بوجھ اٹھانا ہو گا ۔ ۔اظہر سید

اس ملک کے ساتھ پاناما ڈرامہ اور اس سے قبل دھرنے  کے ذریعے جو کچھ کیا گیا ہے اس کا بوجھ بھی انہیں ہی اٹھانا ہو گا جو پردے کے پیچھے ہدایت کار تھے ۔قاتل کے پاس اپنے قتل کا جواز ہوتا ہے ،جو قوتیں ملکی معیشت کا جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل کر رہی ہیں اس کی ذمہ داری بھی انہی  کے کاندھوں پر ہو گی جو حب الوطنی کے اپنے مفہوم کے تحت کسی کو غدار اور کسی کو مودی کا یار قرار دیتے ہیں ،جو پردے کے پیچھے اور کبھی کھلے عام عوام کی منتخب حکومتیں گراتے ہیں اور کٹھ پتلیاں اقتدار کی مسند پر بٹھا  کر حب الوطنی کے اپنے مفہوم کے مطابق اقدامات کرتے ہیں ،انہیں اب بوجھ بھی اٹھانے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔

پاکستانیوں کے ساتھ کھلا دھوکہ اور فراڈ ہو رہا ہے ۔ ملکی معیشت کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اس معاشی افراتفری کے پیچھے سی پیک کو ہدف بنانا تھا ،اس کے متعلق حکمت سازوں کو ہی پتہ ہو گا ۔ہمیں تو اتنی خبر ہے درآمدی پٹرول مہنگا اور گیس سستی ہے ۔جب سی این جی کی قیمت پٹرول سے بڑھا دی جائے گی تو کم قیمت گیس کی درآمد کم ہو جائے گی اور مہنگے پٹرول کی درآمد بڑھ جائے گی ۔لوگ مہنگی سی این جی کی بجائے پٹرول کا استعمال شروع کریں گے تو پھر تجارتی خسارہ بڑھے گا ۔سی این جی کی قیمت جنہوں نے بڑھانے کا فیصلہ کیا انکی نیت پر شک کرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت سادہ سی بات ہے ۔
سالانہ ترقیاتی پروگراموں میں  کمی کر دی گئی ہے کفائت شعاری کے نام پر مالی سال کے اختتام تک مزید کتنی کٹوتی ہوتی ہے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں پتہ چل جائے گا ۔ترقیاتی پروگرام میں کمی کا فیصلہ بھی معیشت کے قتل کے برابر ہے۔ اربوں روپیہ جب ملک بھر میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں خرچ ہوتا ہے یہ پیسے اصل میں مارکیٹ میں آتے ہیں ۔ ان سے سیمنٹ سریا تعمیرات کے 40 سے زیادہ صنعتوں کا سامان خریدا جاتا ہے ۔کنٹریکٹر اور ذیلی کنٹریکٹر منصوبوں میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو پیسے ملتے ہیں ۔ترقیاتی منصوبوں کے پیسے مختلف طریقوں سے مارکیٹ میں آتے ہیں اور معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔

شرح سود میں اضافہ کا فیصلہ بھی معیشت کیلئے خطرناک ہے۔جب سے پاناما ڈرامہ اور دھرنہ پروگرام شروع ہوا، نجی شعبہ کی طرف سے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے حاصل کرنے کا عمل بھی سست روی کا شکار ہو گیا تھا ۔ اب حکومت نے شرح سود میں اضافہ کر کے معاشی تباہی کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے ۔شرح سود میں اضافہ کا فیصلہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے ۔ہمارے پاس دلیل یہ ہے مقامی قرضوں کی واپسی اور نئے قرضوں کے حصول کیلئے حکومت نجی شعبہ کے قرضوں کو کم کرنا چاہتی ہے اور خود قرضوں کا بڑا حصہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔نجی شعبہ کا قرضہ مارکیٹ میں آتا ہے اور مختلف ہاتھوں میں تقسیم ہو کر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بنتا ہے شرح سود میں اضافہ سے حکومت نے نجی شعبہ کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔

پاکستان میں صنعتی عمل گزشتہ 20 سال سے تعطل کا شکار ہے ، سرمائے کا بڑا حصہ غیر ترقیاتی کاموں پراپرٹی ،حصص بازار ،گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہوتا ہے ۔قانونی اور غیر قانونی سرمائے کا ایک حصہ بیرون ملک منتقل ہوتا ہے لیکن بڑا حصہ بہرحال مقامی مارکیٹ میں ہی خرچ ہوتا ہے۔بلیک منی دنیا کے ہر ملک میں ہے اور بھارت سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں یہ متوازی معیشت ہے ۔امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی ٹیکس چوری ہوتی ہے اور بلیک منی مارکیٹ میں استعمال ہوتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بلیک منی دوسرے ملکوں کے بینکوں اور مالیاتی اداروں میں کم اور اپنے ملک میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اور معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔نئی حکومت نے معیشت پر ایک کاری وار نان فائلر پر مختلف طریقوں سے شکنجہ کس کر کیا ہے ۔ بظاہر نان فائلر پر اضافی ٹیکس خوشگوار نظر آتے ہیں لیکن اس سے متوازی معیشت پر بھی کاری ضرب لگی ہے ۔ نان فائلر سے ملنے والے اضافی پیسے تو قرضوں کے سود کی مد میں چلے جائیں گے لیکن لوگوں کی قوت خرید متاثر ہو گی۔اب جس کے پاس پیسے ہیں اور وہ ٹیکس دہندہ بھی نہیں وہ کیا کرے گا ؟ سادہ جواب ہے وہ پیسے سٹور کر لے گا ۔بینک لاکر میں رکھ دے گا ۔ منی چینجر سے مل کر ڈالر خرید لے گا یا گھر میں رکھ لے گا۔

جنرل مشرف نے وردی والے فوجیوں سے مشہور زمانہ دوکانوں اور کاروبار کا سروے شروع کرایا تھا ،صرف ایک ہفتے بعد یہ بھاری پتھر چوم کر واپس رکھ دیا تھا۔دو سال قبل نان فائلر پر خریداری کی پابندی لگا کر پوری رئیل اسٹیٹ مارکیٹ تباہ کر دی تھی اور مکمل تباہی کے بعد ایمنسٹی اسکیم تعمیرات کے شعبہ کیلئے اعلان کر دی ۔ اب غیر رجسٹرڈ پیسے یا بیرون ملک جائیں گے یا پھر محفوظ علاقوں میں ہجرت کر جائیں گے کہ سرمایہ کا کوئی ملک کوئی مذہب اور کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔

روپیہ کی قیمت میں کمی کے تباہ کن فیصلے سے برآمدات تو کیا بڑھنا تھیں الٹا درآمدات مہنگی ہو گئیں “یاد رکھیں روپیہ کی قیمت میں کمی کے اثرات فوجی خریداریوں پر بھی مرتب ہونگے” غیر ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو گیا  اور حصص بازار سے غیر ملکی سرمایہ کار بھاگنے لگے۔ابھی ایک ہفتہ مسلسل مارکیٹ گری ہے ۔ اگلے ہفتے اور گرے گی ۔چھوٹی موٹی کریکشن آئے گی لیکن روپیہ کی قیمت میں مسلسل گراوٹ سے غیر ملکی سرمایہ کار نہیں آئیں گے۔یہ لوگ معیشت کو نشانہ بنا رہے ہیں معلوم نہیں حتمی ہدف کیا ہے لیکن معاشی تباہی نے سوویت یونین کی طاقتور فوج کو برباد کر دیا تھا۔بھارت ایس 400 دفاعی نظام حاصل کر رہا ہے اور ہم 1300 کلو میٹر میزائل کے تجربے سے خودی کو بلند کر رہے ہیں ۔

ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کر کے ، یکطرفہ احتساب سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہو گی ۔دشمن کے عزائم کو میزائلوں کے تجربے سے نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور مضبوط معیشت سے ناکام بنایا جاتا ہے ۔پاکستان میں اب بھی جھوٹ اور فراڈ کا بازار چل رہا ہے ۔مدینہ کی مثالی ریاست کے قیام کا فراڈ اب مزید نہیں چل سکتا ۔ہاں اگر منتخب وزیر اعظم دوبئی میں اپنی بہن کے نام اثاثوں کی تحقیقات کا اعلان کرتے اور اپنی پارٹی کے غیر ملکی فنڈنگ کے معاملہ کو مسلسل پانچ سال سے چھپانے کی عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں کوششیں ترک کر دیتے شائد لوگوں کو یقین آجاتا۔

حصص بازار تباہ ہو رہا ہے ،لوگوں نے جو حصص خریدے تھے ان کے ہاتھوں میں چمٹ گئے ہیں ۔بیچنے کی کوشش کرتے ہیں قیمت اور کم ہو جاتی ہے۔رئیل اسٹیٹ مارکیٹ برباد ہو رہی ہے ۔آٹو انڈسٹری سسک رہی ہے اور یہاں دھڑلے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام تو لے لیا ہے اب ذرا قوم کو اس پروگرام کی قیمت سے بھی آگاہ کریں کیا یہ قیمت سی پیک ہے جس کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا گیا تھا۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں چینی ابھرتی ہوئی معیشت ہیں سی پیک پر ان کے 50 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں ۔چینیوں نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے ۔چینیوں کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا گیا آپ سچ مچ کی عالمی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے ۔اللہ پاکستان کو بدکاروں اور غداروں کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply