جمالیات اور مذہب۔۔محمد وقاص رشید

جمالیات,ہمیشہ سے اہلِ مذہب کے ہاں حلت و حرمت کی کسوٹی پر پرکھا جانے والا موضوع ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ جمالیات اور فنونِ لطیفہ کے تمام نہیں تو اکثر اظہاریے انکے ہاں ممنوع ہیں تو غلط نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔اسکی وجہ کا اندازہ لگانے کے لیے طالبِ علم نے تھوڑا غور کیا تو کچھ ادراک ہوا۔
انسان خدا کا نائب ہے جسے خدا نے فطرتِ سلیم پر پیدا کیا۔یاد رہے مسلمان نہیں انسان سلامتی کی فطرت پر تخلیق کیا گیا۔فطرتِ سلیم کیا شے ہے۔میری نگاہ میں انسان اپنے خمیر میں مزہب ،ملک قوم ، رنگ ، نسل اور معاشی حیثیت وغیرہ کی تمام تر عصبیتوں سے پاک ایک فلاحِ عامہ کی جمالیاتی فطرت لے کر پیدا ہوا۔

عصبیت کیا ہوتی ہے ؟طالبِ علم کی ادنیٰ نگاہ میں سچ اور جھوٹ کے استدلالی پیمانے سے ماورا نظریات کو عصبیت کہتے ہیں۔۔۔ عصبیت کیونکہ دنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔۔ اس لیے بد قسمتی سے اس سے نہ ماں کی گود یعنی پہلی درسگاہ محفوظ ہے نہ ہی سماج کی درسگاہ۔۔۔نہ انسان کا گھر اس سے امان میں ہے نہ خدا کا۔۔

زندگی یہاں تین عہود میں تقسیم ہے۔ بچپن ، جوبن اور بڑھاپا۔ ہماری فطری جمالیات سب سے زیادہ کس عہد میں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔  وہ عہد جسکی حسین یادیں جوانی اور بڑھاپے تک دل کو کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔  وہ عہد ہے بچپن کا۔۔۔۔ ہے ناں ؟۔۔۔اور اس عہد کو معصوم ہاتھوں سے عصبیتوں کی چیلیں اچک لیتی ہیں۔  خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان عصبیتوں ، نفرتوں ، تفریقوں اور تقسیموں تلے دب کر اپنے اندر کے بچے کو مرنے نہیں دیتے۔

جمالیات کا تعلق فطرت سے ہے اور ایک بچہ ،بچی فطری جمالیات کا مظہرِ عین ہوتا یا ہوتی ہے۔۔۔وہ جب جی چاہے کوئی گیت گا لیتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے اسکا ہر اظہاریہ اپنے اندر ایک موسیقیت لیے ہوئے ہوتا ہے ،وہ معصومانہ خوشیوں کے خالص سازوں پر جھوم لیتا ہے ، کاغذ تو کیا خدا کے اس خاکی کینوس پر کسی تنکے سے اپنے معصوم ذہن کی عکاسی کرتی تصویریں بنا لیتا ہے۔
غور فرمائیے گا کیا یہی وہ جمالیات کے اظہاریے نہیں جو روائیتی اہلِ مزہب کے ہاں حرام و ممنوع ہیں۔ ؟

ایک حدیث میں آتا ہے “اللہ جمیل و یحب الجمال ” کہ اللہ خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ اگر اسے اشرف المخلوقات کے دائرے میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کیا خالقِ کائنات اپنے ہی بنائے ہوئے( دنیا پر رائج پیمانوں کے مطابق) بد صورت لوگوں کو نا پسند کرتا ہے۔ ؟ کیا عادل و منصف اور مساواتِ پیہم کی تلقین کرتا خدا خود اپنے ہی” کُن ” کی تقسیم کی بنیاد پر پسند و نا پسند کی لکیریں کھینچتا ہے۔۔۔جی نہیں اس حدیث میں طالبِ علم کی بساط بھر تحقیق کے مطابق اسی جمالیاتی فطرت کی بات ہو رہی ہے جسکا مظہر ایک بچہ یا بچی ہوتے ہیں۔۔۔ تمام تر عصبیتوں سے پاک۔۔۔۔ ہر کسی کے لیے خیر اور فلاحِ عامہ کے سفیر۔۔۔۔ کسی انسان تو کیا جانور کو بھی تکلیف میں نہ دیکھ سکنے والے۔۔۔ جگنوؤں کی کرنوں اور تتلیوں کے رنگوں سے پیار کرنے والے۔
یہ کائینات خدا کی جمالیاتی قدرت کا شاہکار ہے۔۔پرندوں کی آوازوں سے لے کر جھرنوں چشموں اور آبشاروں کی صداؤں تک ہر جگہ ایک موسیقیت ہے ایک عظیم ترین صاحبِ ذوق خدا کے سازندے ہیں یہ سب ،طلوعِ سحر میں شفق کے گالوں کی لالی ہو ،دن ڈھلے نیلگوں آسمان کے پیکر پر دھوپ کی سرسوں بکھری ہو ،غروبِ آفتاب کے وقت افق کی پلکوں پر سرمئی کجلے کی دھاریں ہوں یا رات کے عالم میں سیاہ آسمان کی شال پر چاند ستارے ٹانکنے کا منظر اور چاندنی سے غسل کرتی زمین۔۔۔۔یہ سب شاہکار مصوری کے حسین ترین فن پارے ہیں۔۔۔پوری نظامِ شمسی ایک رقصِ مدہم میں ہے۔۔۔پھولوں کی رنگت و خوشبو ،پھلوں کی ہیت و شیرینی ، پہاڑوں ،میدانوں ،کھلیانوں صحراؤں اور سمندروں کی اپنا اپنا الگ تھلگ حسن و جمال فطرت کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے سے لے کر فضاؤں کی سماعتوں میں چیخ چیخ کر کہنے تک یہی تو باور کروا رہا ہے کہ خدا حسن و جمال کا سب سے بڑا تخلیق کار ہے خدا ہے نے یہی جمالیات اپنے نائب اپنے خلیفہ حضرتِ انسان کی فطرت میں رکھی ہے۔ ۔اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے خدا کی تخلیقات کا ایک جمالیاتی جائزہ ہی تو مزہب ہے۔۔۔۔۔اور اس جائزے کے نتیجے میں تعریف اور شکر گزاری کے عبدی اظہار کا نام عبادت ہے۔۔

خدا کا سچا کلام بھی ہم سے یہی کہتا ہے کہ اس نے اپنی ہر تخلیق میں اشرف المخلوقات کے غورو فکر کرنے کے لیے نشانیاں رکھی ہیں۔۔افلا یتدبرون (کیا تم تدبیر نہیں کرتے) ۔۔۔۔اب تدبیر ،غورو فکر اور سوچ بچار کا حکم دینے والے خدا نے اس انسان کو اپنا خلیفہ ہونے کا یہ شرف بخشا ہی اس لیے کہ وہ اس خرد یعنی عقل رکھتا ہے۔۔۔۔اسکا مطلب یہی ہے کہ خدا انسان کو غورو فکر کر کے فہم و فراست کے ذریعے اسکی جمالیاتی قدرت کی نشانیوں کو اپنی فکری تحقیق کے نتیجے میں خود تک پہنچتے دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔انسان احسنِ تقویم یعنی بہترین صورت میں پیدا ہوا لیکن باقی تمام مخلوقات کا سردار اپنی عقل کی بنیاد پر قرار پایا۔

ایسے معاشرے جنہیں ہم رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں سکونت اختیار کرنا یہاں کے عامیوں کا خواب اور خواص کی تعبیر ہے ۔ کبھی غور فرمائیں تو پتا چلے کہ صرف ایک صفائی نصف ایمان ہی کو لے لیا جائے تو وہ کم از کم آدھے ایمان دار نظر آتے ہیں۔۔۔وہاں جمالیات کو انسانیت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ خدا خود تو جمالیات کا خالقِ واحد ہو اور اس نے اپنے نائب کو اسی جمالیات کی لطیف فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہو ۔۔۔اور اس پر ایک مزہبی قدغن ایسی لگا دے کہ اس نے اپنی فطرت کی نفی کرنی ہے۔۔۔۔عمر بھر اپنے جمالیاتی احساسات کا گلا گھونٹنا ہے ؟جی نہیں ایسا کیونکر ممکن ہے ؟

غور کرنے سے طالبِ علم یہ پتا چلا کہ انسان کو خدا نے فطرتِ سلیم پر پیدا کیا۔۔۔اسی فطرت کو عصبیتوں سے بچاکر اپنی سرشت کی جمالیات کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق قائم رکھنے کے دین کو سلامتی کا دین کہا۔۔۔ عربی زبان میں جسے اسلام کہتے ہیں

تو پھر کس نے کب اور کیسے اسلام کو معاذاللہ جمالیات کا مخالف نظریہ بنا کر پیش کیا ؟  ۔میری نگاہ میں انسان دو متضاد حقیقتوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک ظاہر ایک باطن ، ایک مرئی ایک نادیدہ ، ایک زمین سے اٹھ کر خاک ہی میں مل جانے والی۔۔ ایک آسمان سے پھونکی گئی آسمان ہی طرف پرواز کر جانے والی ۔ جی ہاں ایک جسم ایک روح۔۔ اسلام روحانی تطہیر ،دل کی پاکیزگی اور نیک نیتی کا مزہب ہے۔۔۔۔ اسی لیے خدا نے نیت کا علم صرف اپنے پاس رکھا اور دین کی تمام فلاسفی “انما الاعمال بالنیات ” یعنی اعمال کا دارومدار نیات پر ہے” میں سمو دی۔۔۔۔کائینات کے سب سے نیک نیت انسان کو خدا نے اپنا آخری پیغمبر ص بنایا۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے اعمال کا دارومدار باطن سے ظاہر میں تبدیل کرنے میں جو سعی کی وہ اس وقت ہمارے ہاں اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ چکی ہے۔  ہم نے باطن کی ایک آفاقی فلاسفی کو ظاہر کی چند نشانیوں میں قید کر دیا۔۔۔ خدا نے نیت کا علم اپنے پاس رکھا ہی اس کیے کہ انسان باطنی تقوی کی نشانیوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہو۔۔ ۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اسلام کو ایک ظاہر کی کسوٹی بنا کر اسے فرقوں کے کاروبار اور ذریعہِ معاش میں گھری ایک عصبیت بنا دیا۔

جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عصبیت کے تحت اب ہم نے چند ظاہری تصنع کے معیارات اور پیمانے بنا لیے جن پر ہر کسی کو پرکھا جاتا ہے اور انکے بارے میں حساسیت اور جذباتیت کے ذریعے دوسروں پر اپنی دینی اور مزہبی دھاک بٹھائی جاتی ہے اور اپنے حق میں ہیجانی نعرے لگوا کر ایک ایسے احساسِ برتری کے زعم میں مبتلا ہوا جاتا ہے جو جمالیات کی ضد ہے۔۔۔۔وہی بچے کی مثال جو بچپن میں یہ نہیں دیکھتا اسکے ساتھ پڑھنے اور کھیلنے کودنے والے بچوں سے وہ زیادہ نیک ہے ،امیر ہے ، اونچی ذات کا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ سلامتی کا دین نے تو یہ بچے جیسی جمالیات عمر بھر قائم رکھنے، فلاحِ عامہ استوار کرنے اور نیتوں کو تمام تر عصبیتوں سے پاک کرنے کے لیے اتارا گیا تھا۔۔۔ اور ہم نے بذاتِ خود اسے ہی ایک الگ عصبیت میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔۔۔۔یہ انسانیت کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لیے تضادات سے بھرپور مزہبی زعما جمالیات کے اظہاریوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔۔۔فرض کیجیے موسیقی کو لیجیے۔۔۔۔۔ کیونکہ عام آدمی یعنی مزہبی پیشواؤں کے نزدیک گنہگار آدمی موسیقی سے اپنی حسِ جمالیات کو تسکین دیتا ہے۔ مذہبی پیشوا کیونکہ خود کو اس سے برتر گردانتے ہیں اور اسی جیسا جمالیاتی اظہاریہ اپنانے سے اس برتری کو ٹھیس پہنچے گی اور لوگوں کی نظروں میں وہ عام آدمی کی طرح کہلائیں گے جسے انہوں نے صدیوں کی مشقت سے خود سے کمتر ثابت کر کے پیروں میں بیٹھنے اور گھٹنوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور کیا اور وہ اپنی اسی احساسِ کمتری کا خراج ہمیں دے کر اپنے لیے آسمان پر اور ہمارے لیے زمین پر “جنت “قائم کیے ہوئے ہے تو ایسے میں کاروباری مفادات کو خدا کی منشا کہنے کے لیے محض جوشِ خطابت درکار ہوتی ہے۔۔۔۔ کیونکہ جوشِ خطابت ذہنوں میں سوال پیدا ہونے کے احتمال کو بھی دبا کر وہاں سے ہیجانی نعرہ بلند کروا لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔جوشِ خطابت کے زیراثر ذہن یہ بھی نہیں پوچھ سکتا۔۔۔۔کہ شیطان کے چرخے ابلیسیت کے سازندے یہ میوزیکل انسٹرومنٹس قوالی میں بج کر حلال کیسے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔؟
اس تمہید کی روشنی میں آنے والی تحریر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک موٹی ویشنل سپیکر ساحل عدیم صاحب کی اس ویڈیو کے متعلق غور و فکر کریں گے جس میں انہوں نے موسیقی کو سائنسی اور طبی لحاظ سے اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply