِسی بھی طریقے کو اپنایا تو بس پھر جلاّد اُسکا گاٹا اُتارنے کو تیار بیٹھا ہے۔
وہ آئے جلد اور بہت جلد۔
اب ابونواس نے جالی کا بڑا سا بیگ لیا۔اس میں بیٹھا۔یاربیلیوں سے کہااِسے اونٹ کی گردن سے رسے کے ساتھ لٹکادو۔یوں وہ جُھومتا جھامتا ایک ایسے وقت میں جب آسمان پر ہلکے سے بادل تھے اور ہلکی ہلکی بارش تھی خلیفہ کے پاس پہنچ گیا۔خلیفہ ا’سکی ہوشیاری پر حیران رہ گیا تھا۔
خلیفہ تو حیران تھا ہی۔اکسیویں صدی کی یہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی عورت بھی حیران تھی۔ماحول کے رنگا رنگی نے چند لمہوں کیلئے توجہ بانٹ لی تھی۔پلٹی تو دیکھا کہ اُس کی مخمور آنکھیں جیسے یادوں کے جواربھاٹے میں ہچکولے لے رہی تھیں۔ذرا سا رخ پھیرنے پر ہی سبب جان گئی تھی۔افلاق نے سامنے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”سُنیے انہیں۔ علی ال الزاویAli Al Essawi۔اس کا یہ گانا پوری عرب دنیا میں ہٹ ہوا ہے۔
مکام Maqam جیسے سریلے شریں دل کی دنیا زیر و زبر کرنے والا آلات موسیقی اور مکتوبہ Makhtoobaجیسا گیت۔لوگ جھوم رہے تھے۔من چلوں کی سیٹیاں تھیں۔ہیجان تھا۔پر میں دیکھتی تھی ابونواس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے خفیف سے رنگ تھے۔
میں سمجھ گئی تھی علی ال الزاوی کی پرفارمنس پر ناک بھوں چڑھی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply