ہجوم ۔۔عارف خٹک

“فلسفہ”

ترقی یافتہ شہروں کی زندگی بہت تیز ہے۔ اتنی تیز کہ میرے جیسا بندہ تھک جائے۔ ایک ہجوم ہے، جو بے سمت بھاگ رہا ہے اور آپ اس ہجوم کیساتھ بے سمت بھاگے جارہے ہیں۔

میں صبح سویرے بس اسٹاپ پر مزدور پیشہ، دفتری بابو ، اور سرکاری ملازمین کا بغور مشاہدہ کرتا ہوں، ان میں منی اسکرٹ پہنی فلپائنی لڑکیاں، جن کے چہرے پژمردہ اور جسم بے جان ہوتے ہیں، کوٹ پینٹ اور ٹائی پہنے مرد جو چست نظر آنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ،مگر کم خوابی اور چہرے پر اڑتی ہوائیاں ان کی تھکن کی غماز ہیں کہ، رات کانٹوں پر گزری ہے۔ اسکول کی استانیاں، میک اپ سے بے نیاز چہروں کیساتھ، چھوٹے چھوٹے قدموں سے بھاگتی ہوئیں، اپنی پہلی بس پکڑنے کیلئے تن من کی بازی لگاتیں ، گویا میدان جنگ میں ہوں، جو ان کی بس چھوٹ گئی تو گویا وہ زندگی کی اس دوڑ میں ہار جائیں گی۔ بسوں میں ایک جم غفیر ٹھنسا ہوتا ہے۔ کسی کے جوتے، کسی کا پیر، کسی کا کندھا  آپ کو چبھ رہا ہے ،مگر آپ کی زبان گنگ ہے، کیونکہ آپ بھی کسی پر اپنا بوجھ ذالے کسی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ اس ہجوم میں مجھے ایک چہرہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جو مطمئن  ہو۔ جس کے چہرے پر صبح کی پہلی شبنم کی طرح تازگی ہو۔ ڈھونڈنے سے بھی ایسا چہرہ نہیں ملتا جس میں لڑنے مرنے کی آشا ہو۔ ہجوم میں شامل انسان ایک خودکار ڈور سے بندھے زندگی کو جی رہے ہیں۔

میں جہاں رہتا ہوں وہاں ایسی خواتین بھی رہتی ہیں جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ، اگرمیں ان کو نرم آنکھوں سے ایک دفعہ گھور لوں وہ ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے جائیں گی۔ وہ نازک کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر جائیں گی۔ میں خواہش کرتا ہوں کہ، کسی خوبصورت، طرح دار، نازک اندام حسینہ کیساتھ قرب کے دو پل بتا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوکر آگے نکل جاؤں، مگر ان نازک اندام نازنینوں کے ممبئی، کراچی، کیرالہ، منیلا اور یورپ میں منتظر بچوں کا خیال آجاتا ہے، جن کو پالنے کیلئے یہ مائیں صبح سے لیکر رات تک خود کو مارتی ہیں تو میرے اندر کا حسن پرست شیطان گویا آخری سسکیاں لینا شروع کردیتا ہے۔

میں زندگی کے بے ہنگم ہجوم کا حصہ بن نہیں سکتا۔ میری اپنی زندگی ہے ،اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہیں، جن پر میری دسترس ہے۔ سو میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں اس بےہنگم ہجوم کا حصہ ہوکر بھی، اس دوڑ میں ان کا ساتھ نہیں دونگا۔ میں انسان رہنا چاہتا ہوں۔ مجھےصبح سویرے پرندوں کی چہکار چاہیے۔ مجھے گاؤں کی پگڈنڈیوں پر دوڑتے بچوں کے ساتھ ریس لگانی ہے۔ مجھے گھر کی سیاست چاہیے، جہاں ساس بہو کو گھور کر دیکھتی ہو۔ جہاں بہوئیں ساسوں سے جان چھڑانے کے واسطے پیر بابا کے مزار پر چادریں چڑھاتی  ہیں۔ جہاں بھاوج کو موقع ملے تو دیور کو پستیوں میں گرا دیتی ہے۔ جہاں غریب کی خوبصورت بیٹی کا انتظار کرتے بڑے بوڑھوں کے ہجوم میں شامل ہونا ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان جو اپنی ضدی طبعیت مزاجی کیوجہ سے قدرت کی مخالفت میں یکتا ہے۔ فطرت کی مخالفت کررہا ہے وہ کیسے ایک خودکار زندگی کی ڈور سے خود کو بے بس کرچکا ہے۔ انسان جو تابع رہنا نہیں چاہتا مگر پھر بھی وہ جدیدیت کے نام پر خود  کو تابع کرچکا ہے۔ میرے ذہن کے نہاں خانوں میں ایک کمزور آواز گونجتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

“بھوک”
مگر دل کے اندر ایک چیخ گونج جاتی ہے کہ “یہ آنیوالے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ایک نئے انقلاب  کی شروعات ہے جس میں پھر یہ تابع بے سمت ہجوم حاکم بننے کیلئے کشت و خون کریگا”۔
پھر میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ کچھ لمحوں کا ہجوم ایک وقتی سکون ہے۔ مجھے اس وقتی سکون کا لطف اٹھانا چاہیے۔ مبادا کل کس نے دیکھی ہے!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply