ندیم مسیح ,فیصل مسیح کی سرگودھا کی سڑکوں پر پڑی یہ لاشیں دراصل ان نوجوانوں کی لاشیں نہیں جنہیں جبری طور پر رات کے اندھیرے میں زہریلے گٹروں میں اتارا گیا۔بلکہ یہ میٹروپولٹن افسر سرگودھا، ڈی سی سرگودھا ،اس حلقے کے ایم این اے،ایم پی اے صدر پاکستان ،وزیراعظم پاکستان اڑتیس اقلیتی ایوانوں میں بیٹھے ممبران سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی اور دس اقلیتی کمیشن کے اراکین اور ہم بائیس کروڑ مردہ ضمیروں کی لاشیں ہیں۔۔ جنہیں ہم نے حرص و ہوس زر واقتدار کی دیوی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔اب سال چھ مہینے بعد یہ لاشیں کسی گٹر سے ابل کر باہر آ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے اس سےہم بائیس کروڑ مردوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ ورنہ خدا کی پناہ اکیسویں صدی میں یہ کیسے ممکن ہے۔؟
کہ جیتے جاگتے انسانوں کو غلاضت سے بھرے گٹروں میں رات کی اندھیرے میں اترنے پر جبری طور پر کوئی میٹروپولٹن افسر مجبور کریں۔اور بائیس کروڑ کی آبادی والی ریاست حرکت نہ میں آئے اور بائیس کروڑ بھی چپ سادھے بیٹھے رہیں۔ یقنیا ہم مردہ قوم ہیں۔۔ اور اسے بھی اپنی طرح کے ایک مردے کا کھتارس سمجھ کر اگنور کریں۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں