عمر شریف مرحوم۔۔سکندر پاشا

ہمارے ہاں جنت اور جہنم بھیجنے کے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔

جہاں کسی عالم دین کا انتقال یا ان کی شہادت کا واقعہ پیش آتا ہے وہیں لبرل یا سیکولر طبقہ بغلیں بجاتا ہوا “خس کم جہاں پاک” کا نعرہ لگاتا ہے اور یہ نعرہ مولانا سمیع الحق شہید مرحوم کی شہادت کے وقت بھی لگایا گیا  تھا۔

کل ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کامیڈین عمر شریف مرحوم اپنی طبعی موت چل بسے ہیں تو بعض شدت پسند مذہبی افراد “مرگیا مردود نہ فاتحہ نہ درود” کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
مجھے دکھ ہے تو اس شدت پسندی کا ہے کہ  کسی کو مرنے کے بعد بھی کیوں نہیں بخشا جاتا۔؟
یہ اس قسم کی شدت پسندی ان طبقات میں کیوں ہے۔؟
ایک عالم دین جہاں ساری تعلیمات سے واقفیت رکھتا ہو وہ اس قسم کی شدت پسندانہ باتیں کرکے پتہ نہیں کس بات کا درس دیتا ہے ۔؟

ایسے پڑھے لکھے “علامے” اور “لبرل” پاکستان میں وافر مقدار میں کیوں پائے جاتے ہیں۔؟

اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مرنے والوں کو بُرا مت کہو، کیوں کہ جو اعمال انھوں نے آگے بھیجے، وہ ان تک پہنچ چکے ہیں”۔

حدیث میں مر جانے والوں کو برا کہنے اور ان کی عزت پر انگلی اٹھانے کی حرمت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک بہت بُری اخلاقی صفت ہے۔ ممانعت کی حکمت حدیث کے دوسرے حصے میں ہے کہ: “فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا” یعنی جو اچھے یا بُرے اعمال انھوں نے کیے، ان تک وہ پہنچ چکے ہیں۔ یہ گالم گلوج ان تک نہیں پہنچتی، بلکہ اس سے تو زندہ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

ہم نے مذہبی طبقے کے اکابر کے ایسے اقوال پڑھے  ہیں کہ ان پہ رشک آتا ہے، مجھے یاد نہیں لیکن کچھ اس قسم کے الفاظ تھے کہ “میں کسی بھی زندہ کافر کو اور کسی بھی وفات پاجانے والے مومن کو اپنے سے بہتر جانتا ہوں” کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جو آج کافر ہے کل کو وہ مسلمان ہوجائے اور جو مسلمان ہے تو کیا پتہ اس سے ہدایت چھین لی جائے۔
اور ویسے بھی جنت تو مسلمان کیلئے ہی ہے، کوئی شخص کتنا ہی گناہ گار ہو وہ  اپنا حساب چکتا کرکے جنت تو ضرور جائیگا۔

سب سے بڑا مسئلہ ہمارے ہاں جنت و جہنم کی سستی ٹکٹ کا ملنا ہے، ہم کون ہوتے ہیں کسی کی آخرت کا فیصلہ کرنے والے، ان کا معاملہ اپنے اللہ سے ہے۔ ہمیں تو اپنی فکر کرنی چاہیے۔

ہمارے ایک دوست ہیں، کبھی کبھی انتہائی شگفتگی کے ساتھ مزاح کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ “نفسا نفسی کا تو یہ عالم ہے کہ اپنے مسلک یا فرقے کا بندہ ہی یہاں خالص مسلمان نظر آتا ہے ۔ باقی لوگ نہ تو انسان ہیں نہ مسلمان ۔”

کسی بھی مسلمان کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور اس کی وفات پر اظہار افسوس کرنا چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار ہو، یہ سب تو کم سے کم جائز ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر عمر شریف مرحوم تو ایک پکے مسلمان تھے، ان کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں “قبر کا ذکر کرتے ہوئے خوف سے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں” باقی کمی کوتاہیاں تو ہم سب میں ہیں، ہم کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔
(اللہم ارزقنا حسن الخاتمۃ۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply