پرشکوہ اربعین، پرامن پاکستان۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کسی بھی ریاست میں پرامن ہونے والے اجتماعات سے اس ریاست میں امن و امان کی صورتحال کو جانچا جاتا ہے۔ جب کسی ریاست میں امن نہیں ہوتا تو اس ریاست میں عام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتی ہے، لوگ اجتماعات کا خیال ہی دل میں نہیں لاتے۔ جب طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تھا اور فاٹا کے حالات بھی قابو میں نہیں آ رہے تھے، اس وقت مذہبی و سیاسی اجتماعات کا انعقاد انتہائی مشکل ہوگیا تھا اور بہت سے اجتماعات میں سینکڑوں لوگ شہید ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ غالباً خیبر ایجنسی کی ایک مسجد میں دھماکے سے ایک ہی واقعہ میں سینکڑوں لوگ شہید ہوگئے۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت مشہور صحافی سلیم صافی نے ایک کالم لکھا تھا کہ میری ماں میرے گھر پر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتی تھی، جب سے مساجد میں یہ دھماکے شروع ہوئے ہیں، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کروں۔ یہ صرف ایک ماں کی خواہش نہیں تھی، یہ پاکستان کے ہزاروں لاکھوں گھروں کا قصہ ہے۔

بدامنی نے ہم سے ہماری تہذیب چھین لی، خشک داعشی مذہبی تفہیم نے معاشرے سے ہر اس سرگرمی کو مٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے، جس میں لوگوں کی خوشی کا سامان ہو۔ بدامنی اور خود ساختہ تھریٹ کا بہانہ کرکے صدیوں سے لوگوں کی عقیدتوں کے مراکز بزرگان دین کے مزرات پر منعقد ہونے والے میلے کم و بیش ایک دہائی تک بند رہے۔ اس عمل نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور نسل در نسل منتقل ہونے والی تہذیبی عادات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ میلے، کھیلوں، ڈراموں اور خرید و فروخت کا پورا شہر ہوتے تھے، ہمارے بچپن کی خوشگوار یادوں میں وہ میلے بھی شامل ہیں، جس میں لوگ قافلہ در قافلہ شریک ہوتے تھے۔ میلے سے واپسی پر میلے سے خریدی مٹھائیاں اور کھلونے پورا سال یاد رہتے تھے اور انتظار رہتا تھا کہ کب وہ میلا دوبارہ آئے گا۔ بدامنی اس حد تک بڑھی کہ ہمیں اپنے سکول بھی بند کرنا پڑے، ہماری نونہال نسل کا تعلیمی حرج ہوا، داعشی خوارج تو یہی چاہتے تھے کہ لوگوں کو مکتب سے دور کر دیں۔ ان حالات میں ہماری مسلح افواج نے بڑی دلیری سے ایسے عناصر کا قلعہ قمع کیا اور اب انہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان کا اصلی چہرہ پیش کریں، وہ چہرہ جس میں مذہب پر فخر اور وابستگی ہے مگر تشدد نہیں ہے، جس میں تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔

یاد رکھیں صدیوں سے جاری اجتماعات کی جڑیں اتنی کمزور نہیں ہیں کہ کچھ عناصر کی دھمکیوں سے لوگ انہیں ترک کر دیں گے۔ عزاداری سید الشہداء ؑ کو ہی لے لیں۔یہ شیعہ سنی کی مشترکہ میراث ہے، ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہو تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ صرف جھنگ، چنیوٹ اور ملتان کے تعزیہ کے جلوسوں کے لائسنز چیک کر لیں، انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اکثر جلوس اہلسنت نکال رہے ہیں۔ ابھی کرونا کے ایام میں پچھلے سال خبر آئی تھی کہ خواجہ غریب نواز کی درگاہ سے دس محرم کو نکلنے والا جلوس سات سو سال میں پہلی بار نہیں نکل رہا۔ اس پر وہاں کی انتظامیہ شدید اضطراب میں تھی کہ جلوس نکلنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ مغل اور دیگر بادشاہوں نے برصغیر میں مذہبی آزادی دی یا مذہبی آزادی سلب کی؟ اسے جاننے کا ایک پیمانہ عزاداری رہا ہے۔

یاد رکھیں عزاداری کی صورتیں، شکلیں زمانے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہیں، اصل بات یہ ہے کہ واقعہ کربلا کو زندہ رکھا جائے، یزید و یزیدیت سے نفرت لوگوں کے دلوں پیدا کی جائے اور اسلام کے بول بالا کے لیے خاتم الانبیاءؑ کے نواسے کی قربانی کے تذکروں کو گلی گلی محلہ محلہ عام کیا جائے۔ پچھلی ایک دہائی سے جلوس ہائے عزاء کو جس انداز میں کرفیو نما ماحول میں محصور کر دیا گیا تھا، عام عزادار اس سے بہت پریشان تھا۔ اس سے عزاداری کا مقصد ہی پورا نہیں ہو رہا تھا، ان حالات میں پچھلے سال مسلمانان پاکستان نے عراق کی مشی سے روشنی لیتے ہوئے پاکستان میں مشی کا اعلان کیا۔ یہ مشی بھرپور انداز میں کامیاب ہوئی اور اس سال تو کمال ہوگیا، یوں لگ رہا تھا پورا ملک سڑکوں پر ہے۔ اہلیان پاکستان نے مشی کی روایت کو نئی شکل دے دی۔

کراچی سے سکردو تک اور کوئٹہ سے پارا چنار تک ہر طرف سید الشہداءؑ کا پرچم اٹھائے لوگ سڑکوں پر تھے۔ سڑکیں کھلی رہیں، ٹریفک چلتا رہا اور کافی مدت بعد عام پاکستانی نے دیکھا کہ کس طرح پرامن انداز میں سیداالشہداءؑ کے ماننے والے ان کی یاد منا رہے ہیں۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں ہو کہ یہ کسی تنظیم یا کسی شخص کا کارنامہ ہے، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ عام پاکستانی ہیں، جو امام حسین ؑ سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے گھروں سے باہر نکلے ہیں۔ یہ ان رکاوٹوں کا تہذیبی ردعمل بھی ہے، جو عزاداری پر سکیورٹی کے نام پر عائد کر دی گئیں تھیں۔ یاد رکھیں پاکستان میں گلی گلی سے قافلوں کی صورت اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہوئے مراکز عشق و محبت تک جانا نئی بات نہیں ہے۔ سخی سرور کے سنگ پر پورا جنوبی پنجاب اکٹھا ہوتا ہے اور جگہ جگہ سے قافلے جا رہے ہوتے ہیں۔ پیر حاجی شیر کی جماعتیں پورے وسطی پنجاب میں اونٹوں پر جھنڈے لگائے گھومتی رہتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سخی شیر کی گائیوں کے ریوڑ کے گلے میں پٹکے بندھے ہوتے ہیں، نیلی اور صاندل بار پورے ریجن میں گھوم رہی ہوتی ہیں۔ قلندر کے قافلے قلندری رنگ میں پورے ملک سے چلتے ہیں اور سہون پہنچ کر دم لیتے ہیں، بری سرکار کی ڈالیاں پورے اسلام آباد سے دربار تک پہنچتی ہیں۔ تبلیغی جماعت کے لوگ جماعت کی شکل میں اپنا مقصد و مشن لے کر گاوں گاوں بستی بستی گھومتے ہیں۔ مشی رکنے والی نہیں ہے، اس کے خلاف ردعمل اور اسے متنازع بنانا درست نہیں ہے۔ شریف اور تعلیم یافتہ لوگوں پر صرف اس لیے ایف آئی آرز کا اندراج کرنا کہ وہ امام حسینؑ کا جھنڈا تھام کر گھر سے پیدال مرکزی جلوس تک کیوں گئے۔؟ پرلے درجے کی نا انصافی ہے۔ پاکستان کا آئین و قانون ہر قسم کے اجتماع کی اجازت دیتا ہے۔ یاد رکھیں، اتنے بڑے پیمانے پر وطن عزیز میں ہونے والی مشی دنیا بھر میں پرامن پاکستان کا تشخص ابھار رہی ہے۔ واقعاً میرا وطن الحمد للہ پرامن ہوگیا ہے، خدا اسے نظر بد سے بچائے اور یونہی یہاں حسین ؑ حسینؑ کی صدائیں فضاوں میں رس گھولتی رہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply