گزشتہ دنوں میں نے لکھا کہ سیاسی موضوعات کی بجائے سماجی بہتری کے لیے لکھا جائے ، بہت سے احباب نے اس خیال کو پسند فرمایا لیکن واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے بہت سے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی خرابیوں کی نشاندہی اور اصلاح کے لیے لکھنا بھی از حد اہم اور لازمی ہے، ہوا کے سنگ چلنے والوں کی بہتات کے مقابل وہ لوگ قابلِ تحسین ہیں جو طوفان کے آگے بند باندھنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں میں برائے نام بھی شامل ہونا اعزاز ہے ۔ رفقائے کار بھی اصرار کر رہے ہیں کہ پینڈورا لیکس پر لکھیں اور ایک نجی چینل کے مالک کو کس طرح راضی کیا گیا ، اس پر بھی آواز اٹھائیں ۔ چنانچہ قلم اٹھا کر اسی میدان میں آنا پڑا ۔
گزشتہ دنوں موجودہ حکومت کے بعض وزراء اور دیگر سکہ بند حامیوں کا یہ دعویٰ نما مطالبہ سامنے آیا کہ چونکہ پانامہ لیکس اور پنڈورا لیکس ، دونو ں میں خان صاحب کا نام شامل نہیں ۔ اس لیے انہیں صادق اور امین سمجھا جائے ۔ اگر ہم ان کی اس خواہش کا احترام کریں تو انھیں بھی یہ یاد رکھنا لازم ہے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب کا نام بھی پانامہ لیکس اور پینڈورا لیکس ، دونو ں میں شامل نہیں ہے ۔ لیکن جب یہ حقیقت دہرائی جائے تو کاسہ لیسوں کی آئیں بائیں شائیں ، چونکہ ، چنانچہ ، اگرچہ ، البتہ وغیرہ سننے کے لائق ہوتی ہیں ۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن ، محمود خان اچکزئی ، شہباز شریف اور دیگر بہت سے سیاسی قائدین کے نام بھی ان دونوں لیکس میں شامل نہیں تھے ۔
خاں صاحب کے حامی کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس میں میاں صاحب کے دو بیٹوں کے نام آئے تو جواباً کہا جاتا ہے کہ پینڈورا لیکس میں دو آف شور کمپنیوں کے ملکیتی ایڈریس میں خاں صاحب کے زمان پارک لاہور والے مکان کا پتہ درج ہے ۔
جب پانامہ لیکس سامنے آئیں ، تب جن لوگوں نے پہلے سے ہی یہ طے کر رکھا تھا کہ میاں صاحب کی قیادت میں قائم منتخب حکومت کو چلنے نہیں دینا ، بلکہ انھیں اور ان کی صاحب زادی کو بھی سیاست سے نکالنا ہے ، انھیں اس حقیقت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ سنا البتہ یہ ہے کہ بعض لوگ “اپنے کام” سے ہٹ کر بھی بہت کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔ چنانچہ مصروف لوگ شدید مصروف نظر آئے اور شیخ رشید ، عمران خان اور سراج الحق نے پانامہ لیکس میں شامل لوگوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ پہلے تو ان درخواستوں کو آئین کی رو سے ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا گیا ۔ لیکن چند دنوں بعد دوبارہ درخواست دی گئی اور قابلِ سماعت بھی ٹھہری ۔ پانامہ کے نام سے چلنے والے مقدمے میں ایک اقامہ سامنے لایا گیا ۔ لیکن پھر میاں صاحب کو سزا سنائی گئی کہ انھوں نے اپنے صاحب زادے کی کمپنی میں ملازمت کے دوران جو تنخواہ سرے سے وصول ہی نہیں کی تھی ، اسے اپنا قابلِ وصول اثاثہ کیوں نہ لکھا ۔۔ تاحیات ، نااہل، اس سزا کے لیے برطانیہ کی ایک پرانی تاریخی کتاب بلیک لاء ڈکشنری کا حوالہ دیا گیا ۔ پانامہ لیکس میں 446 پاکستانیوں کے نام تھے ، لیکن ان میں سے کسی کو بھی آج تک طلب کیا گیا نہ ہی ان کے خلاف کوئی تحقیقات شروع ہوئیں ۔ شیخ رشید ، عمران خان اور سراج الحق نے بھی آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ انھوں نے جن 446 لوگوں کے خلاف مقدمے کی درخواست دی تھی ، ان کا کیا بنا ؟ کہاں گئیں تحقیقات ، کیوں نہیں بنی کوئی جے آئی ٹی آج تک ، کہاں ہیں روزانہ کی بنیاد پہ سماعتیں ، ہر شام کے ٹاک شوز ؟ ان تینو ں درخواست دہندگان کا اطمینان اور خاموشی بہت سے شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے ۔
2014 کے کسی سکرپٹ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے اور گمان ادھر ہی جاتا ہے کہ جیسے عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید بھی اس سکرپٹ کے کرداروں میں شامل ہیں ۔ پھر ان تینوں حضرات کی طرح ساری قوم بھی پانامہ لیکس کو اسی طرح بھول گئی ہے جس طرح حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ ، جیسے سانحہِ اوجڑی کیمپ کی رپورٹ اور سانحہِ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی رپورٹ ۔ خاں صاحب کرپشن کے نام پہ جتنا شور مچاتے ہیں وہ شریف فیملی کے ذکر سے شروع ہوتا اور شریف فیملی کے ذکر پر ختم ہوتا ہے ۔ یوں بھی خاں صاحب پانامہ لیکس کے نام زد افراد کے خلاف کارروائی کیوں چاہیں گے ، جب کہ ان کی ایک بہت بڑی تعداد کو تو خود خاں صاحب اپنی پارٹی میں شامل کر چکے ہوں ، الیکشن میں انھیں پی ٹی آئی کے ٹکٹس جاری کر چکے ہوں ، خود ان ہی کے مشوروں پر چلتے ہوں ، وہ ان کے دائیں بائیں موجود ہوں ، ان کے قریبی ترین معاونین ہوں ؟ مثلاً سگریٹ سازی کے کاروبار سے وابستہ صوابی کا ایک خاندان؟ ۔ جس کے دو افراد کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں، ایک کو خان صاحب نے اپنی پارٹی کا صوبائی وزیر بھی بنا رکھا ہے ۔ اس کے والد خان کی پارٹی کے سینیٹر ہیں اور چچا ایم این اے ۔ پانامہ لیکس میں جس خاندان کی سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں اور خفیہ اثاثوں کا ذکر تھا ، خاں صاحب نے خیبر پختون خوا کے اس خاندان کو بھی اپنی پارٹی میں شامل کر رکھا ہے ۔ یعنی تماشا دیکھیے کہ خاں صاحب نے جن لوگوں کے خلاف کرپشن کے مقدمے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے ، انھی کو اپنی پارٹی اور حکومت میں اعلیٰ عہدے بھی دے رکھے ہیں ۔ ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف جنگ کے دعوے بھی جاری ہیں ۔ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو بھی کہتے ہیں اور انھی کو اپنی پارٹی کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے سب سے بڑے عہدے پر فائز بھی کر رکھا ہے ، بلکہ 2018 کے انتخابات میں خاں صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کو اپنی پارٹی کا حمایت یافتہ امیدوار بھی قرار دیا ۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے ذمے واجب الادا کروڑوں روپے کی وصولی کے بغیر ہی اس کا لائسنس بھی بحال کر دیا اور اس کے مالک کو سینیٹر صوبائی وزیر بھی بنا رکھا ہے ۔ یہ ان تضادات کی صرف چند مثالیں ہیں جو خاں صاحب کی کرپشن کرپشن والی گردان کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے پیش کی گئیں ۔ ورنہ بی آر ٹی پشاور ، مالم جبّہ ، ہیلی کاپٹر کیس ، بلین ٹری سونامی کرپشن ، فارن فنڈنگ کرپشن جیسے اور بھی کئی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں ۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ پانامہ لیکس اور پینڈورا لیکس ، دونو میں جن لوگوں کے نام آئے ، ان کی سب سے بڑی تعداد خاں صاحب کی تحریک انصاف میں موجود ہے ۔ بلکہ اب تو خان صاحب کے وفاقی وزراء کے بھی نام شامل ہیں ۔ دوسرے نمبر پر بلاول زرداری کی پیپلز پارٹی ہے جس کے راہ نماؤں کے نام دونو لیکس میں ہیں ۔ لیکن میڈیا اور پروپیگنڈے کا کمال دیکھیے کہ تحریک انصاف خود کو فرشتوں کی جماعت ظاہر کرتی ہے ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی توپوں کا رخ بھی مسلم لیگ نواز کی طرف ہے ۔ اگرچہ اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ زرداری خاندان خلائی قوتوں کی چاپلوسی کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے ۔
اب خاں صاحب کی نئی چال ملاحظہ ہو کہ پینڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے ، جس میں سب سے زیادہ نام پی ٹی آئی کے راہ نماؤں اور وفاقی وزراء کے ہیں، خود اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے ۔ یعنی پی ٹی آئی خود ہی ملزم ، خود ہی کمیٹی ، خود ہی تحقیقات ، خود ہی چور اور خود ہی جج ؟ خاں صاحب کے اندھا دھند سپورٹرز کو یاد ہونا چاہیے کہ یہ وہی خاں صاحب ہیں جو سابقہ حکومت کے خلاف الزامات کی بارش کرتے ہوئے پوچھا کرتے تھے کہ میاں صاحب کی اپنی ہی حکومت میں ان کے وزراء کے خلاف منصفانہ تحقیقات کیسے ممکن ہیں ؟ اور ڈھول کی تھاپ پر ان کے سپورٹرز گو گو کی دھمال شروع کر دیتے تھے ۔
قارئین مطمئن رہیں ، پانامہ لیکس کی طرح پینڈورا لیکس کے ملزمان کے ساتھ بھی کچھ نہیں ہو گا ۔ اسی پر سراج الحق اپنی سابقہ درخواست سمیت خوش ہیں ، شیخ رشید بھی ، عمران خان بھی ، تحریک انصاف بھی اور جماعت اسلامی بھی ۔ اب یہ عدالت میں نہیں جائیں گے ۔ کرپشن کے خلاف جہاد کے دعووں کی حقیقت راکھ ، دھول اور ریت کے سوا کچھ نہیں ۔ 2016 میں جب یہ لوگ عدالت گئے تھے تو کس کے اشارے پر ، اور کس مقصد کے لیے ۔ ۔ سوچتے رہیے !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں