قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات جو کہ ایک زانی مرد اور عورت کی سزا کے حوالہ سے ہے :
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
زانی عورت ہو یا زانی مرد، سو (اِن کا جرم ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کوسو کوڑے مارو اور اللہ کے اِس قانون (کو نافذ کرنے) میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ تمھیں دامن گیر نہ ہونے پائے، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو۔ اور اُن کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی وہاں موجود ہونا چاہیے۔ (اِس سزا کے بعد) یہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گا اور اِس زانیہ کو بھی کوئی زانی یا مشرک ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔ ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیاہے۔
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں، پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ لا سکیں، اُن کو اسی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ ہاں جو اِس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں، وہ خدا کے نزدیک فاسق نہ رہیں گے، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
قرآن ۲۴ : ۲ ۔۵
جب میں طالبانہ مطالعہ اور تجزیہ کرتا ہوں تو قرآن کی اِن آیات کو پڑھ کر واضح یہ ہوتا ہے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزاؤں میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ اُس نے آیات کو شروع ہی یہ کہہ کر کیا ہے کہ “زانی عورت یا زانی مرد” جو کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کسی کو زانی قرار دینے کے لئے ضروری ہوگا کہ چار گواہ لائے جائیں، اِس سے کم اور اِس کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ بول رہے ہوں، اور جو گواہ اپنے سِوا نہ لاسکیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں فاسق ہیں اور اُن کی کسی قسم کی شہادت بھی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے بہرحال آگے ہی یہ بھی فرمادیا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی توبہ قبول کرے گا اور اُس کی نظر میں وہ فاسق نہیں رہیں گے، مگر وہ اس کے باوجود کسی شہادت دینے کا حق تب بھی نہیں رکھتے ہونگے کیونکہ توبہ استغفار کرنے کا تعلق دِلوں کے حال سے ہے اور وہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔
چار گواہوں کی شرط کو اگر دِقت نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایسا معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ پوری طرح سے یہ ثابت ہو اِس سے پہلے کہ مرد یا عورت کو “زانی” قراد دیا جائے کہ مرد یا عورت زنا کرنے کے عادی ہیں ۔ جیسے ایک دفعہ جھوٹ بولنے سے کوئی “جھوٹا” نہیں کہلا سکتا، اُس طرح سے کوئی بھی ایک دفعہ جذبات سے مغلوب ہوکر یہ فعل کر بیٹھے تو “زانی” نہیں کہلا سکتا، اسی لئے میری نظر میں یہاں چار گواہ سے مراد ایک ہی فعل جو ہوا اور اُس کے چار گواہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چار مختلف گواہ جنہوں نے چار مختلف مواقعوں پر ان مرد اور عورت سے یہ فعل ہوتے دیکھا ہے، اور ویسا بھی اس بات کے امکانات کیا ہونگے کہ چار مختلف لوگ اس فعل کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس طرح تو ہوگا نہیں کہ جو مرد اور عورت اس فعل کو کریں گے وہ سب کے سامنے کریں گے ،جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ہو، ظاہر ہے کہ کوشش ہوگی کہ ہر ایک کی نظر سے دور رہیں، تو ویسے بھی اس کے امکانات کم ہوجاتے ہیں کہ ایک ہی فعل کو چار لوگوں نے دیکھا ہو۔ اور آج کے زمانے کو بھی مدِنظر رکھا جائے تو اب تو کوئی ایک شخص ایک ویڈیو ریکارڈ کرسکتا ہے ،اور سوشل میڈیا پر ڈال کر وائرل کر سکتا ہے جس کو لاکھوں لوگ دیکھ سکتے ہیں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کی گواہی موجود ہے تو اُن کو زانی قرار دے کر سزا کا نفاذ کیا جائے؟
اور دوسری بات اِسی ضمن میں اور بھی واضح ہوتی ہے کہ کیونکہ عورت یا مرد اس فعل میں عادی ہوچکے ہیں ،چار گواہ مختلف مواقعوں کی نشاندہی کرچکے ہیں تو اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ کوئی زانی مرد یا عورت کسی زانی عورت یا مرد یا مشرکہ عورت یا مرد سے ہی نکاح کرے گا، کسی پاک دامن مرد اور عورت سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ورنہ ایک دفعہ کے ہی فعل سے کسی کو “زانی” قرار دے کہ اُس کی رہی سہی زندگی میں وہ کس پاک دامن مرد یا عورت سے شادی نہیں کر سکتا یا کر سکتی اور وہ ڈھونڈتا یا ڈھونڈتی پھرے کہ کسی نے ایک دفعہ ہی زنا کیا ہو اور ۱۰۰ کوڑوں کی سزا بھی کھائی ہو، تو وہ شادی اُس سے کرے۔ یہ عقل سے ماورا بات لگتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیات بھی اِسی بات کو میری نظر میں واضح کرتی ہیں:
-
- اور جو مرد و عورت تمھارے لوگوں میں سے اِس جرم کا ارتکاب کریں، اُنھیں ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اُن سے درگذر کرو۔ بے شک، اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ قرآن ۴ : ۱۶
- اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف بڑھ جانے کے لیے دوڑو جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اُن پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ تنگی ہو یا کشادگی، اور غصے کو دبا لیتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ اُن لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خوبی سے عمل کرنے والے ہوں۔ اور جن کا معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی بدکاری اُن سے ہو جاتی ہے یا اپنے حق میں کوئی بُرا کر بیٹھتے ہیں تو اُنھیں اللہ یادآجاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخش دے اور جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ قرآن ۳ : ۱۳۳ ۔ ۱۳۵
اور یہ ۱۰۰ کوڑوں کی سزا جو کہ ایک انتہائی سزا ہے اور جب مجرم کسی رعایت کا مستحق نہیں ہو، تو تب ہی دی جائے گی جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں لونڈیوں کی سزا آدھی دی گئی ہے یعنی ۵۰ کوڑے اس لئے کے اُن کے حالات عام عورتوں کی طرح نہیں تھے ،جن کو پرورش پانے کے اچھے حالات ملے۔ اور ایک بات جو اِس ضمن میں ملحوظ رکھنی چاہیے وہ یہ کہ آیات میں ذکر عورتوں پر تہمت کا آتا ہے مگر یہ آیات مردوں پر بھی اسی طرح اطلاق ہونگی کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو پاک دامن مرد بھی ہوسکتے ہیں جن پر غلط الزام لگا دیا جائے اور اسی طرح بیوی بھی شوہر پر جھوٹا الزام لگا سکتی ہے تو اُس صورت میں کیا حکم ہوگا وہ الگ سے نہیں ملتا ہے۔ مجھ کو اسی لئے جاوید احمد غامدی صاحب کی یہ رائے کافی صحیح لگتی ہے اس بارے میں:
”حاشیہ ۱۰: یہاں اور اِس سے آگے بھی اگرچہ عورتوں ہی پر تہمت کا ذکر ہوا ہے، لیکن عربی زبان میں یہ اعلیٰ سبیل التغلیب کا اسلوب ہے جو صرف اِس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اِس طرح کے الزامات کا ہدف بالعموم عورتیں ہی بنتی ہیں اور معاشرہ اِس معاملے میں اُنہی کے بارے میں زیادہ حساس بھی ہوتا ہے، لہٰذا اشتراک علت کی بنا پر یہ حکم مرد و عورت، دونوں کے لیے عام ہے، اِسے صرف عورتوں کے ساتھ خاص قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہی معاملہ آگے لعان کا بھی ہے۔ “
اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب سزا کا نفاذ کیا جارہا ہو تو مسلمانوں کی جماعت ہو ،تاکہ اِس سزا سے وہ عبرت پکڑیں اور معاشرے میں یہ برائی پھیلنے سے روکی جاسکے۔ کیونکہ زنا اگر عام ہوجائے تو خاندانی نظام تباہ ہوجاتا ہے کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے سے وفاداری چاہ رہے ہوتے ہیں اور جنسی تعلق دونوں میں نفسیاتی طور پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں، چاہے جسم کی جبلت پوری بھی ہوجائے جو کہ بار بار آتی ہے اور پورا ہونا چاہتی ہے جیسے کہ بھوک کی جبلت ہوتی ہے اور ہم کھانا دن میں کئی بار کھا کر اُس کو پورا کرتے ہیں مگر وہ آتی ہے وقفے وقفے سے۔ تو اِسی طرح جنس کی جبلت بھی بار بار واپس آتی ہے اور ہم اِس جبلت کو بھی پورا کرنا چاہتے ہیں جو کہ بیوی یا شوہر کے رشتوں کے علاوہ بھی مٹائی جاسکتی ہے مگر یہ بھوک کی طرح نہیں ہے کہ صرف معدہ میں کھانا گیا اور یہ مٹ گئی اور اِس سے کسی سے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا، بلاشبہ جنسی فعل انسان کی نفسیات پر اور اُس کے تعلقات پر اثر ڈالتا ہے اور انسان چاہتا ہے کہ کوئی رشتہ پیدا ہو اور اسی رشتے میں رہتے ہوئے جنسی تعلق سے وہ جس قسم کی راحت پاتا ہے وہ کسی اور طریقے سے نہیں پاتا اور نہ ہی کسی قسم کی ملامت اپنے اندر پاتا ہے اس فعل کے کرنے کے بعد۔
جنسی تعلق کی عادت ہوجائے تو وہ بالکل ایک نشہ وار چیز کی طرح ہوتی ہے کہ جس کی ایک دفعہ لت لگ جائے تو انسان کے لئے اُس سے نکلنا مشکل ہوتا ہے ،اسی لئے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں ایک حدود میں رکھ کر جنسی تعلقات پیدا کیے جائیں اور وہ حدود میاں بیوی رشتوں کی ہیں اور اس رشتے کے بغیر اس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی۔ مگر اِس معاملے میں انسان کبھی کبھار قابو کھو بیٹھتا ہے کیونکہ اِس جسم کی جنس کی جبلت زور مارتی ہے مگر اُس فعل کے کر گزرنے کے بعد بہرحال وہ اندر سے ملامت بھی محسوس کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حکیم ہیں اور ہمیں پیدا کرنے والے ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ ہم کس طرح بنائے گئے ہیں اور جسمانی اور نفسیاتی طور پر ہم کس طرح کے ہیں اور جنسی آزادی جیسا کہ جانوروں میں ہوتی ہے اگر ہم بھی اُس طرح عمل کریں گے بغیر کسی حدود کے، تو کس کس قسم کے نقصانات سے دوچار ہونگے۔ اِس لئے ہم اپنے اندر یہ احساس ہمیشہ پاتے ہیں کہ اس جنسی فعل سے دور رہا جائے بغیر شادی کے ، جیسے کہ ہم اپنے اندر آفاقی اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ کرنے کا احساس رکھتے ہیں، مگر جیسے ان کی خلاف ورزی کر گزرتے ہیں، اِسی طرح معاشرے میں ان پر قابو نہ رکھا جائے تو مرد و عورت جنسی فعل بغیر میاں بیوی کے رشتے کے بھی کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ فعل معاشرے میں سرائیت کر جاتا ہے اور اس کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے ،جیسے کہ ہم آج کے مغربی معاشروں میں دیکھ سکتے ہیں اور اس کے نقصانات بھی ہمارے سامنے ہیں ،کہ کیسے اس چیز نے اُن کے ہاں خاندانی نظام ڈھا کر رکھ دیا ہے، طلاقوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ شادیوں سے لوگ دور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بچے ماں باپ کی طلاقوں کی وجہ سے رُل جاتے ہیں اور اُن پر نفسیاتی طور پر دور رس اثرات ہوتے ہیں۔
نوٹ: اوپر عرض کیے گئے اپنے فہم پر مبنی نکات میرے اپنے قرآن کے طالبانہ مطالعے اور مختلف عالموں کی رائے سننے کے بعد اخذ کئے گئے ہیں ۔ اگر کوئی شخص دلائل دے کر اِن کی غلطی واضح کردے تو ضرور غور و فکر کروں گا ،دیانت داری سے اور سمجھ میں آیا تو اپنے نتائج فکر پر نظرِ ثانی بھی کرونگا انشاء اللہ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں