کوانٹم سے آگے (21) ۔ عجیب سائنسدان؟/وہاراامباکر

کوانٹم مکینکس کی تشریح کوپن ہیگن میں طے ہو چکی تھی۔ متبادل تشریحات مسترد کر دی گئی تھیں۔ ڈی بروئے اپنی تشریح کے بارے میں ہار تسلیم کر چکے تھے۔ صرف آئن سٹائن اور شروڈنگر بچے تھے جو ابھی تک پوری طرح قائل نہیں ہوئے تھے لیکن ان کے اختلاف کا اثر نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تشریح کیا تھی؟ اس کے بانیوں میں اس پر مکمل اتفاق نہیں تھا۔ ہائزنبرگ اور بوہر کی اس بارے میں رائے بہت مختلف تھی، لیکن بنیادی نکتہ یہ طے کر لیا گیا تھا کہ “پیمائش” یا “مشاہدہ” خاص عمل ہے اور یہ واپس نہیں ہو سکتا۔ پیمائش ہمیں کسی شے کے بارے میں “سچ” سے آگاہ نہیں کرتی بلکہ صرف ایک مفید نتیجہ دیتی ہے۔ کوانٹم مکینکس کا تعلق رئیلیٹی سے نہیں ہے۔
نصابی کتابوں اسی بنیاد پر لکھی گئیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ اور دیگر عملی استعمالات کے لئے اس تشریح کی مدد لی جاتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں متبادل تشریحات میں دلچسپی بڑھی ہے۔ ہم ان میں سے چند کو دیکھیں گے۔ (دلچسپ چیز یہ ہے کہ رئیلزم کی بنیاد پر کی گئی تشریح کی پہلی کوشش پرانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں 1950 میں ایک نوجوان تھیورسٹ ڈیوڈ بوہم کوانٹم مکینکس پر کتاب لکھ رہے تھے۔ وہ پرنسٹن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور ان کی مہارت پلازمہ فزکس تھی۔ وہ رابرٹ اوپن ہائمر کے شاگرد رہے تھے اور کمیونسٹ خیالات سے ہمدردی رکھتے تھے۔ اوپن ہائمر انہیں ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ میں ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن انہیں سیاسی نظریات کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔
ایسے کوئی شواہد تو نہیں کہ وہ جاسوس تھے لیکن اپنی نظریاتی وابستگی کی بنا پر انہیں گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا۔ پرنسٹن یونیورسٹی نے پہلے انہیں معطل کر دیا اور پھر ان کے معاہدے کی توسیع سے انکار کر دیا۔ آئن سٹائن نے کوشش کی کہ انہیں ادارے میں ملازمت مل جائے لیکن انتظامیہ کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔
بوہم بے روزگار تھے جب ان کی کتاب شائع ہوئی اور بہت سراہی گئی۔ یہ کاپن ہیگن تشریح کے دفاع پر تھی۔ آئن سٹائن نے بوہم سے ملاقات کی، کتاب کی تعریف کی اور ساتھ ہی ساتھ متبادل خیالات کے لئے ذہن کھلا رکھنے کو کہا۔ مخفی ویری ایبلز کے بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ آئن سٹائن کامیاب رہے۔ بوہم نے کسی گہری تر تھیوری کی تلاش شروع کر دی۔ اور جلد ہی کوانٹم مکینکس کی ایک ریئلسٹ تھیوری پیش کی جو ڈی بروئے کے کام کو آگے بڑھاتی تھی۔ یہ پائلٹ ویو تھیوری تھی۔ (اس کے مطابق ہر شے لہر یا ذرہ نہیں بلکہ لہر اور ذرہ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہم برازیل چلے گئے اور انہوں نے اپنی تھیوری پر دو پیپر 1952 میں لکھے۔
انہیں اس پر آئن سٹائن سے حمایت نہیں ملی جو پچیس سال تک مخالفت کرنے کے بعد اپنا ذہن بدل چکے تھے۔
ہائزنبرگ نے، بطور آپریشنلسٹ، اس کا جواب دیا کہ بوہم کی تھیوری کے تصورات “غیرضروری نظریاتی سپرسٹرکچر” ہیں، جو فزکس میں اضافہ نہیں کرتے۔ اگرچہ تجرباتی لحاظ سے اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پالی نے بھی ایسا ہی ردِ عمل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنسٹن میں اوپن ہائمر نے بوہم کا پیپر پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ “وقت کا ضیاع” ہے۔ اور بچگانہ ذہنیت کی تخلیق ہے۔ اگر ہم اسے غلط ثابت نہیں کر سکتے تو ہمیں متفق ہونا چاہیے کہ ہم اسے نظرانداز کر دیں۔
مشہور ریاضی دان جان نیش نے اوپن ہائمر سے شکایت کی کہ “آخر فزسسٹ اتنے بند ذہن کے کیوں ہیں؟ کوئی اختلاف کرے یا سوال اٹھائے تو اس کو حماقت یا بے وقوفی کیوں قرار دے دیا جاتا ہے؟ اگرچہ مجھے بوہم سے اتفاق نہیں لیکن اتنی درشتگی؟”۔
اپنے استاد اور سرپرست کی طرف سے بھی صاف مسترد کر دئے جانے نے بوہم کو تنہا کر دیا۔
بوہم اپنا کام کرتے رہے۔ برازیل میں انہوں نے پلازمہ فزکس میں کام کیا۔ چند سال بعد اسرائیل اور پھر لندن چلے گئے۔
سوویت یونین میں خردشیف کے وقت میں جب سٹالن دور کے مظالم کی تصدیق ہوئی تو ان کے کمیونسٹ خیالات کی شدت ماند پڑ گئی۔ اس وقت انہوں نے mysticism کی طرف رجوع کیا اور انڈین گرو کرشنامورتی کے زیرِ اثر چلے گئے۔
نیچر کے بارے میں کسی گہرے نکتہ نظر کی تلاش انہیں فزکس سے باہر لے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوڈ بوہم کی زندگی کو دیکھ کر ہم ان سے ہمدردی کر سکتے ہیں۔ ایک منصفانہ اور عدل پر مبنی معاشرے کا خواب انہیں مارکسزم کی طرف لے گیا۔ جب یہ آشکار ہوا کہ یہ خواب ایک ظالم سراب ہے تو پھر مِسٹزم کی طرف۔ اوپن ہائمر سے کرشنامورتی تک، پراعتماد شخصیات ان کی کمزوری رہیں۔
ان کی سائنس سنجیدہ اور پرعزم تھی اور فزکس کی مشکل ترین گرہیں سلجھانے کی کوشش تھی۔ یہ کہنا آسان ہے کہ بوہم ناکام رہے۔ لیکن وہ ہماری کلچرل گروپ تھنکنگ سے الگ ایک نادر سائنسدان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہم کی پائلٹ ویو تھیوری میں بیسویں صدی کے آخر میں دلچسپی بڑھی۔ اب بوہمین مکینکس کی ایک چھوٹی لیکن متحرک کمیونیٹی موجود ہے جو کوانٹم فاونڈیشن کو الگ زاویے سے دیکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پائلٹ ویو تھیوری کا بنیادی تصور بہت سادہ سا ہے۔ اس کے مطابق ویو اور پارٹیکل بیک وقت ہیں اور دونوں اصل ہیں۔ جو ڈیٹیکٹ ہوتا ہے، وہ پارٹیکل ہے، جب کہ تجربے سے ویو گزرتی ہے جو پارٹیکل کی راہنمائی کرتی ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ پارٹیکل اس جگہ پر جاتا ہے جہاں ویو اونچی ہو۔ جب انتخاب کی باری آتی ہے، جیسا کہ ڈبل سلٹ تجربے میں، تو پارٹیکل صرف ایک سلٹ سے ایک طرف سے جاتا ہے لیکن جب یہ یہاں سے گزار جائے تو پھر ویو اس کی راہنمائی کرتی ہے۔ ہر پارٹیکل کا خاص معین راستہ ہے۔
امکانات کہاں سے آتے ہیں؟ ویسے ہی جیسے نیوٹونین فزکس میں آتے ہیں۔ چونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ پارٹیکل شروع کہاں سے ہوا، اس لئے ہمیں معلوم نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا۔ امکان ہماری لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
ہر شے، خواہ ایٹم ہو، فوٹون، آلات، بلیاں یا انسان، دہرا وجود رکھتے ہیں۔ ویو کے طور پر بھی اور پارٹیکل کے طور پر بھی۔ ایک بلی ایٹموں کی کنفگریشن ہے۔ چونکہ یہ بے انتہا ایٹم ہیں، اس لئے بلی کی کنفگریشن بہت زیادہ انفارمیشن ہے۔
پائلٹ ویو تھیوری میں اہم چیز یہ ہے کہ اس میں ایٹم اصل ہیں۔ ہر ایٹم کی جگہ ہے جو سپیس میں کسی مقام پر ہے۔ ہر بلی کی کنفگریشن ہے جو اس ایٹم کا بتاتی ہے کہ یہ کہاں ہے۔
اور ہر ایٹم کے ساتھ ایک ویو بھی ہے۔ یہ ویو کنفگریشن سپیس میں ہے، اور یہیں سے بلی کی کوانٹم حالت آتی ہے۔
اگر اس ویو کی موجودگی کو قبول کر لیا جائے تو کوانٹم مکینکس کے باقی معمے حل ہو جاتے ہیں۔
ایک ہی بلی ہے جو ہمیشہ ایک ہی کنفگریشن میں ہے۔ یا تو زندہ ہے یا مردہ۔ لیکن بیک وقت دونوں نہیں ہو سکتے۔
ویو فنکشن زندہ اور مردہ کا جمع ہو سکتا ہے کیونکہ لہریں ایسا ہی کرتی ہیں۔ اور یہ کنفگریشن کی راہنمائی کرتی ہیں۔ جس کنفگریشن میں ویو فنکشن بڑا ہو، وہاں پر بلی ملنے کا امکان زیادہ ہو گا لیکن بنیادی طور پر بلی ایک ہی ہے۔ اور اسی طرح الیکٹرون پارٹیکل بھی ایک ہی ہے۔ ایک ہی جگہ پر ہے۔ بلی بھی یا زندہ ہے یا مردہ۔
پارٹیکل یا جسم شاخوں میں سے کسی ایک ہی جگہ پر ہو سکتا ہے لیکن خالی شاخوں کے مستقبل پر نتائج ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ ممکن ہے کہ بوہمین مکینکس کوانٹم مکینکس کی وضاحت کی درست سمت ہو؟ بہت سے ماہرین کہیں گے کہ یہ واضح طور پر غلط ہے، جبکہ کئی ماہرین ان سے اختلاف رکھیں گے۔ یہ سوال ماہرین پر چھوڑ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ (اچھی بات یہ ہے کہ اس کی پیشگوئیاں ہیں جن کو ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے)۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply