دینِ عقل پہ جذباتیت کا راج۔۔وقاص رشید

خدا۔ ۔ کیوں خدا ہے ؟ کیوں کہ اسکا علم لا محدود ہے ۔عالم الغیب تو اسے انسانی علمیت کے تناظر سے کہا جاتا ہے ورنہ اسکے لیے تو کچھ غیب نہیں۔ جو ہر جا موجود ہو، اسکے لیے بھلا غیب کیا اور کون ، وہ تمام علوم کا خالق ہے ۔جن کی نشانیاں اور کُھرے اس نے کائنات میں بکھیر دیے تا کہ اسکا نائب تحقیق اور جستجو ،عقل کے ذریعے ان تک اور انکے خالق علیم الحکیم تک پہنچے۔

اسی بنیاد پر علم والے خدا نے انسان کو اپنا نائب بنایا ؟ کیونکہ اس نے تدبر سے علم حاصل کیا۔ فرشتوں کا مسجود اس لیے ٹھہرایا گیا کہ اس نے خدا کے دیے ہوئے علم پر غور و فکر کے ذریعے خدا کے سوالوں کے وہ جوابات اخذ کیے جو فرشتے نہ کر سکے ۔

خدا نے اپنے خلیفہ حضرتِ انسان کو کیسے وہ ضابطہءِ حیات وہ دین سکھایا جو اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائض کرے ؟۔تعلیم و تدریس کے ذریعے۔۔۔جی ہاں خدا انسانیت کا پہلا معلم/ استاد ہے۔ اس نے زمین پر اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لئے مبینہ طور پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو بھیجا۔ ان انبیاء سے خدا کا رشتہ علم ہی کے گرد گھومتا ہے۔ خدا انہیں اپنا علم و عرفان براہِ راست دیتا اور وہ اسے باقی ماندہ عالم تک پہنچاتے رہے ۔

خدا قادرِ مطلق ہے وہ کسی بھی ذریعے سے انسان کو اپنے احکامات پہنچا سکتا تھا  لیکن اس نے قلم و کتاب اور تدریس و تعلم کے ذریعے انسانوں کی تربیت کی ۔ اس کے لیے مشکل نہ تھا کہ ایک ہی پیغمبر اسلام ہوتے ،ایک ہی کتاب ہوتی اور یکلخت انہیں سب کچھ تفویض کر دیا جاتا۔۔۔ لیکن معلم خدا نے علم اور انسان دونوں کی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔۔۔ علمیت کو ایک بتدریج ارتقاء کے سفر سے گزارا۔۔۔ انسانیت کی طالبعلمانہ تربیت کی۔ چار کتابوں اور لاکھ ہا انبیاء سے ہوتا ہوا علم”انا بعثت معلما” یعنی میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں تک پہنچا ۔معلمِ انسانیت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ و سلم ہیں، جن پر خدا نے انسانیت کو تعلیم و تدریس کے اس سلسلے کی حجت تمام کرتی کتاب اتارنے کا فیصلہ کیا تو پہلا حکم تھا”قراء یعنی پڑھیے۔”

اپنے آخری نبی ص کو انسانیت کے لیے واحد نمونہ ءِ علم و عمل بنانے کے لیے خدا نے پہلا حکم اقراء یعنی پڑھنے کا دیا  اور اسکے بعد انکے اوپر 23سال کی طویل مدت میں ایک ایسی کتاب اتاری جس کو ہدایت اور دانائی کا سر چشمہ قرار دیا۔  اسے پڑھنے اور سمجھنے کا حکم دیا  اور قیامت تک اسے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا اور یوں علم و علمیت کی حجت تمام کر دی۔

مندرجہ بالا سطور کو اگر صرف ایک لفظ میں سمونا ہو تو وہ لفظ ہے “علم”  ۔علم انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام و مرتبے پر فائز کرتا ہے ۔ علم انسان کو شعور دیتا ہے اور شعور اسکے اندر سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ سوالات ایک جستجو بنتے ہیں۔  یہ جستجو تحقیق میں ڈھل کر انسانی خرد کی انگلی تھام لیتی ہے اور انسان فکر کی پگڈنڈیوں سے ہوتا ہوا اپنی شہہ رگ کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔  جہاں اسے وہ ملتا ہے جو شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔یہی دین کی تعریف ہے میری نظر میں۔

لیکن یہ روایتی اہلیانِ مذہب و دین میں مقبولِ عام نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ عقل کے استعمال سے اتنے خائف کیوں ہیں ؟ ۔دنیا کا کوئی علم شعوری طور پر تسلیم کیے جانے کے بنا انسانی ذہن کا حصہ نہیں بن سکتا۔  انسانی عقل میں سما نہیں سکتا۔  خدا اپنی کتاب میں جگہ جگہ انسان کو سوچنے سمجھنے غورو فکر کرنے اور تدبر کرنے کی تلقین کرتا ہے  لیکن ہمارے ہاں اکثرو بیشتر علما   و زعما ءِ دینِ اسلام کے ہاں مذہب ایک جذبات سے پیوستہ و آراستہ کوئی شئے ہے جس میں معاذاللہ عقل و فہم کا استعمال ممنوع ہے۔
تو پھر ۔۔ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ، لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ، فَہُمْ لَایَعْقِلُوْنَ ، اَکْثَرُہُمْ لَایَعْقِلون ، میں مخاطب کون ہیں۔  خدا نے کس کو تلقین کی کہ “افلا یتدبرون ” ۔  کہ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ او بھئی جب معاملات چلنے ہی غورو فکر کے بغیر ہیں تو خدا کسے اور کیوں کہہ رہا ہے کہ عقل استعمال کرو، غورو فکر کرو، تدبر سے کام لو، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں خدا عقل سے کام لینے اور عقل کو ایک طرف رکھنے کی تلقین کرے۔  جی نہیں! یہ تضاد علیم الحکیم خدا کی شان کے منافی ہے، تو پھر معاملہ ہے کیا ۔ ؟

تھوڑا غور کرنے سے طالبِ علم اس حقیقت تک پہنچا کہ “تفہیمِ دین” وہ معاملہ ہے اور ظاہر ہے اسکا تعلق خالصتا ً انسانی ذہن اور اندازِ فکر سے جڑا ہوا ہے ۔جب دینِ اسلام جو کہ باطن کی تطہیر کا ایک ضابطہ حیات تھا اور ظاہری نمود و نمائش اور ریا کا وطیرہ بنادیا گیا ،سلیقہ معاش کی رہنمائی کرنے والا مذہب جب ذریعہ ءِ معاش میں بدل دیا گیا الغرض یہ کہ جن خصائل کو دور کرنے کے لیے دین اترا تھا غضب یہ کہ انہیں ہی جذباتیت اور تقدیس میں ملفوف کر کے دین اسلام میں گھسیڑ دیا گیا تو علم ،عقل ،فہم و فراست اور غورو فکر کا دین کھوکھلے نعروں ، جوشِ خطابت کے جھانسوں اور کاروباری فرقوں کا ایک ملغوبہ سا بن گیا ۔اسے ایسا بنانے میں مالی معاملات ،ذاتی مفادات، جغرافیائی حالات اور علاقائی نفسیات نے اہم کردار ادا کیا ۔

اب کیوں کہ یہ عمارت کھڑی ہی مفاداتی جذباتیت کی بنیادوں اور کاروباری حساسیت کے ستونوں پر ہے تو ایسے میں اس میں ملائیت کے ریکٹر اسکیل پر عقل کی معمولی سی جنبش بھی شدید نوعیت کے زلزلے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔

سب سے پہلے جس چیز کو شدید نا پسند کیا جاتا ہے وہ علم کے حواسِ خمسہ بننے والے یہ پانچ “ک” ہیں کیا ،کیسے ،کیوں ،کب ،کہاں۔یہ سوالات عقل کی موجودگی اور اسکے استعمال کی علامت ہیں اور عقل جذباتیت کی ضد ہے اس لیے ان سوالات کا پوچھنا ممنوع ہے۔ آپ کے کانوں میں جو بات اپنے فرقے کی عصبیت میں لپیٹ کر انڈیلی جا رہی ہے اسکا من و عن تسلیم کیا جانا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔

آپ اندازہ لگائیے کہ ایک وقت میں علم و عمل کے بہترین ربط کے ذریعے اپنی تاثیر انکار کرنے والے دلوں ،دماغوں اور روحوں پر چھوڑنے والا دین آج کن کے ہتھے چڑھ گیا کہ جن کے پاس نہ اپنے عہد کے ذہنوں کو متاثر کرنے والا علمی بیانیہ ہے نہ ہی دلوں اور روحوں پر اپنے نقش چھوڑنے والا عمل ۔ جب خود سوچنے سمجھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ رویہ اکتا دینے والا اور مایوس کن ہے تو نہ ماننے والوں کو کیا لبھائے گا۔

خدا کا شکر ہے کہ دینِ اسلام کو اس جزباتیت کے حصار سے آزاد کروانے کے خالصتا دینی خدمت کا جزبہ لے کر اہلِ علم میدانِ عمل میں ہیں۔ ان چراغوں کی روشنی سے مجھ جیسے ادنی مسافروں کو راہ سجھائی دی تو۔۔ جن کی بصارتیں ظلمتوں میں بھٹک رہی تھیں۔روایتی مذہبی فکر کی جذباتیت کے مقابلے میں عقل و شعور سے آراستہ دین فہمی عہدِ حاضر میں اسلام کو اپنے اصل کی طرف لوٹا کر اسے زیادہ موثر بنا سکتی ہے۔۔۔۔ یہی اس وقت دینِ خدا کی سب سے بڑی خدمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

طالبِ علم انہی پانچ “ک” یعنی کیا ، کیسے ، کیوں ، کب اور کہاں کو دینِ اسلام کی اصل حالت میں واپسی کو بنیاد سمجھتا ہے۔یہ علمی رویہ پورے سماج کے مجموعی اندازِ فکر پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا اور نا صرف یہ دین ، خدا کی منشاء کے مطابق دینِ علم و بصیرت کہلائے گا بلکہ ہم اسکے پیروکار بھی ایک معلمِ انسانیت نبی ص کے امتی نظر آئیں گے۔وگرنہ موجودہ روش میں فکری تضادات ہمارے ہیں اور بھگتنے بے چارے اسلام کو پڑ رہے ہیں۔ خدایا رحم!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply