• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/بغداد عہد ساز اور صاحبِ علم و فن ہستیوں سے بھرا پڑا ہے۔ (قسط17)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/بغداد عہد ساز اور صاحبِ علم و فن ہستیوں سے بھرا پڑا ہے۔ (قسط17)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ان کے جانے کے بعد میں نے فلافل کھایا،کولا پیااور چاہا کہ تھوڑی دیر لیٹ جاؤں۔ تبھی ایک ادھیڑعمر کے انتہائی خوش شکل اور سمارٹ سی شخصیت کو میں نے تین نوجوانوں کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔دیوار کی غربی سمت انہوں نے کچھ نشان دہی کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے نوجوانوں کو چندہدایات دیں۔
یقیناانتظامیہ کا کوئی اہم بندہ ہے۔“ میں نے خودسے کہااور کھڑی ہوگئی۔
چند لمہوں کے انتظارکے بعد جونہی مجھے ان کی واپسی کا احساس ہوا میں نے فوراً آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا۔تصویریں بنانے کی اجازت مانگی اور اُن سے چند لمہے دینے کی بھی درخواست کی۔
یہ باوقار سی شخصیت ڈاکٹر قاسی کی تھی۔وہ روضۂ مبارک کے منتظم اعلیٰ تھے۔ مرنجان مرنج سی شخصیت۔سفید براق داڑھی،پُرنور چہرے سے ٹپکتی محبت اور متانت متاثر کرتی تھی۔ خوبصورت انگریزی بولتے تھے۔مزارِ مبارک کے پاس ہی کُرسی پر بیٹھ گئے۔
”آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔“
انہوں نے چہرہ اُٹھا کر مجھے بغور دیکھا۔چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اثبات میں سر ہلایا۔ انکے قریب ہی بیٹھنے کی اجازت ملنے پر میں سامنے قالین پر بیٹھ گئی تھی۔
”کچھ روشنی ڈالئیے۔کچھ بتائیے آپ کی نظر ان حالات کو کِس تناظر میں دیکھتی ہے؟“
کاش میں اُن سے کچھ نہ پُوچھتی۔وہ پھٹ پڑے تھے۔
امریکیوں سے کہیں زیادہ وہ سعودی عرب،اُردن،مصر اور دیگر اسلامی ملکوں کی مفادپرستیوں پر برہم تھے۔سعودی شاہوں کے وہ لتّے لئیے تھے انہوں نے کہ میں اُن کے لفظوں کو زبان ہی نہیں دے سکتی۔
کاش ڈوب مرنے کیلئے کوئی جگہ ہوتی۔جنرل ضیاالحق نے فلسطینیوں پر جو ٹینک توپیں چلائی تھیں وہ اُس کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل سے آگاہ تھے۔پاکستان کے حکمران کوشرم آنی چاہیے تھی۔جی چاہا تھا سر پِیٹ لوں۔ابھی تو یہ مقام شکر تھا کہ ڈالروں کے لالچ میں عراق فوجیں نہیں بھیجیں۔
شاید نہیں یقینا یہ اُس وقت ابو معصب الزقاوی کی خوفناک دھمکی تھی جو اسامہ بن لادن کا چہیتا ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کا بھی محبوب تھا۔عراقی مزاحمتی گروپوں کے پس منظر میں زیادہ تر اسی گروپ کی توانائیاں تھیں۔جس نے قسم کھا کر پاکستان کو پیغام بھیجا تھاکہ اگر تمہاری فوجیں عراق آئیں تو میں ان کا وہی حشر کروں گا جو صومالیہ میں امریکی فوج کا کیا گیا تھا۔
افسوس صد افسوس یہی سب کچھ ہونا ہے مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے۔یہ الّو کا پٹھا صدام بوسنیااور کوسوو میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سربیا کے ملا سووچ کی حمایت کرتا تھا۔کبھی جو اُس کے پھوٹے مُنہ سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر بھارت کی لعن طعن کے لئیے چند لفظ نکلے ہوں۔افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے پر حمایت ہوتی ہے۔ایران عراق اور خلیجی جنگ میں مرنے والے کون تھے؟ مسلمان۔یہی ہونا تھا اس کے ساتھ جو ہوا۔عراق میں تباہی کے مناظر دیکھیں۔غریبوں کی لاشوں کی بے حرمتی۔خدا راضی ہو ہمارے نوجوان رضا کاروں سے جنہوں نے ان کی لاشیں کُتے بلیوں سے محفوظ رکھیں۔
درمیانی عُمر کا ایک آدمی ان کے پاس آیا۔نیم الیستادہ ہوکر اُس نے دھیمی آواز میں کچھ کہا تھا۔
انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا۔
”معذرت چاہتا ہوں۔انجینئر آیا ہے کچھ پوچھنا چاہتا ہے؟“
میں نے کھڑے ہوکر اُن کا شکریہ ادا کیا۔اورجب میں خاموش بیٹھی بظاہر محراب و منبر دیکھتی تھی۔دیواروں پر نظریں گھماتی تھی۔فانوسوں کی چمک دمک آنکھیں خیرہ کرتی تھی۔امام اعظم کی زندگی کے چند مزید گوشے سا منے آنے اور آنکھوں کو بھگونے لگے تھے۔
کوفے اور بصرہ کی ممتاز درسگاہوں سے حصول علم کے بعد مدینہ منورہ کا رُخ کیا کہ وہ شہر مقدس حدیث کا مخزن بھی تھا اور اس دلبر کی آخری آرام گاہ بھی۔
یہاں علم کے دریا نہیں سمندر بہہ رہے تھے۔حضرت عطا بن ابی رباح کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انہوں نے عقیدہ دریافت کیا۔جواب دیا۔میں اسلاف کو بُرا نہیں سمجھتا۔گناہ گار کو کافر نہیں کہتا اور قضاو قدر کا قائل ہوں۔
جب یہ پڑھا تھا سچی بات قربان ہونے کو جی چاہتا تھا۔واہ کیسی روشن خیالی تھی۔یہاں ہمارے مولوی اور علماء حضرات کہ جو دین کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔جسے چاہیں پل بھر میں کافر قرار دے دیں اور جسے چاہیں مسلمانیت کی سند عطا کر دیں۔دین پر اُن کی اور انکے نظریات کی اجارہ داری۔
خلیفہ منصور نے بغداد کی بنیاد رکھی تو اپنی پوری مملکت سے نام گرامی کاریگر ماہر تعمیرات اور جید ریاضی دان بلوائے کہ عمارتیں اصول ہندسہ کے مطابق تعمیر ہوں۔ان ماہرین کا افسر اعلیٰ امام ابو حنیفہ تھے۔امام اعظم نے ایک ایک اینٹ شمار کرنے کی بجائے لکڑی کے لمبے پیمانوں سے اینٹیں ماپنے کا طریقہ رائج کیا۔بعد میں اُنکا یہی طریقہ رائج ہوا۔
مدینہ منورہ میں اُس وقت حدیث و فقہ میں کمال حاصل کرنے والے صرف دو افراد زندہ تھے۔ایک سلیمان اور دوسرے سالم بن عبداللہ۔اِن دونوں کی خدمت میں حاضرہوئے اور اپنے علم میں نئے باب کے ا ضافے کیئے۔
امام اعظم کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ دین میں نئی نئی باتیں نکالتا ہے۔
مدینہ منورہ میں امام باقر بھی آپ کے بارے میں ایسی باتیں سُن چکے تھے۔ایک بار اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔تعارف کے مرحلے سے گزرے۔ انہوں نے بغور انہیں دیکھا پھر فرمایا ”تو اچھا تم ہو ابو حنیفہ۔وہی ابوحنیفہ ناجو قیاس کی بنیاد پر ہمارے بڑوں کی حدیثوں سے اختلاف کرتا ہے۔“
آپ نے انتہائی ادب سے جواب دیا۔
”معاذ اللہ حدیث کی مخالفت میں کیسے کر سکتا ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو کچھ پُوچھنا چاہتا ہوں؟“
حضرت امام باقر نے رضامندی کا اظہار کیا تو آپ نے سوال کیا۔
”مرد ضعیف ہے یا عورت۔“
”عورت“
حضرت امام باقر کا جواب تھا۔
”وراثت میں مرد کا حصّہ زیادہ ہے یا عورت کا۔“
آپ کا دوسرا سوال تھا۔
”مرد کا۔“
امام باقر کا جواب تھا۔
”اگر میں اپنے قیاس کا سہارا لیتا تو یہ کہتا کہ عورت کا زیادہ حصّہ ہوناچاہئیے کیونکہ ظاہری قیاس کی بنیاد پر ضعیف اِس رعایت کا زیادہ حق دار ہے۔“
امام باقر نے فرطِ مسرت سے آپکی پیشانی پر بوسہ دیا۔اور طویل عرصہ اپنے ساتھ رکھا اور حدیث و فقہ کے سلسلے میں بہت سی نادر معلومات دیں۔
پھر اُٹھی اور جالیوں سے لگی۔اُنہیں دیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے خود کو سُناتے ہوئے کہا تھا۔تو یہاں وہ شخص آرام فرما ہے جس نے جابر سلطان کے سامنے ہمیشہ کلمہ حق کہا۔منصور نے آپ کو قاضی کے عہدے کی پیش کش کی۔معذرت کرتے ہوئے کہا۔ ”میں اِس ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کا اہل نہیں۔“منصور نے طیش میں کہا۔”تم جھوٹ بولتے ہو۔“امام جواب دیتے ہیں۔”جھوٹا شخص قاضی جیسے منصب کا اہل نہیں ہوتا۔“
پیشے کے اعتبار سے آپ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ریشمی کپڑا خز بناتے بھی تھے۔ مختلف شہروں اور ملکوں میں اُن کا کاروبار تھا۔عام لوگوں سے میل ملاقات کے مواقع کثرت سے ملتے تھے۔اسی لئیے لوگوں کی روش،ان کے عمومی روےّے، ان کی ضروریات،ان کے معاشی اور معاشرتی مسائل اور تقاضے وہ اُن سے ذاتی طورپر آگاہ رہتے تھے۔اسی لئیے مجتہد مسائل میں عوامی رحجانات اور فطری مزاج کے مطابق فیصلے دیتے تھے۔اِس غرض کیلئے اُن کے ہاں مجلس مشاورت تھی۔مجلس کے سامنے مسئلہ پیش ہوتا۔بعض اوقات اُس پر ہفتوں بحث و مباحثہ چلتا۔طویل بحث کے بعد جس بات پر سب کی رائے متفق ہوتی اُسے امام ابویوسف کتاب اصول میں درج کرتے۔
امام اعظم اپنے اراکین بورڈ کی باقاعدہ فکری تربیت اور رہنمائی بھی کرتے۔یہ اُس تربیت کا نتیجہ تھاکہ فقہا کی ایک جماعت تیار ہوگئی۔فقہ حنفی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اِن ائمہ کے مختلف اذہان سے جب ایک مسلہ منتج ہوکر نکلتاتو اُس کی حیثیت فرد واحد کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتی۔قرآن حکیم میں ہے اللہ تعالی نے انسان کی وسعت سے زیادہ احکام کا بار اُس پر نہیں ڈالا بلکہ وہ انسانوں کیلئے تنگی اور عسرت کو نہیں آسانی کوپسند کرتا ہے۔ کاروباری اصول اور دیانت آج کے چور اچکّے راتوں رات امیر بننے کے خواہاں تاجروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ایک دن ایک عورت ایک قیمتی تھان لائی۔اُس نے اُسے فروخت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔آپ نے قیمت دریافت کی۔خاتون نے سو درہم بتائے۔آپ نے فرمایا۔”کپڑا تو بہت قیمتی ہے دام کم کِس لئیے کہتی ہو؟“خاتون بولی۔”چلئیے دو سو درہم سمجھ لیجئیے۔“آپ نے کہا۔
”خاتونِ محترم اِس کی قیمت کِسی طرح بھی پانچ سو درہم سے کم نہیں۔“
عورت پریشان ہکّا بکاّ۔”آپ مذاق کر رہے ہیں“۔اُس نے کہا۔
”ہرگز نہیں۔میں خرید لیتا ہوں اِسے۔“
پانچ سو درہم اس کے حوالے کئیے۔
اصول تو ایسے ہی تھے۔ان کے ہاں گھاٹے کا کوئی سوال نہ تھا۔
کاروبار روز افزوں عروج پر ہی رہا۔نیت نیک تھی نا۔
جب افلاق کے ساتھ باہر آئی بیرونی دیوار کے حُسن کو رُک کر چند لمہے دیکھتی رہی۔بڑے اور چھوٹے دروازوں کی خوبصورتی کو بھی سراہا۔
کافی دیر ارد گرد کے جائزے میں گزاری۔یہ محلہ ان کے نام نامی پر محلہ حنیفہ کہلاتاہے۔ملحقہ ایک بہت بڑا سکول بھی ہے۔ سکول سلجوقی بادشاہ ملک ابو سعد الخوارزمی نے ۶۶۰۱ میں تعمیر کروایا۔مزار کا گنبد بھی انہی کی یادگار ہے۔
رخصت ہونے سے قبل میں نے بہت دھیمے سے جیسے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔”میرے بہت پیارے امام اعظم یہ بندی آپ کی بہت شُکر گزار ہے۔“
میں نے اُس عظیم ہستی کو خراج پیش کرتے ہوئے عمارت کے حسن کو پھر دیکھا تھا۔تاریخ بغداد میں یہ واحد عمارت ہے جو بغداد شہر کے عروج وزوال کے المیوں کے باوجود ابھی تک اپنی پوری استقامت سے کھڑی ہے۔ہلاکو خان کے ہاتھوں سے بچی۔نادر شاہ نے بغداد پر حملے کے دوران خود اس کا خیال رکھا۔اسے سلاطین عثمانیہ نے سنوارا۔اسے جابر صدام نے بھی نوازا۔وسیع،عریض مسجد کے خوبصورت قالین اِسی کی طرف سے بچھائے گئے تھے جو ابھی بھی اُس کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔
اِس مرد حق کو منصور نے جیلوں میں رکھا۔بیڑیاں پہنائیں۔
وہ رات بھی تاریخ کے سینے پر نقش ہے جب منصور نے آپ کو زہر دیا تھا۔
اُس سیاہ رات کے پہلے پہر اگر علم کا ایک دروازہ بغداد کے بندی خانے میں بند ہو رہا تھا تو دوسرا دروازہ رات کے آخری پہر بیت المقدس کے قریب ایک خوبصورت بچے امام شافعی کی صورت میں کھُل رہا تھا۔
ہوائیں ابھی بھی گرمی سے لدی پھندی تھیں۔ البتہ دھوپ کے رنگ سونے میں گھل گئے تھے۔عمارتوں، گھروں اور کھجور کی چوٹیوں پر بکھرا یہ سونا ماحول کو عجیب سی فسوں خیزی دیتا تھا۔یہ سنہری سی فسوں خیزی سچائی کے راستے پر ان کی استقامت کا بتاتی تھی۔
بیس دن تک نماز جنازہ ہی پڑھی جاتی رہی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
اور جب میں گاڑی میں بیٹھی میں نے کہا تھا۔
”افلاق قرب وجوار میں جتنے بھی خدا کے برگزیدہ لوگوں کے مزار مبارک ہیں اُن کا دیدار کروادو۔فاتحہ خوانی ہوجائے۔“
گردوغبار سے اٹے پڑے راستوں کو دیکھتے ہوئے میں بڑی دکھی سی تھی کہ بغداد خدا کے نیک اور پسندیدہ لوگوں کا مسکن۔اس پر تو وہ مثال صادق کہ اینٹ اٹھاؤ تو نیچے سے ولی درویش برآمد۔تا ہم یہ بھی مقام شکر کہ سڑکیں گلیاں کشادہ تھیں۔گاڑی چلتی بھی تھی اور موڑ بھی سہولت سے کٹ رہے تھے۔دو رویہ گھر خستگی اور کہنگی کا نمو نہ تھے۔اللہ کے پسندیدہ لوگوں کے آستانے تو صدیوں پرانے تھے اور انہی جگہوں پر تھے۔زمانے کے ستم رسیدہ ہاتھوں نے جانے کتنی بار انہیں تکلیف پہنچائی۔
آبادیاں بنیں اور مسمار ہوتی رہیں۔سلطنت عثمانیہ نے بھی توجہ نہ کی۔نئے ملک کے طور عراق تو اپنی استقامت کی گھمن گھیریوں میں اُلجھا رہا۔ان پر کیا توجہ دیتا۔گھروں کے بنیروں پر بجلی کی موٹی موٹی تاروں کا بے ہنگم سا پھیلاؤ،دیواروں میں ٹھنسے ڈیزٹ کولروں کی بہتات عجیب سے کوفت بھرے تاثر کو پیدا کرتی تھیں۔
جمیلہ ہاشمی کی دشت سوس کے صفحات دماغ میں پھڑپھٹراتے تھے۔کہیں انا الحق کی آوازیں کانوں میں گونجتی تھیں،کہیں وقت کے علما ء سے تصادم کے منظر اُبھرتے تھے۔
تاریخ کی ایک اہم ہستی کہاں بسیرا کیے ہوئے ہے؟اگر زرد ی اینٹوں والی دیوار کی پیشانی نیلی اور فیروزی نقاشی سے سجی زمانوں پرانی تختی منصور الحلاج کے نام کو نہ اٹھائے ہوئے ہوتی تو مجھے یقین ہی نہیں آنا تھا کہ ملحقہ گھر اور گلی کی گندگی دونوں بہت سے سوال کررہی تھیں۔مگر ہم تیسری دنیا کے ملکوں کا اپنے قابل فخر ورثوں کے ساتھ بے اعتنائی کا یہی المیہ ہے۔
دروازہ ذرا سا دھکا دینے سے کھل گیا۔سامنے بڑے سے براؤن چوبی دروازے والی ایک اور عمارت تھی۔ اندر دو غیر ملکی خواتین تھیں۔بھاری بھرکم وجود والا متولی الٹی پلٹی انگریزی میں باتیں کرتا تھا۔کمرے میں سیلن تو نہیں تھی مگر کہنگی کی ہمک کا رچاؤ تھا۔اپنے بارے میں بتا یا۔فاتحہ پڑھی اور باہر آگئی۔
متولی نے کچھ نذر و نیاز کیلئے میری طرف دیکھا ضرور مگر چونکہ میری بجائے زیادہ موٹی سامیاں پیش نظر تھیں اس لئیے کچھ پرواہ نہ کی۔
کچھ ایسا ہی حال حضرت جنید بغدادی کے مزار مبارک کا تھا۔کچا پکّا راستہ ویسے ہی مٹی کوڑے کرکٹ سے اٹا پڑا۔مرکزی دروازے کی سفید رنگت بھی ماند ہوئی پڑی۔گیٹ سے ملحقہ دیوار پر نیلے حروف میں مرقد جنید بغدادی لکھا ہوااور ساتھ ہی کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے۔دائیں ہاتھ دیوار کے ساتھ قبرستان تھا۔
”یااللہ“لمبی سانس کھینچی تھی۔
اندر داخل ہوئی۔چلو شکر کہ یہاں صفائی ستھرائی بہتر تھی۔اردگرد درختوں کی چھاؤں تھی۔بیلوں کی فراوانی تھی۔سبزے کی بہتات طبیعت کو شاداب کرتی تھی۔لوہے کی راڈوں میں پھنسا بڑا سا بورڈ رہنمائی کرتا اور بتاتا تھا کہ یہاں مدرسہ بھی ہے۔جامع مرقد الشیخ الجنید بغدادی و مرقد شیخ سری السقطی ہے۔
مزار کھلا تھا۔میں اندر گئی۔استاد اور شاگرد دونوں کیلئے باری باری فاتحہ پڑھی۔
میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام جنید رکھا تھا۔میں اُن سے بہت متاثر تھی۔یہ جتنے خوبصورت اور شہہ زور تھے اتنے ہی غصیلے بھی تھے۔مگر جب خدا کا کرم ہوا تو ایسے حلیم طبع بن گئے۔مجھے اُس کا نام غضنفر نہیں رکھنا چاہیے تھا وہ شاید اسی لیے بہت غصیلا ہے۔
شکر ہے مزار پُروقار تھا۔
دونوں کے مزار مبارک کے تعویز خوبصورت منفرد سے ہیں۔
بغداد کی مقدس سرزمین نبیوں، ولیوں،خداکے پیارے لوگوں کی آماجگاہ۔مجھ جیسی گہنگار محض حاضری سے خانہ پُری کررہی تھی۔
حضرت معروف کرخی کے دربار میں حاضری ہوئی۔نفل پڑھے۔یہ بھی وہیں قریب ہی بستے ہیں۔ایک دوسرے سے متاثر، ایک دوسرے کے شاگرد اُستاد۔
امام احمد بن حنبل امام شافعی کے حلقہ درس میں شامل ان کے شاگرد حنبلی مسلک کے امام معتزلہ (قرآن مخلوق ہے) جیسے عقیدے کو تسلیم نہ کرنے پر مامون اور اس کے بھائی معنصم بااللہ کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والی ہستی۔خدا اور اس کے نبی کی سچی عاشق۔بغداد کے بہت سے لوگ حنبلی عقیدے کے پیروکار ہیں۔
میں نے یہاں فاتحہ کے ساتھ عصر کی نماز بھی ادا کی۔
اس علاقے کے کچھ حصّے نسبتاً بہت خوشحال نظر آتے تھے۔سڑکیں کشادہ، درختوں کی بہتات اور بازار شاندار تھے۔کچھ درمیانی بودو باش والے اور کچھ ماٹھے سے تھے۔ یہاں کے بھی ہر گھر میں اور شاہراہوں کی چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں اے سی نصب تھے۔
خوبصورت دل کش لڑکیاں کہیں عبایا پہنے،کہیں جنیز پر اے لائن شرٹ پہنے کوہان نما جوڑوں پر چمکتے رنگوں والے سکارف پہنے دوکانوں کے اندر آجارہی تھیں۔سائیکل چلاتے مرد،مُوٹر سائیکل اڑاتے نوجوان،کہیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ،کہیں چوبی ریڑھیوں میں بیٹھے اچھے خوش پوش سے آدمی جنہیں دیکھ کر نہ صرف ہنسی آئی بلکہ بغداد میں اپنا پہلا دن بھی یاد آیا۔
ایک جگہ میں نے عورتوں کو بڑی بڑی سینیوں میں عراقی پیسٹریاں سروں پر اٹھائے لے جاتے دیکھیں۔وہی ہمارے ہاں والا منظر کہ جیسے سموسوں کے تھال حلوائی کی دوکانوں پر جاتے ہیں۔ایک دو جگہ میں نے عورتوں کو پانی کی بالٹیاں اٹھائے پانی لے جاتے دیکھا۔
منظروں میں کتنی یکسانیت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply