عجب تیری دنیا، عجب تیری کایا۔۔امر جلیل

سر ،آپ جس اعلیٰ منصب پر براجمان ہیں، آپ کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ آپ لوگوں سے فقرے بازی کریں۔ فقرے چست کرنا آپ کو اس لئے بھی اچھا لگتا ہے ،کہ آس پاس کھڑے ہوئے لوگ آپ کی فقرے بازی سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ہیں۔ یہی بات آپ کو فقرے بازی پر اکساتی ہے۔ آپ اپنی ذہانت کے قائل ہو جاتے ہیں اور پھرفقرے گھڑنا آپ کی عادت ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی مصیبتوں کا مارا ہوا شخص پانی کی قلت کی شکایت لیکر آپ کے پاس آتا ہے، تب بھی آپ فقرے بازی سے آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں کو ہنسانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مصیبت کے مارے ہوئے سےآپ پوچھتے ہیں ’’ پانی کی کتنی قلت ہے آپ کے پاس ؟‘‘مصیبت کا مارا گھبرایا ہوا شخص کہتا ہے ’’سر بہت قلت ہے۔‘‘آپ اس نامراد کی گھبراہٹ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ آپ کی فقرے بازی پر فدا لوگ انہماک سے آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تب آپ مصیبت کے مارے ہوئے شخص سے پوچھتے ہیں، کیا اتنی قلت ہے کہ ڈوب مرنے کیلئے لوگوں کو چلو بھر پانی نہیں ملتا؟‘‘آپ اپنے طنز ومزاح پر خود ٹھٹھا مار کر ہنس پڑتے ہیں۔آس پاس کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے آپ کے ماتحت ہنستے ہنستے ادھ موئے ہوجاتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی کھلواڑ سے باز نہیں آتے۔ دوسرے روز ہم آپکے فہم و فراست کے عکاس فقرے اپنے اپنے اخبار کی شہ سرخی بنا ڈالتے ہیں۔ پھر آپ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنا منصب بھول جاتے ہیں۔آپ اپنے کام کاج بھول جاتے ہیں۔آپ کی تمام تر توجہ فقرے سازی پر مبذول ہو جاتی ہے۔ آپ طنز و مزاح سے بھرپور فقرے گھڑتےرہتے ہیں۔بے بسوں پر چست کئے ہوئے آپ کے اپنے فقرے جب آپ اخباروں کی شہ سرخیوں میں پڑھتے ہیں،تب آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اپنے کنبے کو بلا کر اخباروں کی شہ سرخیاں دکھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ اپنی ظرافت کے تحریری ثبوت اپنے ڈیڑھ برس کے پوتے اور دو برس کے نواسے کو بھی دکھاتے ہیں۔ سر جی، فقرے پہ فقرہ چست کرنے والوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے۔ مگر ،سر جی، لوگ آپ کے منصب، اور دبدبے سے ڈرتے ہیں، ایک مرتبہ آپکے طنزیہ فقرے کا جواب کسی نے طنزیہ فقرے سے دیا تھا۔
آپ نے اس شخص کو ملک سے غداری کے الزام میںجیل بھیج دیا تھا۔ وہ بدبخت ،اب تک جیل میں سڑ رہا ہے۔ اصل میں وہ بدبخت اظہار کی آزادی سے دھوکہ کھا گیا تھا۔ وہ بدبخت بھول گیا تھا کہ جس معاشرے میں قائد اعظم محمدعلی جناح کی تقریر سنسر اور ایڈیٹ ہو سکتی ہے ،اس ملک میں اظہار کی آزادی Freedom of Expressionکی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں، اس بدبخت کی اپنی غلطی تھی۔ وہ بھول بیٹھا تھا کہ اعلیٰ منصبوں پر براجمان حضرات کے طنزیہ فقروں کا جواب طنزیہ فقروں سے نہیں دیا جاتا، یہ جرم ہے۔ صاحب اقتدار کا طنزیہ فقرہ سن کر آپکو گردن جھکا کرخاموش کھڑے رہنا ہے۔ لوگوں کی ٹھٹھے مارتی ہوئی ہنسی برداشت کرنی ہے۔ سوائے صبرِجمیل کے آپکےپاس اور کوئی چارا نہیں ہوتا۔ ستاروں کی گردش کی وجہ سے اگر بادل نخواستہ آپکو اعلیٰ منصب پر براجمان ہستی کے سامنے جانے بلکہ پیش ہونے کی نوبت گلے پڑ جائے، تو پھر آپ اپنے ساتھ تسبیح لے جانا کبھی نہیں بھولئے گا۔ پیشی کے دوران آپ تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے پھراتے رہئے گا اور دل ہی دل میں کہتے رہے گا ،اِنَّ ا للہ مع الصابرین۔ طنزیہ فقروں کی بوچھاڑ میں آپ کسی قسم کی انسلٹ ،کسی قسم کی تضحیک محسوس نہیں کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ حکایت، یہ بیانیہ نوے سالہ سنیاسی باوا کا ہے۔سنیاسی باوا نے برصغیر بٹوارے سے پہلے اور بٹوارے کے بعد نوے برس تک کا زمانہ دیکھا ہے۔ سنیاسی بابا پریشان نہیں ہوتا۔ سنیاسی باوا حیران ہوتا ہے۔ نوے سالہ سنیاسی باوا نے ایک دور ایسا بھی دیکھا ہے جب چھوٹے منصب سے بڑے منصب تک مامور افسران اپنا اپنا کام، انہماک سے کرتے تھے۔ کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتے تھے۔ میڈیا میں پذیرائی کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ زیادہ تر سنتے تھے۔ بولتے کم تھے۔ جو سنتےتھے وہ لکھتے تھے۔ پھر دور آیا فلموں کا، بڑے بڑے اور اہم منصوبوں پر مامور لوگوں کی افسانوی کہانیوں پر فلمیں بننے لگیں۔ فلمی کرداروں سے متاثر ہو کر حقیقی دنیا میں اعلیٰ منصبوں پر مامور اہم شخصیات بھی بولنے لگیں۔ فلمی اہم شخصیات کے مکالمے کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سلیم جاوید، جیسے معتبر قلمکار لکھتے تھے حقیقی دنیاکے اعلیٰ منصب دار اپنے مکالمے خود بنانے اور بولنے لگے۔ رہی سہی کسر ٹیلی وژن نے پوری کردی۔ حقیقی دنیا کے اعلیٰ منصبوں پر مامور حضرات جب مکالمہ بازی پر اترآتے تب پتہ نہیں چلتا کہ ہم حقیقی منصب دار کو سن رہے ہوتے ہیں یا کہ فلمی اور ٹیلی وژن ڈراموں کے کسی کردار کو سن رہے ہوتے ہیں۔ عجب تیری دنیا، عجب تیری کایا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply