اپوزیشن اتحاد کس نے توڑا ۔۔اظہر سید

متحدہ اپوزیشن کو مولانا فضل الرحمٰن نے استعفوں کا مطالبہ کر کے منتشر کر دیا تھا لیکن اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کی سازش معاشی بحران کی وجہ سے کبڑے کو لات پڑنے اور کُب ختم ہونے والی بات بن گئی ۔
جس طرح پناما ڈرامہ اصل میں سی پیک روکنے کی سازش تھی اسی طرح اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز بھی اپوزیشن اتحاد توڑنے کی سازش تھی ۔اپوزیشن اتحاد میں صرف پیپلز پارٹی کے پاس ایک صوبائی حکومت تھی باقی تمام اپوزیشن خالی ہاتھ تھی ۔

وقت گزر گیا ہے ۔اپوزیشن اتحاد ٹوٹ گیا ہے ۔تجزیہ کریں تو نظر آتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد ٹوٹنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ شکست کھا گئی ہے اور پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان ہوا ہے ۔آصف علی زرداری کا استعفے نہ دینے کا فیصلہ درست تھا کہ وہ ایک انتہائی مہارت سے بنا گیا جال تھا جس سے آصف علی زرداری نے بچنے کی کوشش کی ۔

مولانا فضل الرحمٰن وہی مولانا ہیں جنہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کیلئے عورت کے حکمرانی کے متعلق فتویٰ دیا تھا ۔یہ وہی مولانا ہیں جنہیں جنرل مشرف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے کتاب کا انتخابی نشان دیا تھا اور خیبر پختونخوا حکومت فراہم کی تھی اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تھا ۔یہ وہی مولانا ہیں جنہوں نے مشرف کے اقدامات کو آئینی ترمیم کے زریعے تحفظ فراہم کیا تھا ۔یہ وہی مولانا ہیں جنکے والد مفتی محمود نے نو ستاروں کی تحریک کی قیادت کی تھی اور مارشل لا ء  کا راستہ ہموار کر کے بھٹو کی پھانسی ممکن بنائی تھی ۔

مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کو نشانہ نہیں بنایا اس کے ساتھ متحدہ اپوزیشن کو نشانہ بنایا تھا ۔اس ایک تیر سے دو شکار کئے گئے ایک طرف پیپلز پارٹی ایسی جماعت کو ولن بنا دیا گیا دوسری طرف اپوزیشن اتحاد توڑ دیا ۔

اس مرتبہ مولانا فضل الرحمن مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں ۔اس مرتبہ معاشی بحران نے اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کے حلیفوں کے تجزیے بھی غلط کر دیے  ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے کے معاملہ پر جو کچھ ہوا وہ ایک جھلک ہے کہ بار بار کے مارشل لاؤں اور ریاست پر مکمل گرفت کے ہوس نے قلعہ میں شگاف ڈال دیا ہے ۔معاشی بحران ،کشمیر اور افغان پالیسی کی ناکامی کے ساتھ اب نااہل حکومت کا بوجھ بھی اٹھانا ہے ۔معاشی بحران کا ملبہ ہی اتنا بڑا ہے کمر توڑنے کیلئے کافی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نااہل حکومت کا بوجھ تو کسی ڈی جی آئی ایس آئی پر ڈال دیں گے کشمیر اور افغان پالیسی کا بوجھ کس پر ڈالیں گے ۔اب پاندان اٹھانے کا وقت ہے ۔بیرکس میں ہمیشہ کیلئے جانے کا وقت ہے اور ووٹ کو عزت دینے کا وقت ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply