• صفحہ اول
  • /
  • نفسیات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ سوئم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ سوئم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

کہنے کو یہ سابقہ ہم جنس پرستی سے متعلقہ بحث کا تیسرا حصّہ ہے مگر اس بحث میں ہم اپنی معاشرتی بے راہ روی اور سماجی تغیر کے کچھ پہلوؤں  کو بھی بطور الحاقی شذرہ جات اس رواں بحث میں شامل کرینگے  تاکہ نئے پیدا شدہ حادثات و سانحات کے لئے کسی باقاعدہ نئی تحریر کی ضرورت محسوس نہ  ہو،مگر اس سے قبل تخلیقی حق و برمحلیت کے تناظر کو دیکھنا ضروری ہے جو ہم جنس پرستی کی بحث سے قبل سمجھنا کافی ضروری ہے۔

موجد،خالق،مخلوق،وجود، اور تخلیقی کل کی جوہریت:ہم جنس پرستی کے تناظر میں:

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر موجد ،ہر خالق اور تخلیق کار اپنی تخلیق سے قبل اپنی تخلیقی ذہنیت میں موجود تخلیقی کل میں جو نظم جزو  سے تشکیل دے کر اس سے  جو مجموعی کلیت بحیثیت مجموعی حاصل کرنے توقع کرتا ہے یا جو وظائف،افعال اسکو مطلوب و مقصود ہوتے ہیں ان پر توجہ مرکوز کرتا ہے ۔ دوسری صورت میں وہی افکار ،اعمال اور امور اس تخلیق کی ہیت و ماہیت کو واضح کرتی ہیں،ایک تخلیق دوسری تخلیق سے مماثل و مشابہت تو ضرور رکھتی ہیں مگر سماجی،سیاسی،خاندانی،مذہبی اور تجارتی بنیادوں پر انکی قدرو قیمت میں عدم مساوات واضح ہوتی  رہتی ہے اور  اکثر ان معاملات میں مساوات  یا تو قلیل  ہوتی ہےیا  پھر مفقود ہوتی جاتی ہے۔

مثلاً جیسے ہم  یہ بات جانتے ہیں کہ ہونڈا ئی  کاروں کے عاشقان اور خریدار الگ  ہوتےہیں اور  کرولا  کی ٖگاڑیوں کے محبین الگ  ہوتےہیں،یعنی انکی سفری اور مسافرتی اہلیت ،قابلیت اور استعداد کار میں مشابہت کے باوجود جو تغیر اقداری بنیادوں پر پایا جاتا ہے وہ ادارہ جاتی محبت کےسبب مزید متغیر ہوتا جاتا ہے۔حالانکہ کہنے کو مہران،کرولا اور سوک تینوں کا مدعا و مقصد بس اہل سفر کو انکی منزلِ مقصود تک پہنچانا ہوتا ہے،مگر ادارہ کے معیار ،مصنوعات کی ہیت،کمیت،کیفیت اور استعداد کار کے فرق و تغیر کے سبب انکی بازاری قیمت و قدر میں سفری مشابہت کے سبب موجود مماثلت کے باوجود خالی قدری فرق ہی واقع نہیں ہوتا ہے بلکہ اس بحث میں  فزیکل ،انڈور آوٹ ڈور باڈی پارٹس،انجن پارٹس ،نیٹ ورک،سافٹ ویئر سرکٹ اور متعلقہ ادارہ جاتی تخصیص کے سبب جو فرق آتا ہے وہ سب کو الگ الگ مصنوعات کار کے  دائرہ کار میں متعارف کروادیتی ہیں۔

عین ایسا معاملہ فطرت کا بھی ہے،خدا خالق کائنات ہے ،چاہے وہ مخلوقات و تخلیقات بلاواسطہ ہوں یا بلواسطہ ہوں،ان کا تعلق نباتات سے ہویا جمادات سے ہو،شعوری حیوان سے ہو یا غیر شعوری یا محدود شعوری حیوانات سے ہو،اس نے کُن کہنے سے قبل ہی ہر شہ کی فطرت،مزاج،ابتدا ء ،انتہا،جبلت و فطرت مقرر کردی تھی،جسکی پیروی میں باشعور خالق مخلوق بھی اپنی ایجادات کی تخلیق سے قبل انکی حرکی استعداد کار اور فطرت مقرر کردیتے ہیں ، واضح رہے یہاں باشعور خالق کے عموم میں بنی نوع انسان شامل ہے ،جب ہی یہاں اسی کی طرف میرا اشارہ ہے،جس سے انحراف اس تخلیق کو ناقص اور ڈیفیکٹڈ بنادیتا ہے۔

انکی جبلت،مزاج  ہو یا وسیع روحی  نظام ہو یا پھر فطرت  ہو ،سب کا ایک خاص منفرد و یکتا مزاج،کام،استعداد کار،اور دائرہ کار ہوتا ہے،ایک دائرہ دوسرے دائرہ کار ایک نظام دوسرے نظام میں مداخلت نہیں کرسکتا ہے،وظائفی تخصیص کار ہر جگہ کار فرما ہوتی ہے۔چنانچہ پاؤں کا مقصد چلنا اور ہاتھ کا مقصد پکڑنا ہے یہی انکا وظیفہ اور فرض ہے ،کان سننے کے لئے ہیں اور آنکھیں دیکھنے کے لئے ہوتی ہیں،جب  ہی کسی ایک علمیاتی منطقی دائرہ کار میں تغیر ، تبدیلی ، جب غیر فطری تبدیلی یا میوچیشن  کا سبب بنتی ہے تو کل نظام کے لئے  تباہ کن ثابت ہوتی ہے،اور نظام نظم کھونے لگتاہے اسکی جوہری روح مفقود ہوکر نظام کو بدعملی کا شکار کردیتی ہے یوں نظام کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔ جیسےسرطان کے خوابیدہ جراثیم جب کسی حادثہ یا سبب سے فعال ہوتے ہیں تو بڑی سرعت سے ذی حیات  خلیوں کو مردہ کرتے جاتے ہیں انکے فرائض اور دائرہ کار کو تبدیل کر کے جو میوچیشن کرتے ہیں وہ انسان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔یہ سرطانی لہر انسانی جوہری قوت یا جسے سیدھی زبان میں حرارت عزیزی کہتے ہیں کو تیزی سے مفقود کرتے جاتے ہیں، اورخون میں موجود حرارت کو یہ چوس کر جسم کو مردہ کرتے جاتے ہیں، یہ یا تپ دق کے جراثیم یا کرونا کے جراثیم کی طرح انسانی جسمانی قدرتی نظام میں جو تبدیلی سرعت سے پیدا کرتے ہیں وہ انسان اور حیوان کی موت کا سبب بن جاتی  ہے۔

سماجی بندھن و اخلاقیت کی کلیت کا معاملہ اور سماج:

عین یہی معاملہ انسانی سماج کا بھی ہوتا ہے، جہاں فطرت اور اصول عامہ سے بغاوت کُل سماج کے لئے مضرکن اور ضرر رساں ثابت ہوتی ہے،اصول کی نفی صرف جنسی تناظر میں ہم جنسیت کی بدعملی کی ہیت میں ہی نہیں نکلتی ہے بلکہ اس میں دیگر تغیر بھی بد عملی پیدا کرتے رہتے ہیں،جو سماج کی غالب اخلاقی اجتماعیت اور قانونیت کی جوہریت کو ابتری کا شکار کردیتے ہیں جیسے نور مقدم کے سانحہ میں دیکھا گیا یا پھر عائشہ ٹک ٹاکر والے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔

اسی طرح سماج یا ریاست انسانوں کے اجتماع سے تشکیل پاتے ہیں،یہ انسانی انفرادیت کی منظم اجتماعیت کی ایک وسیع شکل ہوتی ہے،انفرادیتوں کے بنیادی نظم سے خاندان،خاندانوں سے قبیلہ ،قبیلہ سے دیہات دیہاتوں سے شہر اور شہروں سے صوبہ یا ریاست اور ریاست و امارات سے مملکت بنتی ہے۔

ارسطو(ایریسٹوٹل نے کہا تھا کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے ،چنانچہ  اس مقولے  کی رو سے یہ سماج باہمی روابط ،تعلقات ،رشتوں پر استوار ہوتے ہیں اب جو  فرد واحد یا انسانوں کا کوئی انحراف پسند چھوٹا گروہ سماج ،کُل نظام سے الگ تھلگ اکیلی اکیلی ،خالی خولی زندگی بسر کرتا ہے وہ یا  تو دیوتا  ہوتا ہے یا پھر حیوان ہوتا ہے، واضح رہے کہ ارسطو یونانی دیووتاؤں  کی تکثیریت اور ان کی آسمانی و ارضی رشتہ سازیوں کو نا پسند کرتا تھا،وہ ایک بالتر  عقلِ  کُل یا عقل اعظم جو اجرام فلکی سے لیکر فطرت تک کا منتظم و محرک ہوکا قائل تھا،اس ارسطو کا  یہ بھی  ماننا تھا کہ جس کے پاس جائیداد اور خاندان نہ  ہو وہ ریاست و سیاست کی جزئیات و کلیات سمجھ نہیں سکتا ہے،بیسویں  صدی کے آغاز تک جدید مغرب میں بھی جائیداد کے بغیر اور ٹیکس ادا نہ  کرنے والوں کو ووٹنگ کا سیاسی حق حاصل نہیں تھا،جبکہ عورتیں ،بچے اور غلام بھی اس حق سے محروم تھے۔

چنانچہ انسانی تعلقات دو متضاد جنسوں کے باہمی عقد و تعلق سے نئی حیات کی پیداوار کا نام ہوتے ہیں،یہ تعلقات سماجی سطح پر تو دو مروں ،دو عورتوں کو فطری ،خاندانی رشتوں  میں پرو سکتے ہیں، مگر عقد نکاح اور اس سے پیدا شدہ تعلقات کے لئے یہ پیداواری مجموعیت اپنی  مقصودیت کے تناظر میں  یہ مطالبہ کرتی  ہے کہ نتیجہ کُن نو حیاتی پیداوار کے لئے  مثبت چارج کے حامل مرد کا عقد منفی چارج کی حامل عورت سے ہوگا  اور ان دونوں کے عقد سے جو نئے وجود پیدا ہونگے وہ انکی فرع  تصور ہونگے جبکہ  حیاتِ نو پیداوار میں سے  فرع اولاد  مانی جائیگی اور اصول والدین تصور  ہونگے۔

ایک ہم جنس پرست  سماج درحقیقت کوئی قابل قبول سماج نہیں ہوتا ہے یہ ایک خفیہ ،مرکز گریز لذت پسند سماج گریز انفرادیت پر مبنی   تاریک ایسا بندھن و تعلق ہوتا ہے جسکی ابتدا سے انتہا  تک جسمانی لذت منزل مقصود ہوتی ہے،پیداواری سماج و تعلقات یہاں طالب و مطلوب نہیں ہوتے ہیں۔جس کا ادراک مذہب مخالف ،جدت پسند،سائینٹفک ذہنوں کو بھی تھا جب  ہی مارکس نے کہا تھا اصل تعلق وہ ہوتا ہے جو مرد اور عورت میں واقع ہوتا ہے،قدیم یونان میں معذور پیدا شدہ بچوں کو لوگ اسی تناظر میں ظالمانہ طور پر معاشرتی ذمہ داریوں میں شامل کرنے کی بجائے بوجھ تصور کرکے شہر سے باہر مرنے کے لئے لاوارث چھوڑ دیا کرتے تھے۔

آزادی اور لبرلازم کا اس صدی اور جدید دنیا کا ایک بڑا  جانا مانا  بلکہ بہت سوں کی نظر میں سب سے بڑا  مفکر جان رالز کہتا ہے کہ:

’’اگر عورت مرد بننے کی کوشش کریگی تو وہ بچے پیدا کرنا چھوڑ دیگی  یا بھول جائیگی۔‘‘

بلکہ اس اہلیت سے ہی محروم ہوجائیگی،غالباً اس بیان سے ایک امر قدرتی و جسمانی تخصیص کار کے ایک  فریضہ کی مفقودیت و محرومیت کی صورت میں  ابھرتا دکھتا ہے،یہاں رالز اپنی تھیوری آف جسٹس کے ایک پہلو کو مزید وسعت دیتا  نظر آتا ہے اور فرائض اور ذمہ داری کی منطقیت کی اہمیت کو اجاگر کرتا دکھتا ہے۔اس بات کو جنس بدلنے سے ہٹ کر مزاج بدلنے تک محدود نہ رکھا جائے اور مردوں کی ہم جنس  پرستی کو اس ضمن میں دیکھا جائے تو بڑے غیر واضح ،غیر مطلوب ،غیر متوقع معقولی مواد حاصل ہوتا ہے۔متغیر مواد جس سے جزو  سے کُل کا جواب لینا مشکل ہوتا جاتا ہے،مسئلہ وہی پرانا درپیش ہوتا ہے کہ متغیر عقائد،مزاج،ضروریات،شعور،علم ،فطرت،توارث ،جبلت اور رجحان کے حامل انسان سے مصدقہ عالمی ،وسیع الحدود  یا یونیورسل نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے ؟جبکہ  یہ تو جانی مانی بات ہے کہ نفسیاتی تناظر میں فرد سے فرد کا مزاج اور رجحان الگ ہوتا ہے کون کب کیا کرنے والا ہے اور کونسا فوری حادثہ اس میں کیا تبدیلی پیدا کرتا ہے سب  کچھ غیر واضح رہتا ہے،ہم باہمی مشابہتوں کی تاریخ پر مبنی مواد سے کچھ مواد لے کر دعوے کرتے پھرتے ہیں اور جن میں  فیصلہ کُن  نتیجہ کم اور اغلبیت کی طرف زیادہ جھکاؤ  زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

ریاست ،شریعت،بمقابلہ  نراجی جھکاو کی حامل سیاست:

شریعت اسلامیہ اور دیگر ادیان کی شریعتیں بہت حد تک تمام تعلقات جو فطری ہوں یا غیر فطری ہوں سب کو منضبط ضابطوں اور اصولوں کے قیام سےمنضبط کرنے کی کوشش کرتی دکھتی ہیں یہاں ہر شہ کی قانونی شرعی اور غیر قانونی و شرعی بنیادیں واضح طور پر احکام و انتباہ کی صورت میں شروع سے  موجود ہوتی ہیں،جو اصول کی رو سے زماں و مکان سے بالاتر ہوتی ہیں،شریعت اصول میں تبدیلی کی نہ اجازت دیتی ہے اور نہ  اجتہاد اصول دین میں ٹانگ اڑا سکتا ہے،کیونکہ اصول کو چھوڑنا کل دینی ڈھانچہ کو مسمار کرنے کے برابر ہوتا ہے،چنانچہ معاملہ چاہے مرد و عورت کے ناجائز بندھنوں کا ہو چاہے اسکی جڑیں اعلیٰ  بالاتر سماج و حکومت میں ہی کسی بھی حالت  کو  انتباہ کی صورت میں شروع سے موجو د رب العالمیں نے بیان کیا ہے۔

طرح اتقا و ذاتی کردار جو خاص موریلیٹی پر استوایفیت میں  موجود ہوں وہ ناجائز ہی  تصور ہوتی ہیں نبی ،غیر نبی سب کو اللہ کی حدود کی پاسداری کرنی ہوتی ہے،اسی طرح اتقا و ذاتی کردار جو خاص موریلیٹی پر استوار ہوتا کی اہمیت کو احسن القصص سورہ یوسف میں تفصیل سے رب العالمین نے بیان کیا ہے وہ یہ امر واضح کرتی ہیں کہ نبی تبلیغ سرف افکار سے ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ انکے کردار مجسم انکے عقائد کی عملی تصویر ہوتے ہیں،یوسفؑ کے اس کردار عظیم کی تعریف اللہ رب العالمین سے نبی اکرمؐ تک نے دل کھول کر تعریف کی ہے،کہ انہوں نے فرعون کے کہنے پر بھی قید خانہ نہیں چھوڑا بلکہ  انہوں نے اوّل زلیخا کے کھلے بہتان کو غلط ثابت کرکے کل سماج کے سامنے خود کو  پاک و صاف ثابت کرکے نکلنے کو اوّل ترجیح دی،یہاں واضح طور پر لفاظی کرنے والے صوفیوں ،فلسفیوں اور نبی کے کردار و افکار کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔

مقدم الذکر کا تعلق مر و عورت کے ناجائز رشتوں کے متعلق ہے تو لوطؑ کی قوم کا ذکر سدومیت یا ہم جنس پرستی کے تناظر میں قران و حدیث یا پھر عہد نامہ قدیم میں دیکھنے کو ملتا ہے،اللہ اور اسکی شریعت نے واضح طور پر ان روابط و تعلقات،غیر فطری خواہش نفسانی کو تخلیقی فطرت و جبلت اور دینی اقدار کے خلاف قرار دیا ہے،یہ ایک حدود کا اصولی موقف ہے دنیا کی کوئی مسلم یا اسلامی حکومت نا اسکو جائز قرار دینے کا حق رکھتی ہے نا اس پر مخالف قانون سازی کرسکتی ہے،اسکے لئے اسے اپنے ریاستی اصول کو بدلنا ہوگا اور خود کو ملحدوں اور کافروں کی حکومت نئے آئینی،قانونی  بندھنوں کے ذریعہ یا نوتخلیق شدہ قدری طور پر ثابت کرنا ہوگا ۔چنانچہ سماج کے اس شریعتی فریم ورک آرڈر میں جو سماجی مذہبی اور آئینی ( سوشو ریلیجیس کانسٹی ٹیوشنل)  چینج ریاست کے اقتدار اعلی ٰ کی موت  کی صورت میں جو نوعی و اصلی فرق پیدا کریگا وہ اس ریاست کو جانشین آرڈر کے قیام تک حالت نراجیت یا غیر قانونی بغاوت کی طرف مال کھلی ریاست میں بدل کر رکھ دیگا، اور ایک ایسے تباہ کن انقلاب کے دروازے کھول دیگا، جس میں قتل و خون اور طوفان بدتمیزی پنڈورا بکس سے نکل کر ناچنے لگیں گے اور میڈوسا کی تباہ کن حرکتیں سب کچھ تہہ و بالا کرکے رکھ دینگی۔

چنانچہ  اس بنیاد پر اضداد کا تصور یا ،نیکی و بدی ،مذہب و الحاد کی  اضدادیت ،جدلیت  صدا سے  ایک دوسرے کے سامنے توپیں جما کر گولہ باری کرنے کے لئے تیار رہتی ہیں، چنانچہ دونوں قسم کی مخالف جدلیات و تفریقات سے پیدا شدہ اقدار  میں  ایک دوسرے کی  کھلی نفی  پائی جاتی ہے ،اور  یہ بہت حد تک ایک دوسرے کا تضاد ہوتی ہیں،یہ ماننے اور نہ ماننے کی طویل چپقلش کا نادر نمونہ ہوتی ہیں،اسی تصور کو عقیدہ کے روپ میں ہم فارسی زرتشیت یا پارسی مذہب کے اضدادی عقیدے سے لیکر ہیگلی جدلیات تک اور وہاں وہاں سے مارکس کی جدلیاتی مادیت میں بھی دیکھتے  رہتےہیں۔

انسانیت پسند اقدار کا معاملہ:

چنانچہ جو منطقی کلیں(لوجیکل ٹوٹیلیٹیز) معاشرتی اخلاقیت (موریلیٹٰی) کی ان اقدار کو قائم کرنا محبوب جانتی ہیں وہ  معاشرتی نمو و بالیدگی کے لئے جائز طور پر محبوب اور جائز تصور ہوتی ہیں،جن کے خلاف جانا سماج ،ریاست اور مذہب دونوں کے لئے نقصان دہ  تصور  ہوتا ہے،اور جو ریاستیں بس شہری خواہشات کی تشفی کے لئے قانون سازی کو اختراع شدہ لیگل موریلیٹی سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں وہ، دراصل منظم کم اور نراجیتی رجحان کی حامل بنانا(کمزور لاقانونی نظم کی حامل) ریاستیں  زیادہ ہوتی ہیں لہذا ،میکاولی جیسا آزاد خیال قومی ریاست(نیشن اسٹیٹ) کے فلسفہ کو پروان چڑھانے والا فرد مذہب کی قانونی قوت اور حدود کے جواز کو نا صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ بتاتا ہے کہ بادشاہت مذہب کا ایک نعم بدل ضرور ممکن ہے مگر وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ  ہوجائے وہ ایک محدود زمانہ کی پیدوار ہوتا ہے،جس کا اختتام ناگزیر ہوتا ہے،وہ کہتا ہے اصولی تناطر میں مذہب میں وہ قوت  ہوتی ہے جو لافانی قانون کے نفاذ کو ممکن بناتی ہے،مگر ساتھ وہ کسی مُلا کریسی ،پاپائیت اور انکی تنظیم کا سخت ناقد بنا پھرتا ہے۔ وہ بڑی نمو پذیر ریاست کا مداح تھا اور چھوٹی موٹی بھاڑے کے کرائے کے غیر  وطنی فوجیوں کے دم پر قائم ریاست کا سخت مخالف تھا کیونکہ یہی لوگ  عظیم اطالیہ کے اتحاد کے اپنے کاروباری مفادات کے سبب سب  سےبڑے دشمن تھے،اسکی نگاہ میں پوپ نے نسائیت پر زیادہ وقت صَرف کردیا تھا، باتیں آسمان کی کرتا تھا مگر سب سے زیاہ آسمانی قانون اور خدا مخالف اہل کلیسا ہی تھے،اور مادیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جو  اپنی ایک  ذاتی ریاست بنا کر اطالیہ کے اتحاد کی راہ میں حائل تھا،اسکے مطابق میڈیچی خاندان اوور سیزر بورجیا میں اتحاد اطالیہ کی صلاحیتیں اگر چہ  موجود تھیں مگر بعد میں جب انہوں نے اسکی باتوں پر کان نہ  دھرا تو وہ  ان دونوں کے مخالف  ہوکر منہ  سے آگ برسا کر قلم سے قرطاس پر منتقل کرنے لگا۔

دو سماجی سانحات اور دو مختلف اقداری تصادم:

مزاج اور تضاد جب جذباتیت کی لڑی میں بندھ جاتے ہیں اور جذبات لہو گرمانے لگتے ہیں تو عقل طویل نیند کی تلاش میں پاتال لوگ اتر کر یم راج کے پاؤں پر سر رکھ دیتی ہے چنانچہ ہم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں کہ نور مقدم اور ظاہر ایک عشرہ سے ساتھ ساتھ تھے ایک دوسرے کو جانتے تھے ،ظاہر کے مزاج کے اتار چڑھاؤ،نفسیاتی حالت اور مزاجی تغیر کو جاننے سمجھنے کے باوجود وہ اسکی بابت اتنی منفی آرا قائم نہیں کرپائی تھی کہ اسکے پاس جانے سے خود کو روک پاتی ،یوں اسکے ظاہر کی بابت  غلط تخمینہ جات   اسکو لے ڈوبے، موت سے قبل اسکی عقل جذبات کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ،جب ظاہر کو وہ شادی سے انکار کرچکی تھی جیسا ظاہر کا بیان ہے تو اسے اس نفسیاتی اعلیٰ  طبقہ کے جاہل فرد کے پاس جانا نہیں چاہیے تھا،کیونکہ نفسیاتی طور پر ظاہر ایک جانا پہچانا رسک تھا،اگر وہ نارمل لور ہوتا تو معاملہ الگ ہوتا،یہ ایک ایسا ایب نارمل ہے جس نے خود کو بچانے کے لئے اپنے ماں باپ تک کو پھنسادیا ہے۔

جاری ہے

http://ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ:حصہ اول:ڈاکٹر محمد علی جنید

Advertisements
julia rana solicitors

http://ہم جنس پرستی کا ہمارے مذہبی مدارس اور سیکولر تعلیمی اداروں میں وجود کا تحقیقی و علمیاتی تجزیہ: / حصہ دوم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply