لہو پکارے آدمی(2،آخری حصّہ)۔۔عامر صدیقی

‘‘ اچانک جاگا کی مخالفت کے ساتھ ہی اس کی حمایت میں درجنوں آوازیں آئیں، یہاں تک کہ ہریجن نوجوانوں نے بھی مشین کی طرح ہاتھ اٹھا کر سر ہلا دیا۔’’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم،سے گیتا کا پروچن کرانا چاہتے ہو،کراؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مقصد کا بھی خیال رکھو۔‘‘ بھیرو اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اسے اسکی سمجھ ہے کہ معاملہ کہاں سے گڑبڑ ہے اور ان کا اشارہ کدھر ہے۔ مگر بھیرو اس کیلئے تیار ہے کہ وہ جہاں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، وہاں تبدیلی بہت مشکل ہے۔ تب تو یہ نوجوان پلیٹ فارم کہاں رہے گا،برہمن فورم ہو جائے گا۔ ’’ اس میں بھیرو ترپاٹھی نے نااہل آدمی کو چن لیا ہے۔‘‘ ایک آواز آئی۔’’ نام لے کر کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کون ہے؟‘‘ بھیرو پھر کھڑا ہو گیا۔سناٹا بڑھنے لگا لیکن اسے توڑتے ہوئے نگینہ بولا ۔’’ ساتھیوں! میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔‘‘ ’’ یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ بھیرو چلایا۔مگر باقی لوگوں نے مخالفت نہیں کی کہ نگینہ کو اپنا نام واپس نہیں لینا چاہئے۔’’ اب بولو، اس کا نام برہمن فورم رہنے دوں؟‘‘ بھیرو نے پوچھا۔’’ ایسے تو پہچان میں آ جائے گا۔‘‘ بھیرو اپنا غصہ دبانے کی بہت کوشش کر رہا تھا۔ کافی سنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، لوگوں میں ایسے برے خیالات کب تک زندہ رہیں گے؟ دیہات میں سیاسی شعورکتنا ضروری ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھ پا رہا۔ اسے تو انتخابات کے لئے سیاست کی سازش لگتی ہے۔ طالب علموں کو برابر ڈرایا دھمکایا کہ سیاست بھلے لوگوں چیز نہیں ہے۔ جسے تھوڑی بہت سیاسی سمجھداری ہے، اسے جیل میں ڈلوا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے بڑے بزرگ ہنستے ہیں کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔ آزادی کی تحریک کے دنوں میں بھی پندرہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے لوگ اسی طرح ہنستے ہوں گے، مگر نوجوانوں نے ان کی بالکل پرواہ نہیں کی تھی۔ اس گاؤں کے نوجوان اتنے کاہل کیوں ہیں؟

اس دن کی میٹنگ ختم ہو گئی۔ مگر دوسرے دن سے نوجوانوں میں اس پرسخت بحث رہی کہ برہمن نوجوان، مُسہر کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ کیلاش ترپاٹھی مددگار سکریٹری اور نگینہ رام جنرل سکریٹری؟ سیانوں کو بات معلوم ہوئی تو انہوں نے برہمن ٹولی کو کوسا۔ آہستہ آہستہ تمام لڑکے الگ ہونے لگے۔ جاگا پانڈے صدر تھا ،اس لئے دونوں طرف تھا۔ وہ بھیرو کے سامنے پہچان میں بھی نہیں آنا چاہتا تھا۔جاگا، بھیرو ، نگینہ، سیوک رام اور ایک چمار رکن کو چھوڑ کر باقی سب نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ سے استعفی دے دیا۔ کیلاش ترپاٹھی نے ہنگامہ کیا کہ بڑے پنڈت جی کالڑکا بھیرو کمیونسٹ ہو گیا ہے۔ بھیرو ،پوری برہمن ٹولی کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔۔ اندرا گاندھی کو بھلے سوشلزم سے پیار ہو، لیکن ہم تو کمیونسٹ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ گاؤں بازار کے بھلے لو گ کمیونسٹ بن رہے ہوں، مگر برہمن ٹولی کو ابھی تک یہ ہوا نہیں لگی ہے۔ جاگا پانڈے کے باپ نے’’باغی نوجوانوں‘‘ کو سمجھایا کہ نہروجی سوشلزم چاہتے ہوئے چل بسے۔ اندراجی کا سوشلزم بڑا غیر متشدد ہے، کسی کا بھی دل دُکھانے کی بات نہیں ہے۔ حکومت کسی کی زمین نہیں لے گی، جو شاستر، روایت کے مطابق چلتی رہی ہے، وہ چلتی جائے گی۔ سوشلزم میں وہی سہولتیں رہیں گی، جو کانگریس سے پہلے تھی۔ کمیونسٹ کی کیا ضرورت ہے؟’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ بنا کر بھیرو گاؤں کے لڑکوں کو تباہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟ کیلاش ترپاٹھی نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کے خلاف مکمل ماحول تیار کر لیا۔ بپت چمار بھی اسی کے حق میں ہے۔ بپت کا باپ زمانے سے کیلاش کا ہل چلاتا ہے ۔۔ سسرے کی کیا مجال جو بھیرو یا نگینہ کی پارٹی میں چلے جائیں۔ اس طرح کے دباؤ کے زیرِ اثر دوچار جولاہے، لوہار بھی اس کے حق میں ہیں۔جاگا کے باپ پانڈے جی بھی کیلاش کا ہی طرفدار ہے۔ کیلاش نے ادھر نعرہ دیا کہ جو سسرے، بھیرو کے دَل میں گئے، ان کی ٹانگ کاٹ لی جائیں گی۔ کیلاش ہاتھ پاؤں سے مضبوط آدمی ہے ۔۔ تمام لڑکے اس سے خوف کھاتے ہیں۔ بھیرو نے بڑی ذلت کی بات کر دی ہے کہ نگینہ مُسہر کو اس کے اوپر جنرل سکریٹری بنا دیا ہے۔ سالا نگینہ جہاں بھی اکیلا مل جائے، سر نہ اتارا تو اصل برہمن کے بوند سے نہیں۔ ذات کے مسہر، بنیں گے جنرل سکریٹری! ۔میٹنگ کی بات جب جب کیلاش کویاد آتی ہے، خون غصے سے کھولنے لگتا ہے۔ اس کا باپ بھی تو پانڈے جی سے حیثیت میں کم نہیں ہے۔ چالیس ایکڑ زمین ہے۔ پانڈے جی کے خاندان میں جاگا ،تشدد پسند نکل رہا ہے۔ پانڈے جی، گاندھی جی کے پجاری بنے رہیں، بھیرو تو جاگا کو کمیونسٹ بنا کے چھوڑے گا۔ انہوں نے مل جل کر یہ طے کیا کہ گاؤں میں شکدیو چودھری کی تقریر نہیں ہونے دی جائیگی۔ کیلاش کو پانڈے جی نے ایک اچھا مشورہ دیا،’’ بیٹاتم دوسرا فورم کھول دو’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘، گاندھی جی کے نام سے سب ڈریں گے۔‘‘کیلاش نے چلا کر اعلان کیا،’’ اب سالوں کا گاندھی جی کے نام پر ہی مزاج کھٹّا کر دوں گا۔ ایک بار بولو، مہاتما گاندھی جی کی جے!‘‘اس نے پانڈے جی سے کہا، ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم، میں بڑی ذاتوں کی توہین نہیں کی جائے گی۔ برہمن ہی صدر اور سیکریٹری رہے گا۔ کیلاش ترپاٹھی، صدر اور بہورن پانڈے ،سیکریٹری۔‘‘اس نے سترہ لوگوں کی کمیٹی بنائی ، گیارہ برہمن، دو ہریجن اور چار پسماندہ ذات سے لیے۔ گاندھی وادی نوجوان فارم زندہ باد، سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد۔ مہاتما گاندھی کی جے! وہ بپت چمار سے بولا،’’بپتا، نگینہ کو گاؤں نہیں چھوڑوا دیا تو۔۔۔‘‘’’میں تو ہر طرح سے برہمن ٹولی کیلئے تیار ہوں۔صرف چاہتا ہوں کہ میٹرک پاس کرا دیجئے۔زبان دیتا ہوں، آگے نہیں پڑھوں گا۔ آپ لوگوں کی خدمت کرتا جاؤں گا۔‘‘’’ تم لوگوں کے نصیب میں پڑھائی ٹھونس بھی دی جائے ،تب بھی عقل نہیں آ سکتی۔ ساری سہولیات ہیں، مگر سسرے تب بھی تڑپ رہے ہیں۔‘‘ کیلاش ترپاٹھی تالی مار کر ہنس رہا تھا۔’’میرے ہاتھ میں ابھی سے بھالا دیجئے، مالک!‘‘’’کا ہے خاطر سسرا؟‘‘’’ نگینہ رام کو اسی پر ٹانگ لیتا ہوں۔‘‘’’ جیو بیٹا!‘‘بپت چمار، نگینہ کو اپنا سب سے مشکل دشمن بولتا ہے۔ جب کیلاش ترپاٹھی کا ہاتھ اس کے سر پر ہے، تو کوئی بھی مائی کا لال اس کا گٹا نہیں پکڑ سکتا۔ اس نے کہا،’’شکدیو چودھری گاؤں میں آیا تو خون ہو جائے گا۔ مجھے کالج میں نہیں پڑھنا ہے کہ خوف لگے گا۔ میں رہوں گا یا نگینہ مُسہر۔‘‘بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام، بپت اس لئے نہیں لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو، ہے تو برہمن! اتنی جرات کہاں ہے کہ بڑی ذات والوں کی مخالفت کر سکے ۔ اندر اندر تو خوف لگتا ہی ہے کہ اس گروپ بندی میں بھیروناتھ ترپاٹھی کا نام نہ منہ سے نکل جائے۔ نگینہ کے ساتھ دشمنی سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اتوار کے دن بھیرو اور نگینہ کوششیں کرکر کے تھک گئے ہیں، مشکل سے میٹنگ میں سات آٹھ نوجوان شامل ہوئے ہیں اور پروفیسر شکدیو چودھری کی باتیں سن رہے ہیں، تبھی باہر سے روڑے پتھر پھینکے گئے اور کیلاش اور ان کے ساتھی ’’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد‘‘،’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘ کے نعرے چیخ چیخ کرلگا رہے تھے۔کیلاش نے باہر مائیک کھڑا کیا تھا اور خود چلا رہا تھا،’’ یہ لوگ گاندھی کے، کانگریس کا دشمن ہے۔ یہ لوگ اپنے یار روس، چین کی حمایت میں ہم نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں، ہم اپنی ثقافت کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہماری ثقافت سے ہی ہم بڑے ہیں۔ بھارتی ثقافت زندہ باد! بھارتی ثقافت زندہ باد! بھائیوں! اس بات کو یاد رکھیں، نوٹ کر لیں، اصلی نوجوان پلیٹ فارم، گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم ہے۔ جو اصلی ہے، اس کے مندرجہ ذیل عہدیدار ہے۔ آپ کو فہرست پڑھ کر سناتا ہوں۔ مسٹر کیلاش ترپاٹھی صدر، مسٹر بہورن پانڈے سکریٹری، مسٹر پھینکا تیواری خزانچی۔ ہم نے ہر ذات کے نمائندے کو موقع دیا ہے۔ برہمن زیادہ ہیں، اس لئے انہیں زیادہ مواقع ہیں۔ ہم گاؤں کی عزت ہیں۔ نعرہ لگائیے، گاؤں کی عزت جانے نہ پائے۔ گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘لیکن ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم ‘‘ کی میٹنگ چلتی رہی۔ انہیں یقیناًپتہ ہے کہ اس میں کیلاش ترپاٹھی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ انہیں صحیح راستے پر لائیں گے۔ ہفتے میں ایک بار ہر اتوار کو اپنی بیٹھک کرتے جائیں گے۔ جاگا پانڈے کا من الجھنوں میں پھنس گیا ہے۔ نہ صدر کا عہدہ نگلتے بنتا ہے، نہ اُگلتے۔ وہ ذہنی الجھن میں بری طرح پھنسا رہا کہ کیلاش کو کس طرح سمجھایا جائے۔ چلو، اور کچھ نہیں تو وہ بابوجی کی عزت تو کرتا ہی ہے۔ بابوجی اس کی برابر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ انہی کے مشورہ پر تو اس نے’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہو گا کہ اُس کی دلی ہمدردی اسی کے ساتھ ہے۔ یہی بہورن پانڈے بھاری لٹھ آدمی ہے۔ ذرا اسی کو سمجھانا پڑے گا کہ تمہارا دشمن میںیعنی جاگا پانڈے نہیں، بھیرو اور نگینہ مُسہر ہے۔ اگرچہ،جاگا سمجھ رہا ہے کہ بھیرو اور نگینہ بڑے صاف گو ہیں۔یہ نوجوانوں کے لئے جو بھی باتیں کرتے ہیں، اچھی لگتی ہیں۔ ان کے ساتھ دھوکہ، کتنے بڑے اعتماد کا خون ہو گا! یہ لوگ بھی جاگا کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی شرارت کی سوچ رکھنا تو غلط بات ہے۔ جاگا کو ایک اندرونی خوف ستا رہا ہے کہ اس نے کیلاش کا ساتھ دیا تو وہ اپنے ہی اعتماد کا خون کرے گا۔ بپت چمار، رام دیو لوہار، رحمت اللہ جلاہا سبھی گمراہ لوگ ہیں۔ جس دن ان کو اصل بات کا پتہ چل گیا، اس دن سے وہ بھی کیلاش کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کیلاش کی وجہ سے کسی کی بیٹی بہو کی عزت مشکل ہے۔ نگینہ تلملا کر رہ جاتا ہے۔ کیلاش کو نگینہ اس لئے بھی برداشت نہیں ہو پاتا کہ نگینہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ کیلاش کا خون کھولتا ہیں کہ اس مُسہر کے باپ کا کیا جاتا ہے۔ بیٹی بہو جس کی خراب ہوئی، وہ تو غریب کچھ بولتا نہیں ، اس نگینہ کو کیا ہو جاتا ہے؟ مُسہرِن8 کو وہ چھو کر سکتا تو کوئی مُسہر ٹولی میں بھی بچتی کیا؟ اتنے میں ہی لڑکوں نے پھرعہد لیا کہ ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘کی بیٹھک مخالفت کے باوجود کرتے جانا ہے۔ پروفیسر شکدیو چودھری ان کے گھر میں برابر آئیں گے۔باہر کیلاش اور ان کے ساتھی چلا چلاکر تھک گئے۔ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ کیلاش ،بپت اور دیگر ساتھیوں سے بول رہا تھا۔’’بھیرو اور نگینہ کو ایک ہفتے کے اندر مار کر خراب نہیں کیا تو برہمن نہیں!‘‘اس کے بعد سے مخالفانہ انداز میں مواقع تلاش کر رہا ہے، کوئی تو مل جائے۔ چاہے نگینہ، چاہے بھیرو۔ دونوں دھرم کے قاتل ہیں۔زیادہ تر بھیرو اکیلے سائیکل سے کالج نکل جاتا ہے اور نگینہ پیچھے سے پیدل پہنچتا ہے۔ مگر کالج سے لوٹتے وقت بھیرو کبھی نگینہ کو نہیں چھوڑتا۔ کیلاش نے بپت چمار کو للکار دیا ہے کہ نگینہ رام کو جہاں کہیں بھی دیکھو، سر اتار لو۔ اسے یہ فکر پھر کھائے جا رہی ہے کہ باپ نے بندوق کا لائسنس ابھی تک نہیں کروایا۔ بندوق ہوتی تو تشویش کی بات نہیں ہوتی۔ ساری مُسہر ٹولی کو اڑا دیتا۔ کہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔نہ تھانہ، نہ اسمبلی، کہیں نہیں۔ گاؤں میں اور بھی کئی بندوقیں ہیں، پر کیلاش کے پاس نہیں ہے۔ کیلاش چھوٹی ذات والوں کا،خاص کر مُسہروں کا شدید مخالف ہے۔مُسہروں کو آدمی نہیں کہتا ہے۔ مُسہر پالکی ڈھوتے ہیں، چار آدمیوں کی جگہ ایک مُسہر۔ تب کوئی مُسہر آدمی کیسے ہے؟ نگینہ آدمی نہیں ہے۔ مار دے تو کیا تکلیف ہوگی؟ مُسہر چوہے سے پیدا ہے، جیسے بندر سے آدمی ہوا ہے۔ کیلاش کو فوری طور خیال آیا ہے۔ اپنے ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی بھی میٹنگ بلائی جائے اور بحث کا موضوع رہے ۔’’ مُسہر آدمی ہوتا ہے یا جانور؟‘‘ جو جانور کے حق میں ہیں، وہ ہمارے ہوئے اور جو اس کے مخالف ہیں، وہ بھیرو کے۔’’مگر نگینہ نے آدمی کے حملے کا، جانور کی طرح جواب دیا تب کیا ہوگا؟‘‘ اس نے بپت چمار سے پوچھا۔’’میں بھی چمار ہوں۔‘‘’’بھاگ، سسرا!‘‘کیلاش اس کی حماقت پر ہنسا۔ اس کے دماغ میں یہ بات برابر موجود رہی ہے کہ اگر بپت کے ہاتھوں بھیرو کو تھوڑی بھی کہیں چوٹ آئی تو برہمن ٹولی میں بدنامی ہوگی۔ لوگ اسلحہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگیں گے۔’’کیلاش نے برہمن کے لڑکے کو چمار سے پٹوا دیا۔‘‘ لہذا نگینہ کی خبر لینا ضروری ہے۔ اس کا اثر بھیرو پر پڑے گا اورڈر جائے گا۔ پھر اس کی ہمت نہیں ہو سکتی ہے کہ گاؤں میں کوئی دوسری حرکت کرے۔ بزرگ کیلاش کے اقدامات کی تعریف ہی کریں گے۔’’ میں تو جان لے لوں گا نگینہ کی۔‘‘ بپت بولا،’’مہاتما گاندھی کے خلاف فورم بنا کر بھی کوئی جیت سکتا ہے؟میں آج اکیلے دونوں کو دیکھ لوں گا۔‘‘’’ابھی بھیرو نہیں، نگینہ۔ اس میں بدنامی کا ڈر ہے۔‘‘انہوں نے سائیکل آم کے درخت سے لگا دی اور دونوں سڑک سے اتر کر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔’’وہ لوگ آ رہے ہیں۔‘‘ بپت نے سرگوشی کی۔’’چپ، حرامی کہیں کا!‘‘بپت خاموش سے اٹھا۔ اس نے بھیرو کی سائیکل پیچھے سے پکڑ کر الٹ دی اور نگینہ کے سینے پر بیٹھ کر کھجور کی چھڑی سے پیٹنے لگا۔ بھیرو نے بپت کی گردن پکڑ لی اور جوتے کی نال سے اس کا جبڑے دبا دیا۔ نگینہ کے جسم سے کافی خون نکل رہا تھا، مگر اس نے خون کو بھول کر کیلاش کو پکڑ لیا اور بے رحم ہو کر اتنا مارنے لگا کہ خود تھک گیا۔ کیلاش کے مار کھانے سے بپت کی ہمت بالکل ٹوٹ گئی۔ وہ کیلاش کو اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔’’جاؤ، سالے۔ بھاگ رہے ہو، ورنہ جان لے لیتا۔‘‘ بھیرو چیخ کر بولا۔’’ نگینہ برہم ہتیالگے گی سالے! تم نے تشدد کیا ہے۔‘‘ بھیرو ترپاٹھی کو للکارا ہے۔ میں نے بپتا کو کہہ دیا تھا کہ بھیرو کو مت مارنا۔متشدد اور جانوربھیرو کو لاج نہیں آئی کہ برہمن ایک مُسہر کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔‘‘ان کے جانے کے بعد نگینہ نے پوچھا،’’ اب کیا ہوگا بھیرو بابا؟ اب تو مُسہروں کا گاؤں کے پاس رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے چلتے سبھی پریشانی برداشت کریں گے۔‘‘’’ ہمت رکھو، نگینہ۔‘‘ ’’ سو تو رکھنی پڑے گی۔‘‘’’تب کیا بات ہے؟‘‘ ’’کیلاش شیطان ہے،ہمارا نمبر ون دشمن!‘‘’’ مگر گاؤں کے سبھی تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘’’ مجھے ڈر نہیں لگتا۔ مگر چوبیس سالوں کی آزادی نے کتنے صحیح لوگوں کو پیدا کیا ہے؟‘‘وہ لوگ جب گاؤں پہنچے تو مُسہر ٹولی میں آگ لگی ہوئی تھی اور سبھی بچے، عورتیں، مرد چلاتے ہوئے گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ نگینہ رام اور بھیرو ترپاٹھی، بہت اونچے طوفان کو سینے کے اندر روک کر گاؤں کے کنارے پر رکے ہوئے تھے۔***

:مصنف مدھوکر کا تعا رف

مدھوکر سنگھ۔ پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ء میدان: ناول، کہانی، شاعری، ڈرامہ،بچوں کا ادب۔ ان کی کچھ اہم تخلیقات:ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگاتھا، بدنام، بے مطلب زندگیاں،اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو کنتی مائی، سمکال۔کہانیوں کے مجموعے:پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ڈرامہ: لاکھو، صبح کے .لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔گیتوں کا مجموعہ : رک جا بدرا۔ انتقال:۱۵ جولائی،۲۰۱۴ ء میں ہو ،آرا (بہار) سے تعلق تھا

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply