پھنس گئے ہیں ۔۔اظہر سید

سامری جادوگر پھنس گیا ہے،جو لیڈر بنایا وہ نوسر باز نکلا،اب ہاتھ مل رہے ہیں،نجات کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا،نہ پیپلز پارٹی ہاتھ آ رہی ہے،نہ ن لیگ پکڑائی دیتی ہے،ضد ،اَنا رکھتے ہیں تو خونی انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری سے معافی مانگتے ہیں تو ملک و قوم کے ساتھ ہمیشہ سے کی جانے والی بےایمانی پر مہر ثابت ہو جاتی ہے۔
معیشت تباہ نہ ہوتی تو چوہے بلی کا یہ کھیل جاری رہتا،مگر معاشی تباہی نے سارے کس بل نکال دیے ہیں۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کا صبر اور سیاست گلے پڑ گئی ہے۔اعتزاز احسن اور چوہدری نثار ایسے مہرے ننگے ہو گئے ہیں ۔
مولوی خادم حسین اور پیر افضل قادری کو اپنے ہاتھوں سے ٹھکانے لگانا پڑا۔ڈان لیکس بھی گلے پڑ گئی،حافظ سعید کو سزا دلانا پڑی،مولانا مسعود اظہر فرار ہو گیا،عدلیہ، میڈیا، نیب اور خود اپنے ادارے کی ساکھ عوامی کٹہرے میں ملزم بنی کھڑی ہے،محنت اور وسائل سے جو لوگ ایک جماعت میں بھیجے تھے، سب کے سب رسوا ہوگئے۔ساتھ دینے والے سیاستدانوں کی سیاسی زندگی داؤ پر لگ گئی۔سب ایک پیج پر ہونے کے باوجود سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔
نواز شریف کیوں بولے اور کیوں واپسی کا راستہ دے؟
آصف علی زرداری کیوں مدد کرے؟
وقت آن پہنچا ہے۔
ادارے کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
ملک بچانا ہے یا خارجہ اور داخلہ پالیسوں پر ملکیت برقرار رکھنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت آن پہنچا ہے۔آئین اور قانون پر عمل کرنا ہے اور مہذب جمہوری ریاستوں کی طرح اپنا آئین میں دیا کردار ادا کرنا ہے یا ماضی کے راستے پر چلنے کی ضد پر اڑے رہنا ہے۔
سب کچھ خطرے میں ہے،
مقبوضہ کشمیر ایک جواز تھا کارپوریٹ مفادات اور بڑی فوج کا ‘
بھارتیوں نے اسکی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔
غربت، بے روزگاری اور بھوک سے لوگ باہر نکلنے کو ہیں۔۔کوئی اپنا کاندھا نہیں دے رہا۔
یہ کارگل کر دیا ہے۔۔
ردِعمل کا اندازہ ہی نہیں تھا۔۔۔
جس طرح بھارتیوں نے بقول کارگل کے انجینئر جنرل مشرف “اوور ریکٹ” کیا تھا یہاں معیشت نے اوور ریکٹ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کیوں حکومت سنبھالے؟
کیا اس لئے واپسی کا محفوظ راستے دے،کہ ایک سال کے اندر اس پر پالتو اینکرز چھوڑ دیے جائیں۔
کسی قادری کو کینیڈا سے بلوا کر دھرنا کرایا جائے۔اور پھر عدلیہ اور کسی نواز شریف سے مل کر حکومت برطرف کرا دی جائے۔
وزیر اعظم نا اہل کرا دیا جائے۔
نواز شریف کیوں حکومت سنبھالے؟
اس لئے جب وہ معیشت مستحکم کرے،
توانائی کا بحران ختم کرے،
چینیوں سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری سی پیک پر کرائے،
اس کے خلاف لندن فلیٹ کا ڈرامہ شروع کرا دیا جائے۔
اسے جوتا مروایا جائے،
احسن اقبال پر گولی چلے،
خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی جائے،
اور ایک پالتو چیف جسٹس کے ذریعے خواجہ سعد رفیق پر لوہے کے چنے کے طنز کرائے جائیں۔
اب بھگتیں بارہ موسم اور دو سو ماہرین معیشت والے نوسر باز کو،
اسے چلاتے جائیں،
ملک برباد کراتے جائیں،
اور انقلاب کا انتظار کریں،
ریاست اور طاقتور فوج کے سامنے تربیت یافتہ طالبان نہیں کھڑے ہو سکے تھے،بلوچ قوم پرست، پی ٹی ایم اور اپوزیشن جماعتیں بھی کھڑی نہیں ہو سکتیں،مسئلہ معیشت کا ہے جس کے سامنے طاقتور فوج بھی کھڑی نہیں ہو سکتی ۔اس معیشت کا جس کے سامنے طاقتور سوویت یونین کی فوج بکھر گئی تھی۔
بات معیشت کی ہے۔جسکی وجہ سے امریکی افغانستان سے واپس گئےہیں۔
معیشت کے سامنے آپ بھی کھڑے نہیں ہو سکتے۔
اس سال عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر رہی سہی صنعت و حرفت سے کام چلا لیں گے،اگلے سال کیا کریں گے،بشرطیکہ عوام پہلے باہر نہ نکل آئے۔
غیر ملکی بینکوں کے قرضے کہاں سے واپس کریں گے،غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کون کرے گا،برآمدات کرونا نے تباہ کر دیں،بیرون ملک مقیم پاکستانی لاکھوں کی تعداد میں واپس آ چکے ہیں،ترسیلات زر کے 25 ارب ڈالر آیندہ سال کہاں سے حاصل ہونگے ۔
جب کاروبار ختم ہو جائیں گے،
صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا،
ایف بی آر والے ٹیکس کہاں سے حاصل کریں گے؟
پسپائی ہی آپشن ہے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری سے معذرت ہی مسئلہ کا حل ہے،آئین اور قانون میں دیئے گئے مینڈیٹ تک محدود رہنے کی ضمانت دینے میں ہی واپسی کا محفوظ راستہ ہے۔
جو بیماری چنتخب کی شکل میں پھیلائی تھی روگ بن کر چمٹ گئی ہے،یہ آخر کام تمام کرکے ہی چھوڑے گی،سب تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں۔
نیا سوشل کنٹریکٹ کرنا ہی ہوگا۔
سب کو ایک میز پر بیٹھنا ہی پڑے گا۔
عدلیہ سے سو موٹو کی تلوار چھیننا ہی پڑے گی۔
عوام کے ووٹ کا احترام کرنا ہی ہوگا۔
اس کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں سوائے خونی انقلاب کے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply