ماہِ ربیع الاوّل؛ قومی و ملّی تقاضے۔۔محمدعباس شاد

انسانی تاریخ میں مسلمانوں کو جو عروج و رفعت ملی، وہ حضور اکرم ﷺ  کی روشن تعلیمات، جماعت ِصحابہؓ کی جدوجہد، اولیاء اللہؒ کی انسان دوستی اور علمائے ربانیینؒ کی قربانیوں کی بدولت ملی۔ لیکن مسلمانوں کی موجودہ حالت ِزاراِن مقدس شخصیات کی روشن تعلیمات، جدوجہد، انسان دوستی اور قربانیوں سے بے گانگی اور لاتعلقی ظاہر کر رہی ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل ہر سال ہمیں نبی اکرمؐ کی مقدس تعلیمات کی یاد دِلاتا ہے، لیکن ہم اسے اپنی روایتی بے حسی کے سبب کچھ حاصل کیے بغیر گزار دیتے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی ولادت کی خوشی مسلمانوں کے لیے ایک فطری اور طبعی امر ہے، لیکن ہماری اجتماعی قومی حالت ِزار اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس موقع پر نبی مکرمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے حالات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔

۱۲؍ ربیع الاوّل کی آمد پر ہمارے نوجوان اور بچے گلی کوچوں اور چوراہوں پر راہ گیروں کا راستہ روک کر جشن ولادت منانے کے لیے زبردستی چندے مانگتے ہیں۔پیوند لگے کپڑے پہننے والے نبیؐ کے نام نہاد محب‘ گوٹوں کناریوں والے کرتے پہنے، مِسّی سرمہ لگائے نبیؐ کی شان بیان کرتے ہیں۔ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوکوں پیاسوں کو کھلانے پلانے والے نبیؐ کے نام پر پُرتکلف کھانوں کی دعوتیں اڑاتے ’’عاشقانِ رسول‘‘ ہیں۔ صادق و امین نبیؐ کے نام پر اپنی گلیوں، مکانوں، چوراہوں اور عمارات کو چوری کی بجلی سے برقی قمقموں کی سجاوٹ سے جگمگانے والے، گلیوں، بازاروں، چوراہوں اور عام شاہراہوں کو بند کرتے ہوئے مسافروں، مریضوں اور خلقِ خدا کو ذہنی و جسمانی کوفت پہنچا کر میلاد النبیؐ کے جلوس نکالنے والوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قوم کے اجتماعی اَخلاق کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محبوبِ خدا سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جیسا کہ آپؐ کا فرمان ہے: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں (ﷺ) اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ (بخاری) لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضے کیا ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

جس ملک میں سود کا نظام ہو، جہاں عدالتوں کے دروازوں پر لگے ترازو میں انصاف بکتا ہو، جہاں کی سیاست میں منافقت شامل ہو، مذہبی رہنما مخالفوں کے قتل کے حکم صادر کرتے اور نفرت کے فتوے بانٹتے ہوں، حکمران عوام کا خون چوستے ہوں، عوام کے آنگن میں بھوک اور افلاس ناچتے ہوں، حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں کمرتوڑ مہنگائی روز افزوں ہو، ایسے ملک میں نبی اکرمؐ کے ماننے والوں اور آپؐ کی عزت و ناموس کے محافظوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام دشمن اور نفرتوں کے نظام اور ماحول کو اسوۂ نبیؐ کی روشنی میں تبدیل کرنے کے لیے جزوی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply