ماں۔فرحانہ صادق/افسانہ

 آج سدرہ نے پھر ویسا ہی خواب دیکھا ۔ وہ ایک سرسبز چراہ گاہ کے بیچ و بیچ دونوں بانہیں پھیلائے کھڑی ہے ۔ دور تک سنہری دھوپ کھلی ہوئی ہے ۔ شہابی رنگت اور سنہری بالوں والا تین چار سال کا ایک معصوم بچہ سارے جہاں کی خوبصورتی اپنے اندر سمیٹے ، تیزی سے بھاگتا ہوا اس کی طرف آتا ہے مگر جیسے ہی وہ اسے جھک کر تھامنے لگتی ہے ، اسے چکمہ دے کر کھکھلاتا ہوا دوسری طرف دوڑ جاتا ہے اور خون کی ایک لمبی سی لکیر اس کے پیچھے بنتی چلی جاتی ہے ۔
کبھی وہ دیکھتی وہ بچہ اسی چراہ گاہ سے پرے دور ایک سنسان راہ گزر پر کھڑا اسے ہاتھ ہلا رہا ہے ۔ کبھی وہ دیکھتی وہ ایک کھنڈر نما مکان کے سامنے کھڑی ہے ، اندر سے اسی بچے کے ہنستے ہوئے بھاگنے دوڑنے کی  آوازیں آرہی ہیں ۔ وہ ان آوازوں کا تعاقب کرتے ہوئے اندر داخل ہوتی ہے بچے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے مگر خود ہی بھٹک جاتی ہے ، تو کبھی اسے لگتا سنہری رنگت والا وہ بچہ اس کی ٹانگوں کے بیچ سے نکل کر کہیں گہرائی میں گر رہا ہے اور اسے شدید کمزوری کا احساس ہورہا ہے ، وہ نیند میں ہی اپنے دونوں پاؤں ایک دوسرے سے جکڑ لیتی ۔
خواب دیکھنے کا یہ سلسلہ سدرہ کے ماں بننے کی نوید کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا ۔ ابتدا میں نئے مہمان کی آمد کی خوشی میں اس نے بہت جوش و خروش دکھایا ۔ گھر میں کوئی بڑا تو تھا نہیں سو اپنی ماں کی ہدایات کو یاد رکھتے ہوئے اس نے خود چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے میں احتیاط شروع کردیں ۔ وہ اپنے شوہر مسعود سے آنے والے بچے کے متعلق ڈھیروں باتیں کرتی ۔ اولاد نرینہ کے فخر سے واقف تھی سو اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کے ہاں پہلی اولاد بیٹا ہو ۔ اس کا شوہر اس سلسلے میں رب کی رضا پہ راضی تھا وہ یہی کہتا لڑکا ہو یا لڑکی ، نیک نصیب والا سعادت مند ہو۔مگر سدرہ لڑکے کے سوا کچھ اور سوچتی ہی نہ تھی اس کو یقین تھا اس کے ہاں لڑکا ہی ہوگا اس لیے اس نے سارے نام بھی لڑکوں والے سوچ رکھے تھے۔
مسعود گٹھے ہوئے مضبوط جسم   والا ، گہری رنگت اور کمتر صورت مرد تھا ، اس کی بہ نسبت سدرہ دبلی پتلی دھان پان سی تھی ۔ اس کی بھی رنگت سانولی تھی مگر چہرے پہ کشش بلا کی تھی خاص طور پر  اس کی بڑی بڑی غزالی آنکھیں جو سامنے والوں کی توجہ فوراً  اپنی طرف  متوجہ کر لیتی تھیں۔ سدرہ  کا اس بات پر بھی اعتقاد تھا کہ حاملہ نو ماہ جسے بھی نظر بھر کے دیکھ لے اس کے ہونے والے بچے کے خدوخال اسی جیسے ترتیب پاتے ہیں ۔ سو اس نے مسعود سے فرمائش کرکے پورے گھر کی دیواروں کو خوبصورت بچوں کے پوسٹرز سے بھروا دیا ۔
مسعود کو اس وقت بہت ہنسی آئی جب سدرہ نے صحن اور باورچی خانے کی دیوار پر بھی اخبار سے کاٹ کر چھوٹے بچوں کی تصاویر چپکا دیں ۔ وہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے رک رک کر انہی تصاویر کو دیکھتی رہتی ۔ خاص طور پر جب اسے پیٹ میں اپنے بچے کی حرکت محسوس ہوتی تو سب کام چھوڑ کر ان تصویروں کے آگے آکھڑی ہوتی ۔ وہ مسعود کو زیادہ دیر تک دیکھنے سے گریز کرتی اور جب وہ اس سے بات کرتا تو سر جھکا کر زمین کو دیکھنے لگتی ۔ مسعود اس بات کو محسوس کرکے جی برا نہ کرتا بلکہ اپنی بیوی کی اس حرکت کو بچکانہ جان کر محظوظ ہوتا اور اسے چھیڑتا کہ دیکھ لینا اگر بیٹا ہوگا تو میرے جیسا ہوگا اور اگر بیٹی ہوگی تو تیرے جیسی ہوگی ، وہ جھینپ جاتی ۔
سب کچھ خوشگوار چل رہا تھا سوائے خوابوں کے اس سلسلے کے جو نہ جانے کس وہم کے تحت سدرہ کے دماغ میں بس گئے تھے ۔ وہ جب ان خوابوں کے زیر اثر خوف زدہ ہوکر رونے لگتی تو مسعود اسے پاگل ہو کہہ کر گلے لگا لیتااسے تسلیاں دیتا اور ہنسی مذاق کی باتوں سے اس کا دل بہلاتا مگر اندر ہی اندر وہ بھی اس خوف میں مبتلا ہوگیا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں میرا بچہ مردہ پیدا ہونے والا ہے اور یہ خواب اسی بات کی طرف اشارہ ہیں ۔۔۔
اپنے تئیں اس نے بچے کی حفاظت کے سبھی اقدام کرلیے تھے ، شہر کے بہترین ہاسپٹل میں سدرہ کا  کیس درج تھا اور مہنگی ڈاکٹرنی کے زیر نگرانی اس کا مہینہ وار چیک اپ ہوتا ، حمل کی حفاظت کے لیے سدرہ کے بازو اور پیٹ پر تعویز بندھے ہوئے تھے، اس کے علاوہ مسعود خود بھی   ہر رات وظیفہ پڑھ کر اپنی بیوی پر پھونکتا ۔۔۔ مگر جیسے جیسے وضع حمل کے دن قریب آتے جا رہے تھے سدرہ کے خوابوں کے تسلسل میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ مسعود نے اپنے رشتہ داروں، اور دوستوں سے اس کا   ذکر کیا ، سبھی نے یہی کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، جب عورت پہلی بار ماں بنتی ہے تو ایسے ہی واہموں میں گھر جاتی ہے، مگر اس کی فکر پھر بھی کم نہ ہوتی ۔
اپنی بیوی کی تنہائی کا احساس کرکے وہ آئے دن چھٹی کرلیتا جس سے دفتر میں اس کی کارکردگی میں فرق آرہا تھا۔ وہ دن رات دعا کرتا کہ ساتھ خیریت کے بچہ پیدا ہوجائے اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آگیا ۔ جب مسعود نے ایک صحت مند تندرست بڑی بڑی آنکھوں والے جیتے جاگتے بچے کو چوما تو اس کے دل سے سارے خوف رفع ہوگئے ۔ تھوڑی دیر میں اسے سدرہ سے ملنے کی اجازت مل گئی ۔ سدرہ کی رنگت زرد ہوئی تھی اور وہ تھکن کی شدت سے نڈھال چت لیٹی ہوئی چھت کو گھور رہی تھی ۔ مسعود کو اس پر ڈھیروں پیار آگیا ۔ اس نے سدرہ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا “مبارک ہو اماں جان “۔
سدرہ نے اس کی طرف دیکھا مگر کوئی خاص رد عمل نہیں دیا ۔ مسعود نے اسے سہارے سے بٹھایا اور گال تھپک کے بولا ۔ ” اب کیوں پریشان ہو ! دیکھو اللہ نے جیتا جاگتا صحت مند تندرست بیٹا دیا ہے ۔” سدرہ اس کی بات سن کر اس کے بازو سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولی ، “مسعود مجھے گورا بچہ چاہیے تھا” مسعود لحظہ بھر حیران ہوا پھر اس کا قہقہہ نکل گیا ۔ اس نے سدرہ کے سرہانے رکھے جھولے سے نومولود کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔ “چلو ٹھیک ہے میں اسے کسی کو دے دیتا ہوں ہم اگلے سال پھر کوشش کرلیں گے ” ۔
سدرہ کو اس کی بات سے جھٹکا لگا اس نے یکدم چونک کر مسعود کو دیکھا اور تیزی  سے اس کے ہاتھوں سے گلابی پھولوں والی گٹھڑی چھین لی اور دیوانہ وار اپنے بچے کو چومنے لگی ۔ وہ بیک وقت روتی بھی جارہی تھی اور ہنستی بھی۔۔ ۔
مسعود مسکرا رہا تھا کہ دھوپ چھاؤں کی کئی کیفیتوں سے گزرنے کے بعد اس کی بیوی کا عورت سے ماں بننے تک کا سفر مکمل ہوچکا تھا !

 

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply