شعوری انقلاب اور زبان کا باقائدہ آغاز۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

گلیلیو نے کہا تھا کہ خدا نے کتابِ فطرت کو ریاضی کی زبان میں لکھا ہے، لیکن  ایمانوئیل کانٹ کے مطابق ، ہر فرد کتابِ فطرت کو اپنے دماغ کی پسندیدہ زبان میں پڑھتا ہے۔

یہ دلچسپ نکتہ ہے اور اسی کو لے کر سامنے کا سوال یہ ہے کہ دماغ کی کتنی زبانیں ہیں، یہ ایک طویل بحث ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ دماغ کی معروف زبانوں میں مصوری، موسیقی، ہندسہ جات، تن بولی، احساسات، اشاروں کی زبان کے ساتھ ساتھ اہم ترین وہ زبان ہے جو ہم بولتے ہیں یعنی زبانِ کلام جیسے اردو، عربی، انگریزی وغیرہ۔

زبانِ کلام دماغ کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت اپنی ساخت میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اس کی اکائی حرف ہے، حروف سے لفظ بنتا ہے، الفاظ سے جملہ اور جملے لاتعداد پیغامات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جہاں تک دماغ کی فعالیت کا تعلق ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ مواصلات کے تمام دوسرے ذرائع کی نسبت زبانِ کلام کے اظہار کے وقت دماغ زیادہ دباؤ میں ہوتا ہے، ہمارے ایک دوست کی والدہ صاحبہ پانچ سال تک   اقوامِ متحدہ میں تین مختلف زبانوں کے مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہیں، وہ بتاتی ہیں کہ بیالوجسٹس کے ایک وفد نے تحقیق کی غرض سے ترجمہ کرتے وقت، انسیفیلوگرام کی مدد سے مترجمین کے دماغ کی فعالیت کو ناپنے کی کوشش کی تو حیران کن طور پر یہ بات سامنے آئی کہ کسی دوسرے شعبے یا پیشے میں دماغ اس قدر پوری قوت سے کام نہیں کرتا جتنا مترجم کا دماغ فی البدی ترجمہ کرتے وقت دباؤ میں ہوتا ہے، اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ ٹاسک کے اختتام پر جب مترجم سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے جس شخصیت کی تقریر کا ترجمہ کیا، اس تقریر کا بنیادی موضوع یا مضمون کیا تھا تو مترجمین کی اکثریت یہ بات بتانے سے قاصر رہی، کیونکہ ان کی پوری توجہ اس وقت کے بولے گئے لفظ یا زیادہ سے زیادہ جملے تک محدود ہوتی ہے جس کا انہوں نے درست ترجمہ پیش کرنا ہوتا ہے، اس لیے دماغ پورے موضوع کی وسعت کو نہیں سمیٹ پاتا، یہاں لنگویسٹک کے ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ زبانِ کلام کی اکائی حرف تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی آگے حروف کے اپنے اپنے کوڈز ہوتے ہیں، دماغ کو ان کوڈز تک پہنچنا ہوتا ہے جو عموما ً لاشعوری طور پر ہوتا ہے، اس مثال سے زبان کی ساخت میں موجود پیچیدگیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور بحث کیلئے یہ موضوع بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ابتدائی زبانوں کی شروعات میں آسمانی مداخلت کے امکانات موجود تھے یا نہیں۔

زبان ھرج و مرج کے خلاف ایک بہترین ہتھیار بھی ہے کہ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم ہمہ وقت جس قسم کی معلومات وصول کرتے رہتے ہیں، یہ تمام معلومات کسی سونامی کی صورت دماغ کی ترتیب و نظم میں انارکی پیدا کر سکتی ہیں، زبان کی مدد سے ہم ان بپھرے حملہ آوروں کو ایک ترتیب کے ساتھ سلجھے ہوئے سپاہیوں میں بدلتے رہتے ہیں، اس طرح دماغ بیرونی و اندرونی دنیا سے بہتر طور پر برسرِ پیکار رہتا ہے۔

دماغ کی جتنی بھی زبانیں ہیں، دوسرے الفاظ میں جتنے بھی ذرائع مواصلات دماغ کے پاس موجود ہیں، ضروری نہیں کہ فرد ان سب سے واقف ہو، دماغ فرد کے ساتھ اسی زبان میں بات کرتا ہے جو زبان فرد جانتا ہوتا ہے، اسی لئے عجب نہیں کہ دماغ کی قوتِ تخیل کا انحصار فرد کی زبانِ کلام سے ہے اور عموما یہ مادری زبان ہوتی ہے، اس دعوی کی دلیل ان محقیقین و مفکرین کی بائیوگرافی میں دیکھی جا سکتی ہے جنہوں نے دنیا کی بڑی بڑی دریافتوں کا سہرا اپنے سر سجایا، یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بے شمار ایسی دریافتیں ہیں جو کسی ماہر کے دماغ پر اس سے کہیں قبل افشاں ہو چکی تھیں جب اس نے دنیا کے سامنے اپنی دریافت پیش کرنے کیلئے کوئی مناسب الفاظ، کوئی ہندسے، فارمولے یا خاکے ڈھونڈے، آئن سٹائن کے E = mc2 والے فارمولے کی حقیقت ان کے دماغ پر بہت پہلے آشکار ہو چکی تھی لیکن اس دریافت کو دوسروں تک پہنچانے میں انہیں غیر معمولی مشقت کرنا پڑی، اسی طرح میڈلیف عناصر کی ترتیب کے راز کو بہت پہلے جان چکے تھے لیکن اسے کسی آسان زبان، فارمولے، نقشے یا خاکے میں پیش کرنے کیلئے انہیں محنت کرنا پڑی، شاید غالب نے کسی ایسی ہی کیفیت کیلئے یہ مصرعہ کہا تھا کہ،
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرد کا دماغ اگر لاشعور کی مدد سے اس کائنات میں موجود رازوں تک پہنچ بھی جائے تو اسے دنیا تک پہنچانے کیلئے فرد کو مناسب ذرائع مواصلات کی مدد لینا پڑتی ہے، اور یہ کام مشکل اس لیے ہے کہ زبانِ کلام کی ساخت ہماری توقع سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، ارتقاء کے ماہرین بتاتے ہیں کہ زبان کی تاریخ ستر اسّی ہزار سال پرانی ہے، اس سے پہلے باقاعدہ زبان موجود نہ تھی، اور یہی تاریخ فرد کے شعوری انقلاب کی بھی ہے، یعنی شعوری انقلاب اور باقاعدہ زبان کا آغاز کسی ایک ہی نکتے سے ہوتا ہے، یہ کیسے اور کیونکر ہوا ، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، پروفیسر حراری نے اپنی کتاب، سیپئینز، میں فرد کی ارتقائی تاریخ بارے بڑی سیر حاصل گفتگو کی ہے اور انسان کو دوسرے جانداروں کی نسبت بہتر قصہ گو اور اجتماعی تعاون جیسی خصوصیات کا حامل ہونے کی وجہ سے دھرتی کا کرتا دھرتا قرار دیا ہے، ان دونوں خصوصیات کے تانے بانے یقینا ً شعور کی بلندی سے نکلتے ہیں لیکن شعوری انقلاب کی وجوہات کو بیان کرنے سے حراری قاصر رہے ہیں، سائنس، تاریخ و ارتقاء کے محققین اس کی وجہ نہیں جانتے کہ ایسا کیسے اور کیوں ہوا، یہی وجہ ہے کہ مذاہب پسند (یا مذاہب پرست ) افراد اسی دورانئے کو خدا کی طرف سے ایمان و شعور کے ہدیے کا دورانیہ مانتے ہیں، یہ شعوری انقلاب کیسے اور کیوں برپا ہوا، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، کم از کم کوئی اس علت کے ثبوت فراہم نہیں کر پا رہا، ارتقاء کی اس لڑی میں یہ گمشدہ عنصر ہی ہمارے تمام سوالوں کا جواب ہے، اس پر تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، وقت ہی بتائے گا کہ اس سمت فکر و غور کی کوششیں کس حد تک ثمر بار ثابت ہو سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply