تعلیمی نتائج پر عش عش کریں۔۔محمود اصغر چوہدری

پاکستان میں اس سال میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں نئے قومی ریکارڈ قائم ہوئے ہیں ۔ بیسیوں طلبا ءنے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر ہی حاصل کر لئے ہیں ایسے نتائج دنیا کے کسی بھی طالبعلم کو دم بخودکر سکتے ہیں۔ ان طلبا نے تو کمپیوٹر کو بھی مات دے دی ہے۔ ہمارے وقتوں میں ریاضی کے علاوہ کسی بھی مضمون میں پورے نمبر آہی نہیں سکتے تھے ۔ اردو میں سو میں سے ستر نمبر لینا بھی نا ممکن تھا۔انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ یہ کون سے نابغے ہیں۔ البتہ ان کی علمی تخیل کی بلندی دیکھنی ہو تو آپ سوشل میڈیا دیکھنا شروع کردیں ۔ آپ ان طلبا ءکی کل علمی صلاحیتوں کے معترف ہو جائیں گے ۔

مثلاً میں نے ایک پوسٹ لکھی تھی کہ قسمت کی دیوی فلاں سیاستدان پر مہربان ہے اس کے نیچے ایک کمنٹ لکھا ہوا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم دیوی دیوتاؤں  پر یقین نہیں رکھتے، آپ اپنے عقائد کی درستی فرمائیں ۔ میں نے اس موحد کی آئی ڈی کھولی اس کا پروفائل چیک کیا تو وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا طالبعلم تھا, میں سو چ میں پڑ  گیا کہ کس جاہل نے اس کو اتنی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ دے دیا ہے۔ اردو کامحاورہ۔۔ قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا ۔۔تو ہمارے وقت میں آٹھویں کے بچے کو بھی پتہ تھا ۔ اسی طرح فیس بک پرکسی نے ٹیپو سلطان کا جملہ لکھا ہوا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے اس کے نیچے کسی نے کمنٹ لکھا ہوا تھا کہ بہت ہی بُر ی بات ہے گیدڑ اورشیر ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک جانور کا مذا ق اڑانا خدا کی تخلیق کا مذاق اڑانا ہے ۔ میں نے جانوروں کے حقوق کے اس علمبردار کی آئی ڈی چیک کی تو موصوف بھی ایک یونیورسٹی کے طالبعلم تھا ۔

لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گھوڑے سے نیچے پھینکنے والانوجوان شاید مجرم نہیں ہے اس بے چارے کوتو ہوسکتا ہے یہی تعلیم دی گئی ہو کہ جس کے تحت اسے ایک بت اورایک مجسمے میں کسی نے فرق ہی نہ سمجھایا ہو۔لیکن اس بات سے زیادہ حیران کن وہ اہل علم ہیں جنہوں نے یکساں نصاب کے سلسلے میں حکومت کو تجویز دی ہے کہ بیالوجی اور سائنس کی کتابوں میں برہنہ تصاویر ہٹا دیں ۔ یعنی اگر آپ نے نظام انہضام ، نظام تولید یا نظام تنفس پڑھنا ہے تو آپ ان کاخاکہ ذہن میں بنا لیں۔

میرا تو خیال ہے کہ حکومت کوچاہیے کہ گیارہ سو نمبرز دینے والے اساتذہ سے رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ یہ جو ہیرے انہوں نے چنے ہیں ان کو فوراً ملکی معاملات میں مشیر کا عہدہ دے دیں ، مثلا ً جو طالبعلم ریاضی ، اکنامکس میں سو فیصد نمبرز لے چکے ہیں ان سے معاشیات میں مدد لیں تاکہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے ، جن طلبا ءنے سائنس میں سو میں سے سو فیصد نمبر لئے ہیں انہیں کورونا ، ڈینگی اور مہلک بیماریوں سے بچانے کی تحقیق کا شعبہ دے دیں جنہوں نے تاریخ جغرافیہ او ر مطالعہ پاکستان میں سو فیصد نمبرز لئے ہیں انہیں خارجہ و داخلہ پالیسی سونپ دیں ، اسلامیات میں سو نمبرز لینے والوں کو عالمی مذاہب میں ہم آہنگی کی ذمہ داری سونپیں اور انگلش و اردو ادب میں سو فیصد نمبرز لینے والے طلبا ءکے حوالے علمی محاذدے دیں تاکہ وہ علم کی نئی جہتیں تلاش کر سکیں ۔ حکومت کے کافی مسائل حل ہو جائیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دیہاتی کا رشتہ لکھنو میں ہوگیا ۔ شادی کے بعد پہلی بار سسرال جانے لگا تو ماں نے سمجھایا کہ لکھنو کے لوگ بہت مہذب ہوتے ہیں کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے تم کم علم لگو ۔ سسر کو ابا حضور کہنا ، ساس کو امی حضور ، کھانے کے لئے چھوٹے نوالے لینا اور لکھنو کے لوگ کھیر کو فیرنی کہتے ہیں تم بھی فیرنی ہی کہنا ۔ بیٹے نے بالکل ایسا ہی کیا تو سسر سے رہا نہ گیا وہ پوچھنے لگا بھائی ہم نے تو سنا تھا کہ گاؤں  والے لوگ بڑے گنوار ہوتے ہیں مگر ہمارا بیٹا تو بہت ہی مہذب ہے ۔ دلہا جذبات میں آگیا ۔ وہ بولا بابا جی ابھی آپ نے میری تہذیب دیکھی کہاں ہے عش عش تو آپ اس وقت کریں گے جب میں کھیر کو فیرنی کہوں گا گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر ان طلبا ءنے اس وقت لئے ہیں جب ان کے تعلیمی سال کا بیشتر حصہ کورونا کی وجہ سے گھروں میں تعلیم حاصل کرنے میں صَرف ہوا ہے۔ عش عش تو ہم لوگ اس وقت کر اٹھتے اگر انہی طلبا ءکو سکولوں میں جا کراپنے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع مل جاتا ۔؟

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تعلیمی نتائج پر عش عش کریں۔۔محمود اصغر چوہدری

  1. آپ کی تحریر پڑھ کر ہم بھی عش عش کر اٹھے ہیں۔بہترین نکتہ اٹھایا آپ نے اور مشورہ تو کمال ہے

Leave a Reply