عدم برداشت۔۔علی بخاری

جاننا انسان کے اندر عاجزی لاتا ہے۔ شعور کی بیداری لچک پیدا کرتی ہے،اختلاف کے آداب سکھاتی ہے، برداشت کرنے کے زینے پر پہنچاتی ہے، مکالمے کے فن سے آگاہ کرتی ہے، آپ جان جاتے ہیں کہ مطلق حقیقت کسی کے پاس نہیں ہے، ہر لمحہ تغیرات کا سامنا ہے ایک بحر ِ بیکراں ہے جس کے کنارے حد ِ نگاہ سے بے انتہا فاصلے پر ہیں، تب بندہ اپنی رائے کو اٹل نہیں جانتا، وہ نرگسیت کا شکار نہیں ہوتا، وہ خود کو دائرے میں قید نہیں کرتا۔  وہ دوسرے کو سننے کے آداب بھی جاننا شروع کر دیتا ہے، وہ اپنی رائے کے مخالف کو برداشت کرنا سیکھ لیتا ہے ۔وہ خود کو مرکزِ  نگاہ سمجھنے کے بجائے یہ جان لیتا ہے کہ اس کی حیثیت ریت کے ذرّے کے برابر بھی نہیں ہے۔  اس کی شخصیت میں جھکاؤ آتا ہے وہ برداشت کے فن سے آگاہ ہو جاتا ہے ۔
زندگی میں خوش رہنے کے لیے اہمیت کی حامل چند چیزوں میں سے برداشت ایک اہم عنصر ہے۔
اس کے مدِ  مقابل اپنی  رائے کو اٹل حقیقت اور الہام ماننے والے سماج کے لیے خطرناک بھی ہوتے ہیں اور وہ خود بھی خوشگوار زندگی کے کسی گوشے سے نہیں گزرے ہوتے۔
ایسے لوگ سماج کے لیے زہر کی مانند ہوتے ہیں۔
جو ایک ہی کتاب کو پڑھ کر خود کو عالم اور اس کی تعلیمات کو گوہر نایاب اور ہر صورت میں قابل عمل تصور کرتے ہیں۔
جو اپنے آپ کو مرکز کائنات سمجھتے ہیں۔
(اور ویسے ان کا تصور کائنات بھی انتہائی حد تک محدود ہوتا ہے)
جو معاشرے کو صرف اور صرف اپنے نظریات پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔
جو ہر معاملے میں”ٹانگ” اڑانا فرض عین سمجھتے ہیں۔
جو ہر ایک کو اپنے بنائے گئے دائرے میں لانے کے قائل ہوتے ہیں اور پھر عملی کوششیں بھی کرتے ہیں۔ (انکار کرنے والے پر اپنا فیصلہ سنانا اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں)
ایسے لوگ اکثریت میں موجود ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے ترقی نہیں کر سکے، کیونکہ ان کے باسی کسی ترمیم کے قائل نہیں۔
پھر نتیجے کے طور پر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو شدت پسند کہلوانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ جہاں عدم برداشت اس حد تک سرائیت کر چکی ہوتی ہے کہ بات کے آغاز سے پہلے افراد سنگ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے پنپ نہیں پاتے۔ تنقید اور طنز ان کا مشغلہ ہوتا ہے لیکن دوسروں کے لیے،دوسری تہذیبوں کو سنوارنا اور انھیں اپنے جیسا بنانا ان کی منزل ہوتا ہے اور اس دوران اپنے معاشرے کی تباہی ان کے لیے گردہ راہ کے برابر ہے ۔
ہمارے ہاں کے سیاسی، مذہبی سماجی اور معاشرتی معاملات میں عدم برداشت کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جو ہماری تہذیب اور اقدار کی” شان” میں کافی “اضافہ” کر رہی  ہیں  اور ہمارے مہذب ہونے کے جھوٹے دعوے کا پردہ چاک کر رہی ہیں ۔
اس کے مقابل جدید مہذب معاشروں میں سب سے اہم کام یہ کیا گیا ہے کہ سائنسی انداز فکر کو ترجیحی بنیادوں پراپنایا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کے باشندوں کے اندر برداشت کی صنف آئی ہے ۔ مکالمہ کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے۔  ہمارے ہاں بھی اہل ِ فکرودانش نے اس رویے کو اپنایا ہے اوراس پر زور بھی دیا ہے لیکن ابھی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لیے وقت لگے گا۔۔
دوسرے کو جینے کا حق دے کر، اس کے حقوق کا احترام کرکے، اس کی عزت نفس کو ملحوظ رکھ کر، اس کی رائے کو اہمیت دے کر اور اس کی شخصی آزادی کو مقدم جان کر ہی ایک خوشگوار اور مہذب معاشرے کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply