• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کارنیل ویسٹ : امریکہ کا انسان دوست فلسفی ، ادیب اور معاشرتی اور سیاسی مزاحمت کار۔۔احمد سہیل

کارنیل ویسٹ : امریکہ کا انسان دوست فلسفی ، ادیب اور معاشرتی اور سیاسی مزاحمت کار۔۔احمد سہیل

کارنیل رونالٹ ویسٹ ( Cornel Ronald West) ، امریکی فلسفی، ماہر مذ ہبیات، عوامی دانشور، مزاحمت کار،استاد اور ادیب ہیں۔ وہ 2 جون 1953 میں امریکی ریاست اوکلوہوما کے شہر ‘ تلسا’ میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی کے دن کیلی فورنیا کے درالحکومت ‘ سیکریمنٹو’ میں بسر  ہوئے۔ کارنیل ویسٹ نے انڈر گریجویٹ ڈگری ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ وہ پہلے سیاہ فام امریکی تھے جنہوں نے 1980 میں پرنسٹن یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی  سند حاصل کی۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ 2002 میں کارنیل ویسٹ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر لارنس سے انقلابی اور لبرل مذہبی سوچ کے سبب شدید اختلاف اور تنازع  پیدا ہوا اور وہ ہارورڈ یونیورسٹی کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئےاور پھر جامعہ پرنسٹن میں پروفیسرمقرر ہوئے۔ آج کل نیویارک کی” یونین تھیولوجیکل سمینری” میں تدریسی فرائص انجام دے رہے ہیں۔ وہ پیرس یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے ہیں۔ ان کا اصل تدریسی میدان ‘ امریکی نسلی مطالعے’ ہیں۔

ان کے والد اوردادا بیپٹست گرجے کے مبلغ تھے۔ ابتدائی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ انھوں نے متعدد بارانسانی اور شہری آزادیوں کے حصول کے لیےاور امریکہ میں   اقلیتوں  پر مظالم کے خلاف بڑے بڑے جلسے، جلوسوں اور مظاہروں میں شرکت کی۔ وہ بچپن میں میلکم ایکس (1925۔1965 ) کی عسکریت پسند متشدد تنظیم ‘ بلیک پینتھر’سے متاثر رہے۔ کارنیل ویسٹ سیاسی طور پر “سوشلسٹ ڈیموکریٹ” مشہور ہوئے مگر وہ زیادہ تر مذہبی اور نسلی مطالعوں اور مباحث میں مصروف رہے۔ وہ اپنے آپ کو ‘غیر مارکسی سوشلسٹ’ کہتے ہیں کیونکہ ان کو کارل مارکس (1818.1883) کے مذہبی نظریات اور خیالات سے اتقاق نہیں ہے۔ کارنیل ویسٹ  مارکس کے معاشی نظریات، تاریخی مادیت، طبقاتی جدوجہد، قدر زائد، استحصال اور مغائرت کے نظریات اور تصورات کو تسلیم کرتے ہیں۔ کارنیل ویسٹ عوامی قسم کے دانشور ہیں۔ وہ غریبوں کے کھانے پینے کے کئی منصوبوں کے سرپرست ہیں۔ گرجوں میں بھی سرگرم ہیں۔ جیلوں  میں قیدیوں کی بہبود میں بڑھ  چڑھ  کر حصہ لیتے ہیں۔ ویسٹ امریکہ کی ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت، ” ڈیموکریٹ سوشلسٹ امریکہ ” کے بنیادی اور سرگرم رکن ہیں۔ وہ امریکی صدار تی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر اس کی غلط پالیسوں پر کھل کر نہایت دلیری سے تنقید بھی کرتے ہیں۔

2000 ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کے صدار تی بل بریڈلے کے مشیر خصوصی تھے۔ عراق جنگ کے موقع  پر انہوں نے سابق صدر بش کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے ‘غیر سچی حکمت عملی’ کہا۔ کارنیل ویسٹ بنیادی طور پر ادبی نقاد نہیں ہیں لیکن انھوں نے ادبی نظریاتی تنقید اورادبی مباحث اور مکالموں میں بڑ ھ چڑھ  کر حصہ لیا۔ ان کی ادبی فکریات منفرد نوعیت کی ہیں۔ کچھ دن قبل ان کا ناول نگار بیں اوکری (BEN OKRI) سے “ادب اور قوم” کے موضوع پر بڑے معرکے کو مکالمہ ہوچکا ہے۔ فلسفی پاسکل اور روسی ادیب چیخوف کا گہرا مطالعہ کرچکے ہیں۔

کارنیل ویسٹ نے   امریکہ کو “نسلی نسل پرستی” قوم قرار دیا ہے جہاں “سفید بالادستی” کو ہر رو ز اپنی زندگی کی وضاحت اور جواز پیش کرنے ا پڑتے  ہیں ۔ وہ اپنی کتاب سفید امریکہ “وائٹ امریکہ،”  میں  لکھتے ہیں ، “تاریخی طور پر امریکہ کمزور ہو گیا ہے۔ امریکہ میں نسلی انصاف کو یقینی بنانے کے لئے انسانیت کو مکمل طور پر قبول کرنے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہے۔” اس کے نتیجے میں، ان کا دعویٰ  ہے کہ بہت سے “تخلیق کار اور مظلوم لوگوں کی  شناخت کو بے معنی بنا دیا انھوں نے مغرب کی  سیاہ کمیونٹی کے مسائل میں سے زیادہ تر خاص طور پر امریکہ کے معاشرے اور ثقافت کو فروغ دینے والے سفید نسل پرستی کے عقائد اور تصاویر سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ جو متاثر کرتے ہیں اور نسل پرست زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ اور ان میں سے زخمون کو ابھارتے ہیں اور وجود کے تجربوں کے جذبات کے نشانات کو ابھارتے اور متاثر بھی کرتے ہیں  ۔ کارنیل ویسٹ کے نقطہ نظر میں، 11 ستمبر، 2001 کے حملوں نے سفید امریکیوں کو امریکہ میں ایک سیاہ فام ہونے کا مطلب یہ سمجھایا  ہے کہ “غیر محفوظ،” ہے جو تشدد کے تابع   اور نفرت” کا ایک سلسلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے 9/11 نے معصوم شہریوں پر بدترین دہشت گرد حملوں، کے بعد ” پورے ملک کو “نیلے”  (بلیوز) دائرے میں لا پھینکا ہے۔

مغرب  میں  ادب کے حوالے سےنئی جہات اور ان حقائق کو پیش کیا جو مغرب کی فکری ثقافت نے مکر آمزی سےپیش کی ہے اور امریکہ کی نیگرو ثقافت  اور ادب کو غلط طور پر پیش کیا اور اس کی سازشی طریقے سے تشہیر کرتی چلی آئی ہے۔ کارنیل ویسٹ نے یہ ا ہم کام کیا کہ کورے فکری اور ثقافتی استبداد کو بے نقاب کیا، یہ ان کا ایک طبل جنگ تھا جو اس سے پہلے کوئی اور نہیں بجا سکا  ، ادب اور آرٹ، انبساط، اداسی اور امریکہ کے کالے باشندوں کی اذیتوں اور بحران  کو کارنیل ویسٹ نے افلاطون، دانتےاور چیخوف کے افکار کے ساتھ مطالعہ اور اس کی تشریح کی ہے۔

1994 میں ان کی امریکی نسلی تعلقات پر ایک کتاب شائع ہوچکی ہے، جس کی چار/4 سو ہزار جلدیں فروخت ھوچکی ہیں۔ وہ بیس /20 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ پچیس /25 سے زیادہ دستاویزی فلموں میں جلوہ گر ھوچکے ہیں۔ کارنیل ویسٹ اپنے آپ کو ‘پیغبر’ کہتے ہیں۔ وہ نئی عملیت، استدلال، فلسفہ، نسلیات، ماورائیت،افریقی مطالعے، تاریخیت، مارکیست،الہیات اور اور جمہوری دبستانوں سے منسلک ہیں۔ انھوں نے مارکس کی تاریخیت کو کو اچھوتے انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا ھے اور مارکس کے اخلاقی نظریات کو نئی جہات کے ساتھ پیش کیا۔ جو ساختیاتی نقد وفکر کی منہا جیات سے قریب ھے۔ کارنیل ویسٹ نے کئی امریکی سازشی نظریات کو بے نقاب کیا ھے۔

کچھ ماہ قبل انھیں پرنسٹن کے کیمپس میں دیکھا تھا۔ وھی ساٹھ/60 دہائی کے سیاہ فام امریکی انقلابی مزاحمت کار کی وضع قطع، چہرے پر بے ہنگم ڈارھی، بے ترتیب دانت، چہرے پر کالے فریم کا موٹا چشمہ، چال میں سبک رفتاری اور وھی روایتی سیاہ نوجوانوں والی حرکات و سکنات ان کے مزاج کا امتیازھے۔104 فارن ہائیٹ گرمی میں تھری پیس سوٹ پہنے ،پسنے میں شرابور چلے جارھے تھے۔ ان کو عام لوگ ” برادر ویسٹ” کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور یہ دوسروں کو بھی ” برادر{BROTHER} کہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔کارنیل ویسٹ عہد حاضر کے ایک انسان دوست عوامی فلسفی اور روشن خیال دانش ور ہیں۔ مغرب سے باہر ان کو لوگ قدرے کم ھی جانتے ہیں۔ اردو میں ان کی فطین طبع فکریات پرابھی تک غالبا کوئی تحریر نظر سے نہیں گزری۔ ان کی کتابوں کی فہرست یہ ھے۔

Black Theology and Marxist Thought (1979);

Prophesy Deliverance! An Afro-American Revolutionary Christianity (1982);

Prophetic Fragments (1988);

The American Evasion of Philosophy: A Genealogy of Pragmatism (1989);

Breaking Bread: Insurgent Black Intellectual Life (with bell hooks, 1991);

The Ethical Dimensions of Marxist Thought (1991);

Beyond Eurocentrism and Multiculturalism (1993);

Race Matters (1994);

Keeping Faith: Philosophy and Race in America (1994);

Jews and Blacks: A Dialogue on Race, Religion, and Culture in America (with rabbi Michael Lerner, 1995);

The Future of the Race (with Henry Louis Gates, Jr., 1996);

Restoring Hope: Conversations on the Future of Black America (1997);

The War Against Parents: What We Can Do For America’s Beleaguered Moms and Dads (with Sylvia Ann Hewlett, 1998);

The Future of American Progressivism (with Roberto Unger, 1998);

The African-American Century: How Black Americans Have Shaped Our Century (with Henry Louis Gates, Jr., 2000);

Cornel West: A Critical Reader (George Yancy, editor) (2001);

Democracy Matters: Winning the Fight Against Imperialism (2004);

Commentary on The Matrix, Matrix Reloaded and Matrix Revolutions; see The Ultimate Matrix Collection (with Ken Wilber, 2004);

Post-Analytic Philosophy, edited with John Rajchman.;

Hope on a Tightrope: Words & Wisdom (2008);

Brother West: Living & Loving Out Loud (2009);

The Rich and the Rest of Us: A Poverty Manifesto (with Tavis Smiley, 2012).

Advertisements
julia rana solicitors london

Pro+Agonist: The Art of Opposition (2012)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply