ایک دن کا میلاد النبی ﷺ ؟۔۔محمد وقاص رشید

بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ شروعات اس خدا کے نام سے جو سراسر رحمت ہے اور جسکی شفقت ابدی ہے یہ ترجمہ غامدی صاحب نے کیا ۔یہ ترجمہ مجھے اس لیے سب سے زیادہ پسند ہے کہ اس ترجمے کے بعد “بسم اللہ ” کی تشریح کی ضرورت نہیں رہتی ۔خدا کا نام ہر آغاز و انجام کو زیبا ہے کیونکہ نہ اسکا کوئی آغاز ہے نہ انجام۔ طالب علم اکثر سوچتا ہے کہ جب کچھ بھی تخلیق نہیں ہوا تھا تو خالق تو تھا ۔تو خالقِ کائنات نے تخلیق و خلق کے بارے میں کیا سوچا ہو گا ؟ ۔کیسے وہ ایک نئی کائنات کو جنم دے گا۔ زمین و آسمان کی پرتیں سجائے گا ۔لاکھوں کروڑوں مخلوقات پیدا کرے گا۔  مختلف علوم تخلیق کر کے انکے اسرار و رموز کائنات میں چھوڑ دے گا اوراشرف المخلوقات کو پیدا کرے گا ۔

تخلیق کار ہمیشہ اپنے شاہکار کے بارے میں سوچتا ہے کہ جب وہ شاہکار تیار ہو کر لوگوں کے سامنے آ جائے ۔ سراسر رحمت خدا نے جب اپنے نائب حضرتِ انسان کو تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا تو خدا کے تخیل میں انسان کا کیا روپ ہو گا ؟ ۔وہ شاہکار کون تھا جسے خدا نے تب سوچا ہو گا ۔ ؟

حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اُترنے سے خدا کے اس شاہکار کے تخلیقی عمل کے ارتقائی سفر کا آغاز ہوا۔ رحمان و رحیم خدا نے انسانیت کو ایک ضابطہءِ حیات بتانے کے لیے علم کا راستہ اختیار کیا، وحی کے ذریعے لاکھ ہا انبیاء کرام کو انسانیت کا درس دیا،آسمان سے کتابیں بھی نازل فرمائیں، جن کی تدریس کے ذریعے انبیا و پیغمبران نے انسانوں کو وہ ضابطہ حیات سکھایا ۔

یہاں تک کہ  12 ربیع الاول کا سورج اُبھرا،وہ سورج جسکی ایک ایک کرن کو پوری کائنات میں پھیلے بیرونی اندھیروں سے لے کر دلوں اور روحوں کی اندرونی ظلمتوں تک سب کچھ منور کرنا تھا ۔ انسانیت کے چمن میں وہ پیغامِ بہار لانا تھا جس نے ظاہری خزاؤں سے لے کر باطن کے پت جھڑ تک سب کو کِھلا دینا تھا ۔پورے عالم کے لیے شفایابی کی وہ تسکین لے کر آنی تھی جس نے تشفی بن کر انسانیت کی پوروں میں سما جانا تھا ۔ وہ ابرِ رحمت و شفاعت کہ جسکی بوندوں نے انسانیت کے ضمیر کی زمین میں مردہ ہوئے بیجوں کو بھی بارآور کر کے انسانیت کے کھلیان میں فصلِ رحمت وبرکت کو کھلانا تھا ۔ بے رنگ و بو فضا اور ماحول کو اپنی سیرت کے وہ رنگ و بو عطا کرنے تھے کہ فضائیں کھل اٹھیں سارا ماحول چمک دمک اٹھے۔  آج سراسر رحمت خدا نے اپنے اس شاہکار کو “رحمت للعالمین” بنا کر مبعوث کرنا تھا۔

آج کے دن جب محمد رسول اللہﷺ نے اس جہان کو شرفِ موجودگی بخشا تو کائنات کی سب سے نورانی آنکھوں نے اپنے والدِ مکرم کا چہرہ نہ دیکھا، خدا واقعی بے نیاز شہنشاہ ہے۔  جسے اپنا حبیب کہا اسے یتیم بنا کر دنیا میں اُتارا ۔اپنی عظیم ترین والدہ کے سر پر بیوگی کی چادر دیکھی۔  6 برس کے ہوئے تو ستر ماؤں جتنا پیار کرنے والے قادرِ مطلق نے والدہ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر دادا جی کی بوڑھی آغوش میں آئے تو کچھ عرصہ بعد انکی رحلت کے بعد چچا محترم کے ہاں پرورش پانے لگے ۔یوں محبوبِ خدا کا بچپن اپنوں کی محبت کے سایوں سے محروم گزرا،مگر رحمت للعالمین کا مطلب یہ ہے کہ جنہوں نے اپنے والد کا چہرہ نہیں دیکھا تھا انہوں نے سارے عالم کو اپنے اپنے والد کا چہرہ دیکھنے کا سلیقہ سکھایا۔  یہ ہی نہیں کسی کے باپ کے سفید بالوں میں اپنے والد کے بالوں کی چاندی کا عکس دیکھنے کو کہا۔۔۔جنہوں نے اتنی جلدی اپنی ماں کو کھو دیا ، انہوں نے دنیا کے ہر آدم زاد کو بتایا کہ جنابِ آدم جس جنت سے زمین پر آئے تھے ، وہ جنت خدا نے ہر انسان کے لیے اسکی ماں کے پیروں کے نیچے رکھ دی۔

صدیوں تک انسان پیدا ہوتے رہے زمین گھومتی رہی وقت بدلتا رہا زمانے آتے جاتے رہے  اور ان زمانوں میں پیغمبران و انبیا ء خدا کا پیغام انسانوں کو یاد دلاتے رہے۔ یہاں تک کہ “اتمام حجت” کا وقت آن پہنچا ۔خدا نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں انسانیت کو اب ایک ایسا رول ماڈل دینے جا رہا ہوں جن پر میری آخری اور حتمی کتاب اترے گی اور اسکی روشنی میں انکا اک ایک عمل تاابد انسانیت کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہو گا اور وہ سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے جائیں گے ۔خدا کا آنحضرت کو رحمت المسلمین کی بجائے رحمت للعالمین بنا کر بھیجنے میں کائنات کا سب سے بڑا فلسفہ پوشیدہ ہے۔

اللہ ،رب العالمین ہے ۔ رسول اللہ ص رحمت للعالمین ہیں اور قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ طالب علم کی ادنی اور محدود سی نگاہ میں یہ بہت اہم ترین نقطہ ہے،اپنے ارد گرد پھیلی کائنات کا جائزہ لیجیے ۔خدا کے اعلیٰ  ترین ظرف کا مالک رب العالمین ہونے کا عملی مظاہرہ ہے کہ نہیں۔ آپ خدا کو چاہے تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، لیکن اگر آپ خدا کی مانتے ہیں تو آپ کے معاشروں میں انسانی زندگی کم از کم بنیادی انسانی ضروریات اور حقوق کی دستیابی کے ساتھ گزرتی ہے۔۔آپ خاتم النبیین ص کو نہیں مانتے لیکن انکی تعلیمات آپ کے سماج کو انسانی سماج بنا سکتی ہیں ۔ پوری حیاتِ طیبہ انسانی حقوق سے عبارت ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع جسے انسانی حقوق کا چارٹر کہا جاتا ہے آپ ترقی یافتہ اور پُر امن معاشروں میں ذرا جائزہ لے لیجیے آپ کو اسکا اطلاق نظر آئے گا،اسی کو رحمت للعالمین ہونا کہتے ہیں۔

اب اسکے تقابلی جائزہ کے لیے ذرا اپنے ملک اور معاشرے کے حالات پر نظر دوڑا لیں، ملی طور خدا کو رب المسلمین ماننے والے اور خاتم النبیین ص کو رحمت المسلمین سمجھنے والے ۔خود کو جنت کے ٹھیکیدار تسلیم کرنے اور کروانے والے ہم لوگ۔  ہر سال انکا یومِ پیدائش ایک تہوار کی طرح مناتے ہیں ۔ 12 ربیع الاوّل کو ایک تہوار کی طرح منا کر ہم 13ربیع الاوّل کو ایسے ہوتے ہیں جیسے گزشتہ روز وہ کوئی اور تھے ہم تو تھے ہی نہیں ۔12ربیع الاوّل کو عشقِ رسول ص محبتِ مصطفی ص اور عقیدتِ محمدی ص میں مرے جانے والے 13کو اس عشق ،محبت اور عقیدت میں جینے سے عملاً  انکاری ہو جاتے ہیں ۔جھوٹ ،ملاوٹ ، دھوکہ دہی ، چور بازاری ، حق تلفی ،بد اخلاقی ،عدم برداشت ،فرقہ بازی ،عصبیت و منافرت ، انتہا پسندی ، ذات پات کی تقسیم ،ظلم و نا انصافی ،تکبر و انا پرستی ہماری طرح ایک دن کا تہوار منا کر واپس ہمارے ساتھ کام پر لگ جاتے ہیں۔

یہ وہ تمام اخلاقی برائیاں ہیں جن کے عرو ج میں پیغمبرِ انسانیت ص دنیا پر قیامت تک کے لیے انکے خلاف ایک اسوہ حسنہ لے کر آئے۔ سچائی و امانت داری و دیانت ایسی کہ دشمن بھی صادق اور امین کہیں ، صبر و تحمل اور برداشت ایسی کہ طائف کی خونِ مبارک سے تر ہونے والی پہاڑیوں کو آپس میں ملائے جانے سے روک لیں۔ حسنِ اخلاق ایسا کہ نشتر برساتی زبانیں کلمہ پڑھنے لگیں ۔نرم دلی ایسی کہ قرآن میں اللہ کو توجہ دلانی پڑ جائے کہ آپ سے وہاں منافقین کے معاملے میں تھوڑی سختی مطلوب تھی ۔صلہ ء رحمی کا عالم یہ کہ ایک دہائی تک خدمت گزار رہنے والا ایک بار بھی ڈانٹ ڈپٹ کا نہ بتا سکے۔ نیک نیتی کا عالم یہ کہ خدا اپنے کلام میں ایک جگہ فرمائے کہ آپ کی اپنے مقصد میں اخلاصِ نیت بہت قابلِ ستائش ہے ،اتنے غیر متعصب اور اعلیٰ  ظرف کے مشرک کی بیٹی کے سر پر چادر اوڑھ کر کہیں بیٹی تو ہے ۔ مساوات کے ایسے قائل خندق کھودنے میں اپنے پیٹ پر بھی دو پتھر باندھے ہوں ۔عفو و درگزر ایسا کہ جانی  دشمنوں کو معاف فرما دیں ۔ گیارہ سال اپنے گھر سے ہجرت پر مجبور کرنے والوں کو واپسی پر انکے فاتح بن کر نا صرف معاف کر دیں بلکہ اپنے مذہب پر رہنا چاہیں تو بھی قانون کے دائرے میں رہنے کی اجازت دیں ۔الغرض یہ کہ آخری نبی اور تاقیامت ایک اسوہ حسنہ کے  مالک کی حیاتِ طیبہ ان تمام انسانی خوبیوں کا شاہکار تھی جنہیں خدا نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے ہنگام سوچا ہو گا ۔

سوال یہ ہے  کہ اب کسی نبی نے تو آنا نہیں ،تو کیسے پھر ہم ان تمام انفرادی و اجتماعی برائیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔جو عشق ،محبت ،عقیدت اور سنت و احکامِ رسول ص سے متضاد ہیں ۔ ؟ جواب یہ ہے کہ صاحبِ اسوۃ حسنہ کو ایک دن ایک تہوار ایک چھٹی کے دن کی رسومات کی حقدار شخصیت کی بجائے خاتم النبیین ص کی ہستی کا وہ حق ادا کر کے جو انکا ہر امتی ہی نہیں ہر انسان پر ہے۔  12ربیع الاول کو ایک ایسا دن بنا کر جس پر کیے  گئے عزمِ نو ،صرف اور صرف اپنے گریبان میں جھانکنے کا اثر 13 ربیع الاوّل کی صبح بھی ہمارے ساتھ ہو۔ ہم ایک دن زبانی کلامی عشق منا کر باقی 364 دن اس عشق کو عملاً محض وہ منافقت نہ ثابت کریں جسکے خاتمے کے لئے کائنات کی وہ سب سے عظیم شخصیت 12 ربیع الاوّل کو زمین پر اُتری تھی جن کے قول و فعل میں تضاد کا شائبہ تک نہ ہونا ہی انکے آخری نبی ہونے پر مہر ثبت کرتا ہے۔ اس منافقت کے ساتھ ہمارا شمار ان عالمین میں یہاں نہیں تو وہاں کیسے ہو سکتا ہے جن پر انکی رحمت ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یومیہ تہواروں پر حلوے مانڈے ،جلسے جلوس ، ریلیاں ، کھانے وغیرہ کیجیے مگر پورے سال اور پوری زندگی کی ایک کردار کی آفاقی شخصیت کو ایک دن کی گفتار کی ہستی تک محدود مت کیجیے۔۔خدا کے آخری نبی اور تاقیامت ایک مثالی ہستی کا میلاد النبی ایک دن کا نہیں ہو سکتا۔
الھم صلی علی محمد و علی آل محمد (صلی اللہ علیہ والہ و سلم)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply