• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرپشن کی جڑ: الیکشن میں ہوش ربا اخراجات(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

کرپشن کی جڑ: الیکشن میں ہوش ربا اخراجات(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

سینٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں بھارت میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کئے۔ جس میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کئے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کئے گئے ہیں اور ایک پارلیمانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کئے گئے ۔ تقریبا 200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کئے گئے اور 50بلین روپے لا جسٹکس وغیرہ پر خرچ کئے گئے۔ ماضی کی طرح سیاسی پارٹیاں اب عوامی چندہ پر چلتی ہیں نہ الیکشن میں نامزد امیدوار اپنے حلقہ میں چندہ کی کوئی مہم چلاتا ہے۔ ان حالات میں وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے ؟ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں، تو اسکے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟ میڈیا اسٹیڈیزادارے کے سربراہ این بھاسکر رائو کے مطابق 2024کے عام انتخابات میں بھارت میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ معروف پاکستانی بیورو کریٹ او ر غالباً جموں و کشمیر کے دوسرے سول سروس آفیسر قدرت اللہ شہاب نے اپنی تصنیف شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے۔ جو جنوبی ایشیاکے الیکشن سسٹم پر فٹ آتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ پیسہ کہیں سے وصول تو ہونا ہی ہے اور عوام کی جیبوں سے اسکو برآمد ہونا ہے۔ انتخابات کو سہل اور کم خرچ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اورکرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ جمہوریت کا واحد مقصدعام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنا وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔ بد عنوانی کی جڑ ہی شخصیت پرستی اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے زرکا استعمال ہے۔ یورپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈنمارک اور دیگر کئی ممالک میں انتخابی مہم چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سابق الیکشن میں جو پارٹی قومی اور علاقائی سطح پر جتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اسی حساب سے اسے رقم دی جاتی ہے۔چند برس قبل ڈنمار ک کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مجھے بتایا کہ الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر 20,000 ڈالر خرچ کئے تھے، لیکن انہیں اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ رقم پارٹی اور سرکار ی فنڈ سے ملی تھی۔ ان ممالک میں انتخابی مہم بھی مختصر ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔ انتظامی ڈھا نچہ بھی ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ ضرورتوں کے لئے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباً اس سے بھی ملک کو بدعنوانی سے پاک رکھنے میںمدد ملی ہے۔کم و بیش یہی صورت حال میں نے اسرائیل میں بھی دیکھی ہے۔ ان ممالک میں بد عنوانی دفاعی اور دیگر ممالک کے ساتھ سودوں میں اعلیٰ سطحوں پر ہوتی ہوگی، مگر اندورن ملک نچلی سطح پر یا سیاسی سطح پر بہت ہی کم ہے۔ ان ممالک کے لیڈر ان بھی سادگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں اس لئے شاید ان کو کرپشن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ موہن داس کرم چند المعروف مہاتما گاندھی نے 1937ء میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کو اپنے خط میں لکھا تھاکہ ”کانگریسیوں کو یہ نہیںسمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے‘ جس کا مظاہرہ وہ1920ء سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لئے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔ البتہ پیغمبراسلامﷺحضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر ؓنے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔ اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 ء سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہر گز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دکھاوا اور نمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی کی ان نصیحتوں کویورپی ممالک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے جس کا انجام آج عوام کو بد حالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply