یہی ہے زندگی ،کچھ خواب چند اُمیدیں۔۔محمد سعد امجد

زندگی اور موت کا سفر لمبا بھی ہو سکتا ہے اور مختصر بھی  مگر اس انسان کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ جو روز مرتا, روز جیتا ہو۔ زندگی کے اس سفر میں سب کے دکھ اپنے اپنے حالات کے حساب سے مختلف ہیں،  خود کشی کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ کوئی عشق میں ناکام ہوا, وہیں  ڈھیر ہو گیا۔ کسی کی زندگی طلاق نے چھین لی۔ کسی کو شراب پی گئی  تو کسی کو ہجر کھا گیا۔ کسی کا اپنا بچھڑا تو وہی جدائی کا روگ پال لیا تو کسی کو بیماری نے جیتے جی مار دیا۔

فاقہ کش کی اپنی موت ہے اور غریب کی اپنی دہائی۔ زندگی کا فلسفہ ہے کہ خوشی سے زیادہ دکھ دیتی ہے دورانیہ بھی لمبا اور کٹھن۔ خوشی کب, کیسے, کیوں اور ختم۔

زندگی نام ہے چلتے رہنے کا۔ موت نام ہے سکوت کا, رک جانے کا۔ روز مرنے روز جینے والے اس سارے سفر میں کبھی رکتے ہیں اور کبھی چلتے ہیں۔ شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ رکنے سے رینگنا اچھا ہے کہ بہرحال زندگی موت سے کہیں بہتر ہے۔
بہت سے مرنا پسند کرتے ہیں کہ اسی میں سکون اور شانتی ہے
بقول شاعر
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے !

کامیاب بہرحال وہی ہے جو چلتا ہے کہ سکوت فنا ہے۔
زندہ رہنا اور زندہ دکھنا الگ الگ موضوع ہیں۔ معاشرے میں ہزاروں زندہ لاشیں ہیں کہ زندہ ہیں مگر دکھتے نہیں۔ زندہ وہی دکھتا ہے جو جینا چاہتا ہے یعنی جہد مسلسل کا پیرو کار,اس کی الگ سے کئی صورتیں ہیں۔ جینے کی امنگ, جینے کا حوصلہ, مسائل سے لڑنے کا ہنر اور بلا بلا بلا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو مشورہ دیا جائے کہ مرنے کے بجائے زندہ رہنے کو ترجیح دیں کہ چند نام نہاد علما نے آخرت آخرت کے چکر میں دنیا کو کتے کی ہڈی اور مچھر کا پر سے تشبیہ دے کر ساری دنیا سمیٹ لی ہے جس میں اشرافیہ بدمعاشیہ بھی اسی طرح شامل ہے اور بدبخت غریب آخرت کے چکر میں ساری کمائی پیران پیر کو لٹا آتا ہے۔
المیہ ملاحظہ کریں کہ سول سرونٹ, سیاستدان خود کو عوام کا خادم گردانتے ہیں اور مولویان پیران پیر خود کو فقیر
بقول شاعر
کہ گھر پیر کا ہے بجلی کے چراغوں سے روشن

Advertisements
julia rana solicitors

آخرت اسی کی بنے گی جسے جینا آئے گا اور جینا کام ہے حوصلہ مندوں کا۔ ورنہ جہاں مرنے کو اک گھڑی کافی ہے وہیں جینے کو اک حوصلہ,مگر حوصلہ کس کو چاہیے کہ جو طالب ہے۔ نہ ملنے پر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہے سسکتا ہے۔ بس مرتا نہیں کہ مر گیا تو رک گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply