آؤ باتیں کریں(افلاطون ، کیٹس اور دانشورانہ ٹکے ماری)۔۔نعمان خان

بات یہ ہے آپ یونیورسٹی تک پڑھ جائیں ، پڑھے لکھوں میں بیٹھنا اٹھنا ہو جائے۔ افسر  یار بیلی ہو جائیں مگر جو مزہ محلے کے بچپن کے جاہل دوست سے گپ لگانے  اور باتیں کرنے  میں ہے، کہیں نہیں۔  میرا بیٹھنا اٹھنا ، حجاموں ، موچیوں ، ترکھانوں مزدوروں میں رہا ہے ۔ افلاطون ، ہیراکلیٹس، سارتر ، ابن خلدون ، ابن عربی ، غزالی ، ابن رشد ،  کیٹس ، ملٹن ، ورڈزورتھ ، غالب ، سعدی ، میر ، ناصر ، سے تو ابھی ابھی میرا تعارف ہوا۔ ان کے بارے میں اور ان سے بات کرنے میں ابھی جھجک ہے۔ لیکن اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہوگئی مجھ سے یہاں بھی بے ادبی۔
افلاطون سے ملتے ہوئے ، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ بالکل میری طرح کا آدمی ہے ، خوب جمے گی ہماری۔۔۔ ہمارے مزاج اور افکار میں مماثلت ہے۔
افلاطون کو فنکاروں اور بالخصوص فنکاروں کے سالار ، شاعر ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔  وہ سمجھتا تھا کہ اس کی سلطنت میں ، ریاست میں شاعر وہی حیثیت رکھتے ہیں جو خدا کی سلطنت میں شیطان  ۔

ایسا کوئی الزام ہوا میں نہیں لگایا گیا۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ فنکار تھرڈ آرڈر ریالٹی بناتے ہیں۔۔یعنی عالم مثال کی نقل یہ عالم دنیا یا عالم موجودات ہے اور شاعر اس کی بھی نقل بناتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں فوٹو کاپی سے فوٹو کاپی بناتے ہیں۔
کل ہی ہم تین دوست ٹکے ماری کر رہے تھے اور اوپر سے کیٹس بھی آ گیا۔ جہاز اڑنے کو پر تول رہے تھے۔ چند لمحوں بعد ہم سب محو پرواز تھے۔ اچانک کیٹس کہنے لگا ۔
اپنی جگہ غلط افلاطون بھی نہیں ہے اور انسانی سماج کے حوالے سے شاعروں کی خدمات کو فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہم اس وقت دنیا کے سب سے رومینٹک سوالات کا نشہ کر رہے ہیں ، اور یہ ہم ایسے ناقابل آباد لوگ ہی کرسکتے ہیں ۔
پھر کہنے لگا ، بھلا وہ سوالات کیا ہیں۔۔۔ انسان ، خدا اور کائنات ۔
اب ہر کوئی اپنے افکار کے کرتب دکھانے لگا، کوئی سمجھتا ہے کہ سائنس ہی انسان کی مونس و ہمدرد ہے اور رہنما ہے ، اور حقیقت کا ٹھیک ٹھیک ادراک اسی سے ممکن ہے ، کوئی کہہ رہا تھا فلسفے سے بہتر کوئی رستہ ممکن ہی نہیں۔ کسی کے خیال میں مذہب ہی ان کے کافی شافی جواب دے سکتا ہے۔
دلائل قبول و رد ہوتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بات کسی اور جانب نکل گئی۔
کیٹس نے آخری کش لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ یار ایک نظم سنو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

GIVE me women, wine, and snuff
Untill I cry out “hold, enough!”
You may do so sans objection
Till the day of resurrection:
For, bless my beard, they aye shall be
My beloved Trinity.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply