میرا استاد۔۔اشفاق احمد

مجھے اپنے والد صاحب کی فوجی ملازمت کی وجہ سے میٹرک تک کسی ایک جگہ جم کر پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔پچپن میں جس سکول میں ایک سال تک پڑھنے کا موقع ملا وہاں میرے ایک استاد ہوا کرتے تھے۔ جن کا نام عبد القیوم تھا۔ ہم بچپن سے ہی لوگوں کو آئیڈیلائز کرنا شروع کرتے ہیں۔ شاید قدرت کی اس کے پیچھے حکمت یہ ہو کہ ہم ہر ایک سے کوئی  ایک اَدا سیکھ کر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے رہیں۔

جن دنوں اس سکول میں تھا میں نے اس استاد کو بھی آئیڈیلائز کیا تھا۔ بہت خوش لباس تھے۔ اُن کی ایک عجیب ادا تھی، وہ بچوں کا خیال رکھنے کے لیے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کو اولیت دیتے تھے۔ وہ نصیحتیں بہت کم کرتے تھے۔ لیکن بچوں کے سامنے انہوں نے جو کردار اپنایا وہ لاجواب تھا۔ سائبان کی طرح ساتھ رہنے کی ادا۔ لفظ تول تول کر بولنا، کچھ وقت کے لیے کچھ دور جاکر دھوپ میں بیٹھ جانا تاکہ بچوں کو آپس میں بول چال کی آزادی میسر ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ بچوں کے سامنے کبھی اپنی تنخواہ اور سیاست کے موضوع پر بات نہیں کرتے تھے۔
میں وہاں سال بھر رہا پھر والد صاحب کے ساتھ بیرون ملک جانا پڑ گیا۔

وہاں ایک دن ابو گھر آۓ تو اپنی یونیفارم کی جیب سے ایک خط نکال کر دیا۔ میں نے پوچھا کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ تمہارے استاد کا خط آیا ہے۔ میں نے کھول کر پڑھنا شروع کیا تو سلام کے بعد خط کی ابتداء اس جملے سے تھی،
” میرا بچہ کیسا ہے؟ “۔ اس کے بعد جوں جوں خط پڑھنا شروع کیا تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ میرے بارے میں ایک ایک تفصیل لکھی تھی۔ میری وہ خصوصیات جو میں جانتا تک نہ تھا۔ میرے استاد نے اُسی دن میرے دل پر اپنا نقش ثبت کر دیا۔

پاکستان واپسی پر بہت کچھ بدل چکا تھا۔ کچھ دن آبائی  گھر رہے تو اسی استاد سے ملنے گیا۔ میرا استاد ویسا ہی تھا۔ خوش لباس، خوبصورت بال اور سمارٹ۔ بناء کسی تمہید کے انہوں نے سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ سب پوچھا۔ میں اُن کا مشاہدہ کرتا رہا۔ سواۓ شفقت اور دھیمی سی بے نیازی کے باقی کسی احساس میں انہوں نے پکڑائ نہیں دی۔ دیگر دوستوں سے ملا تو حیرت کا جھٹکا لگا وہ سبھی کے ساتھ ایسے ہی تھے۔ حالانکہ سبھی کو وہ سکول چھوڑے عرصہ بیت چکا تھا۔

میٹرک میں مجھے کچھ عرصے کے لیے واپس اپنے آبائی  وطن کے سکول میں داخلہ لینا پڑا۔ امتحانات سے بہت قریب دن تھے۔ میں شام کو گراؤنڈ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا کہ اچانک استاد گراؤنڈ آگئے۔ میرے ہاتھ سے بیٹ لیا اور مارنے کے انداز میں اوپر کیا لیکن پھر ہاتھ واپس کر دیا۔ ہم سبھی دوست سانس روکے کھڑے تھے۔ استاد کو اس طرح غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سب لڑکوں کو وارننگ دے کر وہاں سے رخصت ہوۓ اور اس کے بعد پل پل کی خبر لی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تب میرے ذہن میں یہ بھی آیا تھا کہ شاید استاد کو کوئی  نفسیاتی عارضہ ہو۔ یہ غلط فہمی بھی ایک دن مکمل رفع ہوگئی  جب ایک دن چھپکے سے ان کو اپنے ذاتی دوستوں کے ساتھ نجی محفل میں قہقہے مارتے اور وہ وہ لطیفے سناتے دیکھا کہ سبھی ہنس ہنس کر لوٹ ہورہے تھے۔ وہاں سے کھسکنے سے پہلے ان کے ایک دوست کی یہ بات ہی بس سن پایا کہ یار قیوم آیا کرو دل خوش ہو جاتا ہے۔
آخر میں انہی دنوں استاد کی کہی ایک بات یاد آگئی  جو انہوں نے مجھ سے چہل قدمی کے دوران کہی تھی،
” بیٹا کہیں سے بھی لوٹو تو سب کچھ لے کر واپس نہ لوٹو۔ کچھ چھوڑ جایا کرو تاکہ جب بھی واپسی ہو تو کوئی  پہچاننے سے انکار نہ کرے”۔
میرا استاد جو بچپن کے صرف ایک برس میرا استاد رہا، پھر تمام عمر میرا استاد رہا۔ وہ آج بھی ویسا ہے۔ خوش لباس، سنورے بال اور سمارٹ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply