قصّہ دراز میرا۔۔رؤف الحسن

عزیزِ جاں!
رات اپنے آخری پہر میں داخل ہونے کو بے تاب ہے۔ ستاروں کی جھلملاہٹ تیرتے بادلوں کے سائے میں کبھی روشن کبھی مدہم ہو تی الگ ہی قصّہ  سنا رہی ہے۔ اکتوبر کے مہینے کی ٹھنڈی ہوا جسم پر لگتی محسوس تو ہوتی ہے، لیکن ابھی اس میں اتنی خنکی نہیں کہ لحاف لینے کی طلب ہو۔ شب کی سیاہی میں رنگے خاموش در و دیوار مجھے سوالیہ نظروں سے تکتے ہیں۔ نیند آنکھوں سے گریزاں ہے اور خواب جیسے روٹھے ہوئے ہیں۔ دل چاہتا ہے اس وقت کوئی سننے والا محرم راز میسر ہو جس کے سامنے در ِ دل کو کھول کر رکھ دیا جائے۔

اکتوبر شروع ہو چکا ہے۔ مجھے اس مہینے کا ہمیشہ ہی انتظار رہتا ہے۔ یہ مہینہ سردیوں کے آغاز کی نوید سناتا ہے۔ درخت اپنا بوجھ اتارنے لگتے ہیں۔ راتیں لمبی ہونے لگتی ہیں، دن مختصر ہوتے جاتے ہیں۔ نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی۔ ایک خاموش سا مہینہ ہے جس میں نہ ساون کے مہینوں کی سی شوخی ہے نہ سرد مہینوں کی سی اداسی۔ زندگی میں کئی اکتوبر آئے ہیں، نہ جانے اور کتنے اکتوبر منتظر ہوں گے۔ لیکن کیا ایک گزرے اکتوبر کی وہ شام پھر آئے گی جو میں نے رنگ بدلتے بادلوں کے سائے میں بتائی تھی؟ کیا کسی اکتوبر کی صبح پھر آنکھوں میں چند خواب روشن ہوں گے؟ اور کیا آنے والے اکتوبر کی کسی رات میں دل پھر کسی کے قدموں کی چاپ پر دھڑکے گا؟ ان تمام سوالوں کے جواب کی تلاش میں ایک اور اکتوبر بیت جائے گا۔
پھر اسی راہ گزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں، مگر، شاید

کبھی کبھی سوچتا ہوں انسان کو جینے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے، ان میں محبت کس مقام پر آتی ہے؟ کیا پچاس ساٹھ سال کی یہ زندگی محبت کے بنا بتائی جا سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی دل نے کبھی محبت کی کیفیات کو محسوس ہی نہ کیا ہو؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں نے کبھی کسی کے سانسوں کے ہم آہنگ ہونے کی خواہش ہی نہ کی ہو؟ کیا سبھی کی آنکھیں کسی کی ایک جھلک کی منتظر ہوتی ہیں؟ فراز نے بھی شاید اسی سوال کے جواب میں کہا تھا،
کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے

لوگ محبت کو ایک حادثہ کہتے ہیں کہ یہ بس کسی لمحے میں ہو جاتی ہے۔ میں لوگوں سے اختلاف کرتا ہوں۔ میرے لیے محبت ہمیشہ اختیار کا معاملہ رہا ہے۔ جیسے کسی خاموش وادی میں کہیں بہتا چشمہ رفتہ رفتہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے، ویسے ہی محبت کسی پرسکون دل میں اپنے بیج بوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی جاتی ہے۔ ‘پہلی نظر کی محبت’ والا فلسفہ میرے لیے ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ میرے نزدیک واردات محبت میں دل کی گواہی کے ساتھ ذہن و دماغ کا بھی متفق ہونا ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ محبت کے فیصلے محض جذبات کے زیر اثر نہ ہوں بلکہ دلیل و منطق کی بھی وہاں گنجائش ہو۔ تم جانتے ہی ہو کہ جذباتی فیصلے پُرکشش ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد کھوکھلی اور ان کا اثر عارضی ہوتا ہے۔ محبت کی بنیاد ہی کھوکھلی رکھ دی جائے تو اس پر زندگی کی عمارت کیسے کھڑی ہو؟ سچ لکھتا ہوں یہ سننا بہت آسان لگتا ہے لیکن کسی ایک شخص پر دل اور دماغ دونوں کا متفق ہو جانا بہت مشکل ہے۔ دیکھو کسی شاعر نے میرے دل کی بات کہی ہے۔
ہو تیری یاد کا دل میں گزر آہستہ آہستہ
کرے یہ چاند صحرا میں سفر آہستہ آہستہ

محبت کے اس فلسفے پر تم شاید تنقید کرو اور پوچھو کہ اتنی قید و بند کے بعد محبت کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں نے اب تک کی زندگی میں محبت کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے محض جذبات ہی نہیں، عقل کے ترازو میں بھی تولا ہے۔ انسان تجربات سے سیکھتا ہے۔ اس لیے یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ اب سے چند سالوں بعد نقطہ نظر کیا ہو۔

میں مانتا ہوں کہ عقل بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔ یہ چیزوں کو تعریفی نگاہ کی بجائے تنقیدی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کی اپنی حدود ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دو اور دو کو ہمیشہ چار ہی بتائے گی۔ یہ سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ ہی گردانے گی۔ یہ انسان کو خواب وخیال کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اور تمہیں سچ بتاؤں، زندگی کے تقریباً سبھی معاملات کو دیکھنے کے دو مختلف طریقے ہیں۔

پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خیال کی دنیا میں کھڑا ہو کر چند تصورات قائم کر لے اور معاملات کو ان کی روشنی میں دیکھے۔ اس طریقے سے زندگی تھوڑی خوش نما ضرور ہو جائے گی۔ دل تھوڑا بہل بھی جائے گا اور وقتی سکون بھی شاید میسر آ جائے۔

دوسرا طریقہ بالکل مختلف ہے کہ انسان حقیقت کی دنیا میں کھڑے ہو کر معاملات کا جائزہ لے۔ یہ طریقہ تھوڑا روکھا ضرور ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ انسان کو طلسماتی دنیا سے نکال کر حقیقت کا آئینہ دکھاتا ہے۔ اس راستے میں زندگی بے رنگ ہی سہی پر سہل ہو جاتی ہے۔

ذرا غور کرو تو شعر و شاعری اور ادب کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شاعری کے لیے جو شے چشم بے تاب ہے، عقل کے لیے وہ محض آنکھ ہے۔ ادب مغربی افق پر ڈوبتے سورج اور رنگ بدلتے بادلوں کے لیے کتنے استعارے استعمال کرتا ہے لیکن عقل کے لیے سورج محض ایک ستارہ ہے۔ خیر یہاں موازنہ مطلوب نہیں کہ اس طرح تو زندگی سے چاشنی ہی ختم ہو جائے۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ چیزوں کے دونوں پہلوؤں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لو! ابھی بادلوں کا ذکر ہی آیا ہے اور میرے سامنے پھیلے آسمان پر بادلوں نے بھی ستاروں کی روشنی کے لیے راستہ چھوڑ دیا ہے۔ کچھ دیر مزید گزرے گی اور یہ ستارے آہستہ آہستہ دن کی روشنی میں چھپ جائیں گے۔ شب کی خاموشی کی جگہ صبح کا شور آ جائے گا۔ کہیں موذن فجر کی اذان کے لیے اٹھتا ہوگا۔ میں بھی اب یہ سوچتا ہوا اٹھتا ہوں کہ،
حیرت میں ہوں الٰہی کیوں کر یہ ختم ہوگا
کوتاہ روز محشر قصہ دراز میرا
والسلام

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply