• صفحہ اول
  • /
  • نفسیات
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ چہارم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ چہارم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/اسی طرح پنجاب  میں   ایک نرس عائشہ کو شہرت کا شوق  چرایا تھا،ایپس  کی دنیا کی ملکہ ٹک ٹاک نے اسے ٹاک  شاک کرنا سکھادیا تھا ، چنانچہ مستقبل کی  شہرت کی توسیع بندی کرنے کی حکمت عملی کے تناظر میں عائشہ نے جب خود  کوزیادہ عوامی بنانے کی کوشش کی یا کسی کے مشورے پر فین پریڈ میٹنگ پر عمل کیا تو وہ خود کو ایسے ہجوم میں کھینچ لائی جس کو دعوتِ  ولیمہ اس نے خود دی تھی ۔ کہنے کو یہ ایک ایسا گروہ  تھا جسے دل بہلانے کو  شہرت کی دنیا میں  فین کہتے ہیں جسکا مقصود  میڈیا پرسنز اور سوشل میڈیا دعوؤں کی صورت میں یہ تھا کہ وہ ایک عورت کی کھلے عام تمسخر سازی کرتا پھرے،یہاں معاملہ یقین کریں ظاہر جعفر والا  بالکل نہیں تھا، کیونکہ یہاں انفرادیت بمقابلہ انفرادیت موجود نہیں تھی بلکہ انفرادیت جمع گروہ (ریمبو اور اسکے ساتھی)   برخلاف ہجوم ِ غیر منظم پیش نظر تھی۔ ،کیونکہ مجمع کی نفسیات سمجھنے والے اور مشاہدہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حواس باختہ ،کم عمر ،علم سے پیدل مجمع کیا کچھ منفی گل کھلا سکتا ہے،آپ لوگ خود  ایک دن  ذرا آن لائن بیٹھ کر بس ،احتجاج،مظاہروں،ہڑتال،اور بائیکاٹ کی خبروں اور ویڈیوز کو بہ نظر غائر دیکھیں آپکو جواب مل جائے گا  ۔

سیاسی جماعتوں کے اجتماعات و احتجاج سے لیکر وکلا،ڈاکٹرز اور طلبا تنظیموں کے اجتماعات،باہمی تصادم  اور ہنگاموں کو پرکھ لیں تو اندازہ ہوجائیگا کہ کسی کرشماتی  ہجوم قابو کرنے کی صلاحیت سے محروم رہنما کے بغیر کھلی دعوت پر مجتمع مجمع  اکثر و بیشتر اتنا  بے قابو ہوجاتا  ہے  کہ ایک درجہ پر پہنچ کر اپنے اکابرین اور رہنماؤں تک کی بات ماننے کے منکر ہوجاتے ہیں،اور پھر بے قابو اجتماع خود کو ہی ڈسنے اور کاٹنے لگتا ہے۔

لہذا عائشہ ٹک ٹاکر یا تو یہ سب سائیڈ ایفکٹس سامنے پیشِ نظر رکھ کر میدان میں اتری تھی یا  وہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ساتھ  یہ ہی کروانا چاہتی تھی ،جیسے ہاتھ ملانے سے لیکر کمر تک ہاتھ رکھوانے ،گلے میں ہاتھ ڈلوانے تک وہ خاموش نیم رضامند  دکھتی تھی،مگر جب دست درازیاں کپڑوں کے  تار تار ہونے تک  پہنچی  ،تو وہ ناراض ہوگئی، معلومات کی رو سے وہ لیڈی گاگا کی طرح کسی کانسرٹ کے ہجوم کے ہاتھوں پر لیٹنا چاہتی تھی،مگر بات کو سمجھنے اور معاشرے کی نفسیات سمجھنے میں اسکی بدھی ذرا زیادہ لیٹ ہوگئی تھی ۔

یہاں ایک بات ضرور سمجھی جائے کہ راز و نیاز،جلوت و خلوت کے اپنے اصول  ومعیار ہوتے ہیں،گناہ کرنے کے بھی کچھ معیار اور اقدار ہوتے ہیں ،اللہ  ہم سب کے عیب ایک دوسرے سے چھپائے، وہی ستار و عیوب ہے ،ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ اللہ اس بندے پر روز ِ حشر سخت ناراض ہوگا جس کے عیب اللہ نے رات کو چھپائے اور وہ صبح کُل دنیا کے سامنے انھیں ظاہر کرتا پھرے ۔

لہذا اہل یورپ و مغرب اپنی انفرادی حیات میں تمام کھلی آزادیوں کے باوجود  ایک قائم شدہ متین آرا ء کی رو سے عدم آشکاریت ( نان فینومینل پرائیویسی ) کو ہی زیادہ پسند کرتے ہیں،مگر  ہم دیکھتے ہیں  کہ کیمرہ  فون کی آمد  نے ہمارے  کُل سماج کی حرکیات(ڈائنامکس ) کو بدل کر رکھ دیا ہے  اب ہر ایک لڑکا لڑکی ہیرو بننے کے سپنے کے ساتھ میدان میں اترتے  ہیں ،جس نے پورن انڈسٹری کو ایک گھریلو رخ دے دیا ہے ،اور نجی حیات کو شاہراہ کی زینت بنادیا ہے کیونکہ پوسٹ ماڈرن دنیا لکھاری سے زیادہ قاری کی ذہنی موضوعیت اور خواہش ِ نفسانی کو تسلیم کرتی ہے،یہ دنیا کسی مطلق لبرلازم سے سائینٹفک ازم کی بھی منکر ہوتی ہے،یہ جذبات ،احساس اور فیوچرولوجی پر ایقان رکھتی دنیا ہوتی ہے چنانچہ ،یہاں شہرت ہی اصل معیار قرار پاتی ہے  اور نجی  حیات اور پرائیویسی ایک دقیانوسیت سمجھی جانے لگتی ہے ۔

مزے کی بات یہ کہ وہ اس واقعہ کے دو دن تک نا صرف خاموش آرام سے بیٹھی رہی بلکہ  کسی کو واقعہ کی خبر ہی نہ  تھی،اسی دوران ایک نئی سوشل میڈیا جوڑی میدان میں اتری جن میں سے ایک اقرار الحسن سر عام کے تجربہ کے پری پلان تجربہ کے ساتھ کراچی سے رہائش ختم کرکے لاہور نئے تعمیر شدہ گھر میں منتقل ہوا تھا ،موصوف نے مجیب الرحمن شامی کے بیٹے یاسر شامی سے ملکر جو سوشل میڈیائی  نیا مواد تخلیق کیا تھا ان میں غالباً یہ دوسرا تیسرا ایسا شاہکار تھا ،جس میں دونوں نے عائشہ کو گھر بلا کر اسکا انٹرویو لیا مگر ظاہر یہ کیا گیا کہ گھر عائشہ کا ہے دو روز قبل تک ننگے سر گھومنے والی نرس خاتون نے اب میک اپ کے بغیر سر پر دوپٹہ رکھ کر انٹرویو دینا شروع کردیا تھا،غیر شرعی فعل کے بعد نیا ظاہری شرعی فعل کسی معاشرتی شاعری کا نیا نمونہ تھا جو پاکستان کے چربہ ساز معاشرے میں تضاداتی اظہا ر  کے ساتھ عام طور پر دیکھنے کو مل جاتا ہے، دوسری طرف اسکا یہ روپ اسکی ٹک ٹاک کی  عامیانہ اور سوقیانہ ویڈیوز سے قطعاً  مختلف تھا ،مارکس اگر یہ سب دیکھتا تو اسے معاشی تناظر کے اسٹنٹ کے طور پر دیکھتا جیسا کچھ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تناظر میں انڈین نوٹس نامی کتاب میں  محسوس کرکے یاداشتیں لکھیں تھیں  چنانچہ ،معلوم ہوا ہے کہ اقرار اور شامی کو کچھ ذرائع سے اس سانحہ کی خبر ہوگئی تھی،کچھ کے مطابق ان تک ایک ایم۔ایم ایس کلپ انکے نظام سے پہنچا تھا شاید وہ بھی اقرار الحسن کی ٹیم سر عام سے وابستہ عائشہ کے ساتھی یا منگیتر ریمبو نے پہنچایا تھا ، یا اسکا لاہور آمد پر اقرار کو ایک سرعام تحفہ دینے کا ایک نیا طریقہ تھا  شاید اقرار نے اس معاملہ میں پھر یاسر شامی کو ساتھ ملا کر اسکا انٹرویو آن لائن کیا جس سے یہ معاملہ وائرل ہوا،یاسر شامی کو بہر حال سوچنا چاہیے کہ اسے اپنے  باپ کے نام،مقام اور افکار کے مطابق اپنی سوشل مہمات کو ترتیب دینا چاہیے ۔

پاکستانی معاشرے کے ماں ،باپ انکی تربیت اور اس سے پیدا شدہ مجمع:

ویسے سوچنے کی بات ہے کہ  یہ مجمع جو ٹک ٹاک کی پیداوار تھا وہ لازمی کوئی مکالمہ کرنے والا،مطالعہ کرنے والا، با شعور ،عزت و   احترام کرنے  والا مجمع نہیں تھا بلکہ عائشہ نما ٹک ٹاکر کے   ذومعنی عامیانہ مواد کو چاہنے والا عامیانہ سوقیانہ مزاج،طرز و اطوار کا شیدائی اور مداح  ایک ایسا مجمع تھا جو جنسی طور پر مغلوب الحال تفریحی   زندگی گزارنے پر یقین کرنے والا مجمع تھا،اخلاق،تدبر،اصول ،عزت و عفت کی تعریف اور اور علمیت سے محروم انسانیت  ساز وحشی مجمع تھا،یہ ایسا شاہد مجمع تھا جسکا مشہود خود انکا میزبان تھا۔

پھر محترمہ کے ساتھ بھی سات آٹھ حضرات مینارِ  پاکستان  آئے تھے، پہلے  اخلاق باختہ ہجوم کے دس بیس لوگوں کو اس تک پہنچنے تک روکنے کی کوشش کرسکتے تھے،مگر ایسا لگتا ہے یہ ٹیم سر عام ،سر عام بس نظارہ  کرنے میں مشغول رہی  اور  ساڑے چار پانچ فٹ کی ایک لڑکی کو اگر۲۰ لوگ بھی گھیر لیں تو اکیسویں سے چار سو ویں  فرد تک کی وہاں گھس کر رسائی  حاصل کرنا ناممکن تھا ،یعنی مبالغہ بیان اور تعداد میں ایسا بیان کیا گیا ہے جو ہمارے جامعات میں طلبہ تنظیموں کے تصادم اور ہم نصابی سرگرمیوں کے مجموعوں سے بھی خارج مبالغہ آمیز بیان ہے،مجمع کو لائن میں کھڑا کر کے گننا اور سب کو شریک جرم بیان کرنا بھی کچھ منطقی امر  محسوس نہیں ہورہا ہے۔یہ تو ارطغرل کے فاتح ساتھیوں سے بھی بڑا مجمع تھا جو فل اٹینڈنس شیٹ کے ساتھ مینار کے سامنے نیا مینار قائم کرنے آیا تھا اور اسکے سارے گواہ ان سے بھی دور سے پاکستان کی سب سے بڑی اداکارہ کا  مشاہدہ کر رہے تھے،سوشل میڈیا پر ایک زیر گردش تصویر میں ویسے یہ دیکھاجاسکتا ہے کہ عائشہ کے ساتھ آنے والا ایک فرد خود اس ہلڑ بازی  میں اسکے ساتھ لطف اندوز ہورہا تھا۔

اگر عائشہ کو معاملہ سے الگ کردیا جائے اور صرف مجمع کی بات کی جائے تو ماننا پڑے گا کہ عائشہ جو  بھی تھی وہ تو واضح ہے،یہ ایک فرد واحد پر تنقید کا معاملہ ٹھہرتا  مگر  یہ وحشی مجمع کم از کم کل پاکستانی نئی نسل کی اخلاقی کج رویوں کی عکاسی کرتا  ایک نادر و شاہکار نمونہ  تھا،یہ ایک الگ بحث ہے کہ  یہ سازش تھی،پلاننگ تھی،وہ ایسی تھی ،ویسی تھی مگر اتنا طے ہے کہ اے پاکستانی قوم !تمہارے سپوت دن بدن  کم از کم انتہائی گھٹیا ،بے مذہب،بد اخلاق،اخلاق باختہ،اوباش  فطرت کے حامل ہوتے جارہے ہیں۔

یہ صاف لگتا ہے کہ جدید سماج ،سرمایہ داریت،اور لذت پسندی  نے ہماری نئی نسل کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے،انکو صرف اپنے گھر کی عورتوں کے سوا دوسرے کےگھروں کی عورتوں کی عزت سے کچھ خاص تعلق و بحث نہیں   ہے۔صاف لگ رہا ہے کہ معاشرہ،اجتماع اور سماج ختم ہوتا جارہا ہے اور لاقانونیت پر مبنی اخلاق باختہ،ہواس باختہ،پاگل کتے ہر طرف دوڑتے پھر رہے ہیں،ایسا سماج یہ بات ثابت کروارہا ہے کہ تم لوگ  طالبانی ڈنڈوں اور لاتوں سے ہی سدھرنے کے اہل  ہو،تم نے خود کی عزت ،عفت اور غیرت  کو بس چند فضول شوق اور اشتہاروں کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے،اگر یہ ثابت ہوجائے کہ واقعہ پری پلان نہیں تھا بلکہ  حقیقی حادثہ تھا تو جو جو اس میں شریک تھا اسکی اسی مقام پر کوڑوں سے  پٹائی  ہونی چاہیے تاکہ دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے سے قبل انکو اپنی جان کی فکر لاحق ہو،اور انکو ایسا نشان عبرت بنانا چاہیے کہ لوگ سو سال تک ایسی حرکات و سکنات کرنے سے قبل سو دفعہ سوچیں ،اور سوچ کر کانپ جائیں،ایک اور بات ملزموں اور مجرموں کے والدین کو اپنی اولادوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں کی عزتوں کو اچھالنے سے قبل ہی خوف سے مر جائیں۔

بہرحال یہ مقدمہ ابھی عدالت میں زیرِ  سماعت ہے مگر یاد رکھیں بلوہ،ہنگامہ آرائی میں مجمع کے اراکین کی عدم وضاحت اور عدم تعین کے سبب  تمام ملوث افراد یا تو شک کے کلیہ کی بنیاد پر  چھوڑ دئیے جائیں گے یا پھر کچھ ماہ کی سزا کاٹ کر باہر آجائیں گے،مجمع کی اس حرکت نے شریف اور بے قصور  مردوں کی تفریحی حیات کو سخت نقصان پہنچایا ہے،جیسے کراچی میں اوّل تو پارکس کی قلت ہے اور اگر ہیں بھی تو فیملی پارکس ہیں جہاں اکیلا شریف ہوا خوری کرنے والا داخل ہوہی نہیں پاتا ہے،میں خود اپنے علاقے کے دو پارکس یا بن قاسم میں اسی سبب کبھی خود جا نہیں پایا ہوں۔اس  بحث میں معلوم پڑتا ہے کہ  سماجی ذمہ داری کی مفقودیت جو ہمارے معاشرتی نظام کی نمایاں پہچان تھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے،کراچی میں تو کم از کم مشہور ہے کہ مردوں کا حامی کوئی ملتا نہیں اور عورت کی حمایت میں سب بھائی بن جاتے ہیں ،مینار پاکستان واقعہ میں یہ امر  وہاں  کیوں مفقود ملا؟ اہل لاہور اور پنجاب کو اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے،حالانکہ وہاں کافی حضرات موجود تھے،مگر مجمع کا سامنا کرنے اور خود پر تشدد کے خوف نے غالباً  انکے لب سی دیئے تھے،یا انھیں ہجوم کے سبب صحیح اندازہ ہی نہیں ہو پایا تھا؟ کہ کیا ہلڑ بازی ،ٹوپی تماشا  جاری ہے،اتنا تو خیر  طے ہے کہ اصل کھیل چالیس پچاس حضرات کھیل رہے تھے بقیہ قریب کھڑے ڈر کے مارے خاموش  تماشائی  بنے  ہوئے  تھے،جیسا کہ ایک بابا جن سے چلا  تک نہیں جارہا تھا انکی ویڈیو دیکھی انکو بھی اس واقعہ میں ملوث کرکے پکڑا گیا تھا۔یہاں ایک اور بحث حسن ذوق کی کمی اور نراجیت میں ہاتھ بٹانا بھی تھا۔

یوٹیوب اور ٹک ٹاک کے معیار کی تفریق:

ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے معیار اور دونوں کے سامعین و ناظرین کے معیار میں زمیں و آسمان کا فرق دیکھنے کو ملتا ہے،یوٹیوب اپنے اصول و ضوابط مواد و معیار میں بالغ عمری اور متانت کی طرف زیادہ مائل و قائل نظر آتا ہے،وہاں زیادہ تر ویڈیوز علمی،معلوماتی،اشتہاری یا تفریح کے لئے دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ وہاں بہت حد تک بالغ مواد پر بھی عمر اور حدود کی پابندیاں کچھ نا کچھ دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ اسکے مقابل ٹک ٹاک کی ویڈیوز ایک تو ۳۰ سیکنڈ یا کچھ منٹ تک دیکھنا  ممکن ہیں  کی محدودیت  نے اسے کم وقت زیادہ نشہ والا نسخہ بنادیا ہے، یہ معلوم پڑتا ہے کہ ٹک ٹاکرز  کا غالب تر مواد یا تو نابالغوں کا تیار کردہ ہوتا ہے جسے بالغ اور نابالغ دونوں کو  مشغول کرنا مقصود  ہوتا ہے،اسکے ساتھ ساتھ اس میں جو مواد بالغ بناتے ہیں وہ بالغ اور نوبالغ دونوں کم عمر گروہوں کے جنسی جذبات و رومانیت کو زیادہ اپیل کرتے ہیں اور انکے ناظرین  بھی زیادہ  تر اسی یوتھ فل  عمر کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا اس ایپ میڈیم  میں ناچ گانے،ذو معنی فحش کلام و مواد کے ذریعہ کم محنت اور وقت صرف کیے  بغیر شہرت اور فین فالونگ قائم کرنا مطلوب و مقصود  ہوتا ہے۔

اس امر پر  ویسے کئی سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے اینکرپرسنز جیسے علی حیدر وغیرہ بھی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ٹک ٹاکرز کا غرور اور عدم سنجیدگی آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے،بعض ماہرین ٹک ٹاک کے مواد کو نیم پختہ  (سافٹ) دوسرے درجہ کا پورن میٹریل بھی قرار دیتے ہیں،جب ہی  وقتاً فوقتاً اس پر پیمرا کی جانب سے  پابندی عائد کی جاتی  رہتی ہے،اور کورٹ آزادی اظہار کی عینک سے  ان پابندیوں کو ختم کرتی رہتی ہے،اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت اور عدلیہ چینیوں کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے سے ویسے بھی اجتناب برتتی ہیں کیونکہ امریکیوں  کی ہماری خارجہ پالیسی میں نسبتاً گھٹتی  سیاسی اہمیت  نے  ہمیں چین کی معاشی و ثقافتی سرگرمیوں کے لئے نرم نوالہ بنا کر رکھ دیا ہے،ماضی میں روزنامہ ڈان کے اتوار کو طب ہونے والے ایک کالم میں محمد عامر رانا  بھی اس پر ایک ہجوئیہ کالم لکھ چکے ہیں ،ایک اور حیران کن امر یہ بھی  ہے کہ ٹک ٹاک کے مواد میں جو ابہام آمیز ذو معنی فحش کلام اور مواد ملتا ہے وہ برصغیر میں جس اونچائیوں پر پہنچتا نظر آتا ہے ویسا مغرب اور مشرق بعید کی آبادیوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے،جیسا کہ ماضی میں ہمارے اسٹیج شوز کو دیکھ کر کوئی بھی ناقد یہ محسوس کرسکتا ہے کہ ،وہاں بس مرد و عورت کے روابط،تعلقات،رومانس کرنے ،محلے میں سیٹنگ اور ڈیٹنگ کرنے کے علاوہ  کچھ پیش کرنے کے لئے باقی بچا ہی نہیں تھا،پاکستانی ٹک ٹاک اسکا ایک جدید ،ہنگامہ خیز ،آگ لگاؤ  جذبات پھڑکاؤ  ورژن ہے جو ویڈیو کیسٹ کی جگہ آن لائن ڈھونڈنے سے مل جاتا ہے وہ بھی مفت میں۔

اسکی ایک  وجہ صاف اہل مغرب اور اہل مشرق بعید کی جغرافیائی حدود بندی اور سماجیات و اقتصادیات کے تناظر میں  یہ بھی ممکن  ہے کہ یہ سب لوگ ٹک ٹاک فارغ اوقات میں کرتے ہیں ورنہ کام کام دن رات  کرو کام اور کمانے کی  مصروفیت  و مشغولیت نے انکو ان پہلوؤں کی طرف راغب نہیں کیا ہے ،اور جو اس پر ہی وقت کا زیاں  کرتے ہیں انکا مدعا ومقصد شہرت کم اور آمد نی زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ جن پہلوؤں کی طرف ہماری فارغ نوجوان نسل توجہ مرکوز کرتی دکھتی ہے،ویسا رجحان وہاں کافی قلیل دکھتا ہے۔

مزید براں جنسی معاملات میں ان لوگوں کی آزاد خیالی انکو جنس کو بیچنے کی طرف اس طرح راغب نہیں کرتی ہے جیسے ہمارے ہاں دکھا اور چھپا کر دکھانے لبھانے کی حکمت عملی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔کیونکہ ویسٹ بہت  حد تک نارمل فلموں میں جنسی تعلقات اور مناظر کو  اپنی روز مرہ کی حیات کی  حقیقی منظر کشی کے اظہار کے طورپر عیاں کرتا ہے یا پھر پورن بزنس کے تناظر میں ایک الگ ضمرہ بندی میں رکھ کر دولت اکھٹی کرتا ہے۔جبکہ ہم نارمل فلموں سے ایب نارمل فلموں اور مواد تک جنس اور جنسی لبھانے والے مناظر ناظرین کو متوجہ کرنے،شہرت کمانے اور دولت بڑھانے کے آسان طریقے کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply