گئے دنوں کی یادیں (5)۔۔مرزا مدثر نواز

گئے دنوں کی یادیں/میں اور میرے ہم عمر زندگی کے جس حصے سے گزر رہے ہیں‘ ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے زمانے میں اس اس طرح ہوتا تھا۔ بچپن و لڑکپن کی حسین یادویں ہک جن کو قلمبند کرنے کا مقصدذہن میں محفوظ فولڈرز کو کھول کر کچھ لمحات کے لیے خوشی محسوس کرنا جیسے پرانی تصویروں والے البم کو دیکھ کر ماضی کے لمحات کو یاد کیا جاتا ہے اور آنے والی نسلوں تک یہ بات پہنچانا کہ کیسے وقت پلٹے کھاتا ہے‘ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ہم کیسے جی رہے تھے اور اب کتنی تبدیلی آ چکی ہے۔نوّے کی دہائی میں موجودہ دور کے برعکس بچوں کو سکول میں کھانے کا ٹفن دینے کا کوئی تصور نہ تھا‘ سردیوں میں دوپہر کا کھانا شاید ہی کسی گھر میں پکایا اور کھایا جاتا جبکہ گرمیوں میں بھی اکثر ناغہ ہی ہوتا‘ دوپہر کے کھانے میں بہت کم دن ایسے ہوتے جب ہنڈیا پکائی جاتی‘ عموماً  تنوری کی روٹی کے ساتھ بطور سالن استعمال کی جانے والی ڈشز میں‘ حسب ذائقہ نمک اور سرخ مرچ میں پانی ملاشوربہ‘تلی ہوئی ہری مرچیں‘ تلے ہوئے پیاز‘ کچے پیاز‘ دھنیے کی چٹنی‘ پودینے کی چٹنی‘ ٹماٹر کی چٹنی‘ کیکر کی پھلیوں‘لیموں‘ آم‘ ہری مرچ‘ وغیرہ کا اچار‘ لسی‘ کچی لسی یا لیموں پانی وغیرہ شامل ہوتی تھیں۔ برسات میں جب بارشوں کی وجہ سے منڈی میں سبزیوں کی دستیابی پر فرق پڑتا تو پھر دال ہی سہارا ہوتی تھی‘ بڑا گوشت ہفتہ یا دو ہفتہ میں صرف ایک بار اپنے درشن کرواتا وہ بھی دو یا تین پاؤ‘ گھر کے سات یا آٹھ افراد کے لیے‘ چھوٹا گوشت تو عید پر ہی نظر آتا‘دیسی چکن کسی کے بیمار ہونے کی صورت میں کھانے کو ملتا۔

ان دنوں کوئی یہ بات ہر گز ماننے کو تیار نہ ہوتا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب قاری صاحب بچوں کو گھر گھر جا کر ناظرہ کی تعلیم دیں گے۔ تمام بچے مساجد جا کر کلام پاک پڑھنا سیکھتے تھے جس کے لیے عموماً  صبح فجر کے بعد کا وقت مختص ہوتا تھا۔ والدین اس فکر سے مبرا ہو کر کہ بچے کی نیند پوری ہوئی یا نہیں‘ رات کو جلدی سویا یا دیر سے‘ دوپہر میں سویا تھا کہ نہیں‘ فجر کے بعد نیند سے زبردستی بیدار کرا کرمسجد کی طرف روانہ کر دیتے یا خود چھوڑ کر جاتے‘ کچھ نیند سے مغلوب آنکھوں کو مسل رہے ہوتے تو کچھ رو رہے ہوتے۔ بچے کی ابتدائی تعلیم نورانی قاعدہ سے شروع ہوتی جسے ایک دفعہ مکمل کرنے کے بعد ایک دفعہ دہرایا جاتا۔ ضرار کے گھر کے قریب ہی مسجد واقع تھی جس میں اس کے ناظرہ کے استاد محترم علی محمد صاحب اس وقت امامت کا فریضہ انجام دے رہے تھے‘ امامت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہائی سکول میں عربی کے سرکاری استاد بھی تھے‘ ان کا تعلق تحصیل تلہ گنگ سے تھااور اتنا عرصہ دیار غیر میں گزارنے کے باوجود ان کی ماں بولی میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی جسے پوری طرح پہلی بار سمجھنا بذات خود ایک چیلنج تھا۔ علی محمد جیسا شریف النفس‘ نرم مزاج‘ صابر انسان اس دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس نرم مزاجی کی بدولت انہیں بہت سے دکھوں و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ کافی عرصہ بعد میں نے ایک دن سر راہ ان سے پوچھا کہ لوگوں نے آپ کو دکھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ برا بھلا کہا‘ برے القابات سے نوازا‘ سنگین قسم کے الزامات لگائے‘ حتیٰ کہ دھکے تک دیے لیکن آپ کا جواب صرف اور صرف ہلکی سی مسکراہٹ اور برداشت تھی‘ انہوں نے جواب دیا کہ ضرار‘ میرا ایک ہدف تھا کہ میں نے اپنی اولاد کو اپنی استطاعت کے مطابق بہترین تعلیم دلوانی ہے‘ اسی ہدف نے مجھے یہ سب جھیلنے و برداشت کرنے کا حوصلہ دیااور آج میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کر کے اپنے آبائی علاقے کو روانہ ہو چکے ہیں۔ عالم الغیب علی محمد صاحب‘ جو اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے‘ کی مغفرت فرمائے‘ غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری مسجد میں ان دنوں طالبعلموں کی کم از کم چار قطاریں ہوتی تھیں جنہیں صرف ایک استاد سنبھالے ہوتا۔ کچھ دن گزرنے پر بچوں میں بانٹنے کے لیے پھلیاں مخانے‘ نمک پارے‘ ٹافیاں‘بدانہ‘ سرخ مٹھائی یا پیلے لڈو ہوتے جس کے ساتھ امام صاحب کے لیے ایک عدد کپڑوں کا جوڑا‘ رومال‘ چادر‘ ٹوپی یا پھر دیگر تحائف موجود ہوتے جو ناظرہ کی تعلیم مکمل کرنے والے بچے کے والدین کی طرف سے ہوتے۔ استاد محترم نے کیونکہ امامت کے ساتھ سکول میں بھی فرائض انجام دینے ہوتے اور پھر عصر کے بعد بھی کچھ بچے پڑھنے آ جاتے لہٰذا اس مشکل روٹین کی بدولت ان پر اکثر اوقات نیند کا غلبہ رہتا اور بچوں سے سبق سنتے ہوئے کبھی کبھار اونگھنے لگ جاتے۔ اس زمانے میں ہماری مسجد میں منبر نہیں تھااور امام صاحب ایک کرسی پر بیٹھ کر جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے جو آج بھی سٹور روم میں موجود ہے۔ علی محمد صاحب نماز میں اکثر سورہ قدر کی تلاوت فرماتے۔ گاؤں کی مساجد میں نہانے کے لیے غسل خانے بنائے جاتے جہاں ہر خاص و عام کو غسل کی اجازت ہوتی‘ گھر والے بچوں کو کہتے کہ جاؤ جا کر مسجد میں نہاؤ‘ وضو کرو‘ افطاری کرو‘ اس طرح ثواب زیادہ ملتا ہے۔ بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ گھر سے وضو کر کے جانا افضل ہے کیونکہ مسجد میں وضو کی سہولت تو صرف مسافروں کے لیے ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply