سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/بغداد یونیورسٹی کے اساتذہ سے ملاقات(قسط15)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اسی دوران افلاق کا فون آیا اُس نے کہا تھا۔”تم سیدھے بغداد یونیورسٹی آجاؤ۔“
میں گھونٹ گھونٹ دودھ پیتی باہر منظروں کو دیکھتی تھی۔گاڑی اُسی راستے پر بھاگی جاتی تھی جس پر گزشتہ دنوں سے بار بار گھوم رہی تھی۔اب تو مجھے خود راستوں کی خاصی پہچان ہو گئی تھی۔
”سعدی امریکی حملے کے وقت تم کہاں تھے؟“
”میں نے کہاں ہونا تھا۔اِسی تپتے جلتے بغداد میں ہی تھا۔“
”کُچھ بتاؤ گے نہیں اُن شب و روز کا احوال۔“
وہ زہرخند سی ہنسی ہنسا پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔
”میں بہت حسّاس اور جذباتی لڑکا ہوں۔جب سے ہوش سنبھالا ہے جنگوں میں ہی اُلجھے ہوئے ہیں۔امن سکون اورخوشحالی کوترسے ہوئے۔میری پیدائش 1982کی ہے۔میرے باپ نے گیارہ ماہ بعد میری شکل دیکھی تھی۔غریب محاذ جنگ پر تھا۔مجھے دیکھنے کیلئے دو دن کی چھٹی پر آیا۔میرا دادا اکثر کہا کرتا تھااگر تمہارا باپ زندہ سلامت آگیاتو میرا شمار زندوں میں ہوگا۔نہیں تو میں مرجاؤں گا۔آٹھ نو سال کی اِس ایران عراق جنگ نے ہمیں کیا دیا۔جنگ بندی ہوئی تو دونوں قومیں فتح کا جشن منا رہی تھیں۔کوئی پوچھتا کِس بات کا جشن؟کلمہ گو نے کلمہ گو کا گلا کاٹا۔عام لو گ تو بیچارے اپنے بیٹوں،بھائیوں،شوہروں اور باپوں کے زندہ سلامت بچ جانے پر خوش تھے۔وہ ان کے رخساروں پر بوسے دیتے اور انہیں جپھیاں ڈالتے ہوئے آنسو بہاتے تھے۔اب امن ہوگا۔دعائیں کرتے تھے۔مگر امن تو ہم سے روٹھ گیا ہے۔
ایک صدام ذلیل اوپر سے یہ لعنتیاامریکہ جن کے ٹینک توپیں بغداد کی چھوٹی موٹی سڑکوں پر بھی یوں بھاگی پھرتی تھیں جیسے ہلکائی ہوئی کُتیاں کُتے گلیوں میں بدحواسے پھرتے ہیں۔ہیلی کاپٹروں کے اُتار چڑھاؤ نے فضاؤں کو دھواں دھار بنا رکھا تھا۔وہ گرد اُڑتی تھی کہ بغداد دُھول مٹی میں غوطے مارتا نظر آتا تھا۔بغداد ایر پورٹ پر تو ان کی مٹر گشت کچھ یوں جاری تھی جیسے یہ اُن کے باپ کا ہو۔ ”لوگوں کا ردّ عمل کیا تھا؟“
”وہ جو صدام کے حمایتی تھے۔صلاح کار تھے۔اُسے پسند کرتے اور چاہتے تھے وہ تو سہمے ہوئے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔مخالف ٹولے خوش تھے۔جن پر ظلم وستم ہوئے وہ بھی بغلیں بچاتے تھے۔تیسرا طبقہ اُن محب وطن لوگوں کا تھاجنہیں صدام سے کتنا بھی اختلاف کیوں نہ تھا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ یوں اُن کا وطن تاراج ہو جائے۔“
میرے اس سوال پر کہ آیا امریکی سپاہیوں نے عام گھروں کے اندر مداخلت کی۔سعدی نے بتایا تھا۔
”اُنہیں تاکید تو تھی لیکن اس کا انحصار ان کی مرضی پر ہوتا تھا۔کِسی بھی گھر میں جانے کیلئے یہی دلیل کافی تھی کہ صدام کے حامی یہاں چھُپے بیٹھے ہیں۔“
”معاف کیجئیے گا۔میں نے خلیفہ سٹریٹ میں کِسی کو کچھ کاغذات دینے ہیں۔ بس تھوڑی سی دیر کیلئے معذرت چاہتا ہوں۔“
”ارے نہیں بچے جو کرنا ہے کرو۔می ں بھی تو سیر پر ہی نکلی ہوئی ہوں۔“
خلیفہ سٹریٹ کس قدر خوبصورت تھی۔کشادہ،شاندار، سرکاری عمارات اور خوبصورت مسجدوں سے گھری ہوئی۔
اِسی علاقہ میں عباسیوں کے مدرسے اور محلات ہیں۔
”کبھی اِن شاہراہوں پر بڑے بڑے پوسٹروں پر صدام چمکتا تھا۔آج صدام کہاں تھا؟میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔
پھر میں نے باہر سے ہی الرشید ہوٹل کا دیدار کیا۔مجسموں، فواروں، بوٹوں، درختوں، پھولوں سے سجا جدید طرز تعمیر کا حامل۔جنگ کے

Advertisements
julia rana solicitors

دِنوں میں دُنیا بھر کے صحافیوں کا جائے مرکز۔
سعدی کی آواز مجھے باہر سے اندر کھینچ لائی تھی۔
”افلاق کے ساتھ آئیے کِسی وقت یہاں۔مرکزی گزرگاہ میں صدام کے پوٹریٹ کو پاؤں سے روندتے ہوئے آگے بڑھیں۔“
”کیا؟“
میری آواز میں حد درجہ حیرت تھی۔
کس قدر طنز سے بھری ہوئی ہنسی تھی جب وہ بولا۔
”منافق لوگ ہیں۔ایک دوسرے کو استعمال بھی کرتے ہیں اور انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔صدام نے اپنے وقتوں میں داخلی دروازے کے فرش پر جارج بُش کی تصویر کندہ کروائی تھی۔پہلے لوگوں کے جوتے بُش کو روندتے تھے۔بغداد کو فتح کرنے کے بعد فاتح افواج کیلئے پہلا اہم کام بُش سنیئر کو اکھاڑ کر صدام کے پوٹریٹ کو بچھانا تھا۔“
”بڑے لوگوں کی عامیانہ حرکتوں کا اتنا چیپڑاانداز۔“میں تو دم بخود تھی۔
کِسی شام یہاں آئیے۔ بلکہ کوئی میوزک کنسرٹ اگر ہو رہا ہو تو اُسے دیکھئیے۔میں پتہ کرتا ہوں۔ہمارے خوبصورت ہوٹل،ہمارے شانداردفتر سب جل رہے تھے۔المنصور جیسے شاندار ہوٹل کو آگ لگائی گئی۔گلی کوچوں میں موت ناچتی تھی یا چورڈاکو ناچتے پھرتے تھے۔ہمارے بینک لُٹ رہے تھے۔بمباری سے ہلاک ہونے والی لاشوں کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔چھوٹے خستہ حال گھر تو پَل جھپکنے میں زمین بوس ہوگئے تھے۔میرے چھوٹے چچا کا گھر وہیں راؤنڈ سٹی میں ہی تھاجو ایک جھٹکا برداشت نہ کرسکا۔شکر ہے وہ بچ گئیں۔اسپتال تک اُن سے محفوظ نہ تھے اور وہ جو صدام کی قید میں جکڑے ہوئے عراقیوں کو آزاد کروانے آئے تھے۔بغداد کے درودیوار پر چُھوٹتی پُھلجھڑیوں سے محظوظ ہورہے تھے۔
دجلہ کے کنارے خوبصورت ترین عمارتوں کے ساتھ آباد ہیں۔صدام کا صدارتی محل میں نے سعدی کی نشان دہی پر دیکھا۔یہ دجلہ کی دوسری سمت تھا۔کس قدر شاندار ایک انتہائی خوبصورت ٹاؤن کا تاثر اُبھرتا تھا۔میں حیرت سے گنگ بظاہر نظر آنے والے پھیلاؤ کو ہی دیکھ کر گُم سُم تھی جو دجلہ کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جاتا تھا۔
”تو یہ گرین زون ہے اور یہاں وہ رہتا تھا ایکڑوں میں پھیلے اِن پُر تعیش جگہوں پر جسے وقت نے چیونٹی کی طرح مَسل دیا ہے۔رہے نام اللہ تیرا۔باقی سارا رولا رولا۔“
سعدی کا کہنا تھاکہ صدام نے قارون دور کی کھدائیوں سے حاصل کردہ محلاتی نمونوں کی طرز پر اِسے بنایا تھا۔اِس محل کے نیچے ایسی خندقیں اور بنکر ہیں کہ جن کی مضبوطی کے بارے میں جتنا جھوٹ بولا جائے اتنا سچ ہے۔
کچھ حاصل ہوا میں نے بے اختیار اپنے آپ سے کہا؟امریکی جب اپنے ٹینکوں کے ساتھ محل میں داخل ہوئے تھے اُس کی شان و شوکت دیکھ کر کنگ رہ گئے تھے۔
“اتنا بڑا ہے۔اتنا پھیلاہوا ہے کہ اندرشٹل سروس چلتی ہے۔
آج کل امریکیوں کا ہیڈ کواٹر ہے۔وہ کمرے جن میں کِسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی وہ عام امریکیوں کے بوٹوں نے روند ڈالے۔
عام لوگوں نے اندر جا کر اُسے لوٹا بھی بہتیرا۔
گاڑی میں بیٹھے مجھے کیا نظر آنا تھا۔بس سُنتی رہی۔
Chadiriaبرج سے ذرا آگے عظیم الشان بغداد یونیورسٹی ہے۔جدید طرزِ تعمیر کی حامل۔ سعدی مجھے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں لے آیا تھا۔ڈپارٹمنٹ میں اُن دِنوں سیمینار ہو رہا تھا۔چھُٹیاں ہونے کے باوجود طلبہ و طالبات کی خاصی بڑی تعداد حاضر تھی۔ڈرائیووے پر بسیں کھڑی تھیں۔ایک میں سٹوڈنٹس بیٹھ رہے تھے۔عباؤں کے ساتھ ساتھ لونگ سکرٹ پہننے والی لڑکیاں بھی تھیں۔شارٹ سکرٹ میں صرف ایک لڑکی میں نےاُوپر چڑھتے دیکھی تھی۔بیشتر لڑکیاں سکارفوں سے سر ڈھانپے ہوئے تھیں۔جنگ سے پہلے یہ ماحول نہیں تھا۔آزادی اور کُھل ڈُل خاصی تھی۔
”اب کیا لوگ مذہبی ہو گئے ہیں؟“
”نہیں۔القاعدہ اور انتہا پسندوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کا اثر ہے۔“
میں ہنس پڑی تھی۔
”اِس القاعدہ اور اس کے بھائی طالبان نے جگہ جگہ کیا وختہ ڈالا ہوا ہے؟“
ڈپارٹمنٹ بہت خوبصورت نظر آیا تھا۔پھولوں اور گھاس کے تختوں سے سجا اُس کا فرنٹ نظروں کو یکدم لُبھاتا تھا۔اُس وقت بلند و بالا چوکور ستونوں پر سجی گھڑی بارہ بجا رہی تھی اور سچی بات ہے کہ دھرتی اور فضا پر بکھرا دُھوپ کا جوبن شِکر دوپہر کا بھرپور تاثر دے رہا تھا۔
یہاں میری ملاقات فیکلٹی کے چند ممبران سے ہوئی۔تعلیم عراق کی اولین ترجیح تھی۔مُلک بھر میں پھیلے ٹیکنیکل،ٹریننگ سکول اور کالج بغداد یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔
بصرہ موصل اور المستنصریہ یونیوسٹی عراق کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔
وہ مجھے تعلیمی مراحل سے آگاہ کر رہے تھے جبکہ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ اُن لوگوں کے ردّ ِعمل موجودہ حالات میں کیا ہیں۔
یہ حساس اور ذہین لوگ تھے جنہیں اپنے وسائل کے لُٹنے کا احساس تھا۔
پڑھے لِکھے اور ذہین لوگوں سے بات چیت کایہ دلچسپ تجربہ تھا۔فیکلٹی کے کشادے کمرے میں صوفے کم اور کُرسیاں زیادہ تھیں۔یہاں گیارہ لوگ تھے۔کچھ اُدھیڑ عمر اور جوان۔مگر جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا مجھے احساس ہوا تھا کہ اُن میں سے ایک دو کے علاوہ کوئی بھی نہ صدام کا حامی اور نہ امریکہ کا۔
ذرا کونے میں بیٹھے قدرے گندمی رنگ کے نوجوان کو جس کا نام ابو المنیب الرازی تھا کو جنگ سے بھی زیادہ اقتصادی پابندیوں پر غُصّہ تھا۔گلف وار سے قبل مُلک کا فی کس جی این پی(Gross National Product) 3000ہزار ڈالر تھا جو 2001میں گھٹتے گھٹتے صرف 500ڈالر پر آگیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بھی اس کا نظامِ صحت کمال کا تھا۔اس کے سکول،کالج اور یونیورسٹیاں علاقے میں بہترین خیال کی جاتی تھیں۔ بے غیرت لوگ سیال سونے کے دولت سے مالا مال مُلک جسے دُنیا کا غریب ترین مُلک بنا دیا گیا۔“
اُس کی آواز میں مجھے اب زیادہ بھراہٹ محسوس ہوئی تھی۔
سوال ذہن میں کنکری کی طرح چُبھ رہا تھاکہ چلو صدام تو اقتدار میں تھا۔غریب لوگوں کی کیا خطا؟وہ بیچارے نہ تین نہ تیرہ میں۔انہیں کِس بات کی سزادی گئی؟کہاں ہیں ان کے انسانی حقوق؟
کوئی چالیس کے پیٹے میں بڑی سنجیدہ اور مدبّر سی شخصیت نے نام جنکا مقتدیٰ الصدر آبائی شہر موصل تھا نے متانت سے کہا۔”دراصل امریکہ کے پاس کوئی آپشن نہیں تھی۔صدام کے سوا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔امریکہ کی یہ کمزوری حکمرانوں کو بھی سمجھ آگئی تھی۔بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے غریب عوام حکومت کی اور محتاج ہو کر رہ گئی تھی۔ اور یوں اُس ظالم کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔جنوبی عراق میں حکومت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا جس بے دردی سے گلا گھونٹا گیا اُس کے بارے میں تفصیلات رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں۔
شمالی عراق کے کردوں کو دم گھونٹ کر جس کیمیائی گیس سے ہلاک کیا گیا۔اُس گیس کو تیار کرنے والے کیمیائی ہتھیار صدام کے پاس کس نے بیچے اور کیوں بیچے؟اب زہریلی گیس بنا کر اُس نے اپنے مخالفوں کے گلے تو گھونٹے تھے۔عراق کے کُردوں کیلئے پریشانی اور دُکھ کا اظہار بھی ہونے لگا۔اس امریکہ اور اس کے اتحادی کا تو وہ حال ہے چوروں کو کہتے تھے نقب لگاؤاور لوٹ لواُن کا سب کچھ اور سنتریوں سے کہتے ہیں ناہنجاروں جاگو تم تو لٹ گئے۔“
میں نے لمبی سانس کھینچ کر اپنے آپ سے کہا تھا۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔کوئی پوچھے نیویارک میں جڑواں ٹاورز کا ڈرامہ(اگر وہ ڈرامہ نہیں)تب بھی اُس پر حملہ کرنے والے سب سعودی تھے۔عراقی تو ایک بھی نہ تھا۔مگر سعودی عرب کیلئے با ز پرس نہیں۔
”آپ لوگ سمجھتے ہیں صدام امریکی ایجنٹ تھا۔“
دو نے کہا”سو فی صد تھا۔بقیہ کا کہنا تھا۔”امریکہ سُپر پاور ہے۔ دُنیا کے حکمران اس کے ایجنٹ ہیں۔کویت پر حملہ امریکہ کی مرضی کے مطابق ہوا۔“
کلین شیو پر چھوٹی چھوٹی مونچھوں اور ذہانت سے بھری چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا کامل مغیر بولنے لگا تو مجھے محسوس ہوا جیسے اِس چہرے کے پیچھے ہمارا حسن نثار ہے۔دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے احمق اور حرص و ہوس کے مارے حکمرانوں کے چیتھڑے اڑاتا ہوا۔تاریخ سے گہرے شغف اور عبور کی صورت اُس کے ہاتھ میں پکڑے اُس ریموٹ کنٹرول جیسی ہی تھی کہ جس سے وہ دنیا کی سکرین پر بٹن پر بٹن دباتے ہوئے منظروں کو بدلنے پر قادر تھا۔اسرائیل کے قیام سے مشرق وسطیٰ کی سیاست کے بکھرے ہوئے تارو پود کے اُتار چڑھاؤ۔ایران میں مصدق کی برطرفی سے ابتک کی صورت، پاکستان میں مارشل لاؤں کی پشت پناہی،چے گویرا،بھٹو کی پھانسی کا ذکر مغیر نے جس انداز میں کیا۔متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ایسٹ تیمور کیلئے سپر پاور کی ممتا کا پھٹنا،افغان جنگ کے ہیرو پھر زیرو،القاعدہ کی تخلیق۔بخئیے اُدھیڑ دئیے تھے امریکہ کے تو۔
پھرمشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان ہندوستان پر بحث ہوئی۔یہاں مغرب کے لوگوں کی انسان دوستی، اُن کا احتجاج اور ان کے رویّے سامنے آئے۔ ٹونی بلیئر، اٹلی کے برکونی اور اسپین کے ایزناز پر طعن طعن کرنا،کھلے عام نعرے، مفادات کی لڑائی، طاقت ور کی طرف سے جنگ،نہ انصاف نہ امن۔ان کے پیش نظرعراقی عوام اور معصوم بچے تھوڑی تھے۔کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، انڈونیشیا اور ملائشیاحتیٰ کہ انڈیاتک کے لوگوں نے کیا۔
یہ لوگ احتجاج کے لئیے سڑکوں پر اس لئیے نکلے تھے کہ تیل کی دولت سے مالا مال عرب دُنیا پر سامراجیوں کو مزید دولت سمیٹنے کا موقع نہ ملے۔
سعودی عرب، اُردن اور مصر کے سربراہوں کے بدترین کرداروں اور رویّوں پر بحث ہوئی۔
دُنیا کی سُپر پاور۔بے غیرت اور جھوٹ کی پنڈ۔حملے کیلئے بہانے کیسے جھوٹے گھڑے؟صدام نے کیمیائی ہتھیار تلف کردئیے تھے اس میں کوئی شک نہیں تھا۔اس کا اعتراف بھی ہوگیامگر وہ بش کا پلّا ٹونی بلیئر اپنی سوانح حیات میں بکواس کئیے چلا جاتا ہے۔ملک تباہ کردیا۔اُسکے ہزاروں لاکھوں معصوم شہریوں کو بھینٹ چڑھادیا۔اب ٹونی بلیئر اور ڈک چینی اپنی یاداشتوں میں اپنی غلطیوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔لعنت ہے اِن پر۔ وہ واہیات ڈبلیو بش کا منہ چڑھا ڈپٹی چیف اف سٹاف کارل رو Karl Rove نے کس قدر نخوت سے کہا تھا۔
ہم ایک ایمپائر ہیں اب۔جب ہم کوئی کام کرتے ہیں ہم اس کے ہونے کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔اور جب دنیا ہمارے اِس جواز پر غوروخوض کررہی ہوتی ہے۔ہم نئی ترجیحات کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ(یعنی باقی دنیا)صرف یہی جاننے میں لگے رہتے ہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟
یاس بھری لمبی سانس لیتے ہوئے مجھے وہ وقت یاد آیا تھاجب تکبّر اور نخوت سے بھرے اس بیان کو میں نے غالباً ”دی نیوز“میں پڑھا تھا۔
موجودہ حکومت کے بارے میں پوچھا۔
”دلاّل ہیں اُنکے۔کِسی نے بیچ میں سے لُقمہ دیا۔جو چلا گیاوہ بڑا تھا۔یہ ذرا چھوٹے ہیں۔“
”عراق کا مستقبل کیا ہوگا؟“یہ سوال میں نے کیا تھا اور ڈرتے ڈرتے کیا تھا کہ اگر انہوں نے جواباََ مجھ سے پوچھ لیا کہ پاکستان کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟تو کیا کہوں گی۔میرے سامنے تو اندھیرے تھے۔اُمید کی کوئی کرن نہیں تھی۔اور یہاں بھی مجھے تاریکی ہی نظر آتی تھی۔
جنگ کے بعد ہمیں ایک موہوم سی اُمید تھی کہ شاید امریکہ عراق کو جاپان جیسی حیثیت دے دے۔یقیناََ ایسی صورت میں اُس کے سارے خون معاف ہو سکتے تھے۔بات ابھی جاری ہی تھی جب ابوالمنیب نے اُسے کاٹتے ہوئے کہا۔”ہم لوگ جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ہمیں جمہوریت راس آئی نہیں۔ہم متحد ہوئے نہیں۔حکمرانوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ خود کو ثابت کرسکیں۔جاپان کیا ساوتھ کوریا بھی ہمارے سامنے ہے جو تقسیم کے باوجود ایک بڑی اقتصادی طاقت بن کر سامنے آیا ہے۔یہ غیر مسلم ممالک تھے۔ہم مسلمان ہیں۔افغانستان کو دیکھ لیں۔کچھ کہنے کی ضرورت ہے کیا۔ فوج کے چند سینئر افسران کو اگر خریدا گیا تو وہیں ایک عنصر نے اسی سوچ کے تحت کچھ زیادہ مزاحمت بھی نہیں کی تھی وگرنہ قبضہ اتنا آسان بھی نہ ہوتا۔کاش یہ سب نہ ہوتا اِس جنگ نے مذہبی انتہا پسندوں کو اُبھارا۔ایران کو عراقی شیعاؤں کے طاقت میں آنے سے تقویت ملی۔ اس وقت تک حالات مایوس کُن ہیں۔شیعہ سُنی عنصر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہیں۔اور سامراج کے سارے راستے آسان ہوتے جارہے ہیں۔“
قہوہ بڑا کسیلا سا تھا۔ایک گفتگو کا کسیلا پن اور تلخی۔اُوپر سے گرمیئ موسم اور ستم بالائے ستم قہوے کی کڑواہٹ جو دو چینی کے چمچوں کے بعد بھی قائم تھی۔
دوپہر کا کھانا کینٹین سے کھایا۔اُبلے چاول اور پتلا سا شوربہ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply