کیا خواجہ سرا انسان نہیں؟۔۔کشف چوہدری

کیا کبھی آپ نے سوچاہے اگر آپ کا شمار بھی ہمارے معاشرے کے اس طبقے میں ہوتاجنہیں آپ ہتک آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اورخدا کی نامکمل تخلیق سمجھتے ہیں او رخواجہ سرا یا اور بہت سارے تضحیک آمیز ناموں سے پکارتے ہیں۔ جب بھی کسی خاندان میں خواجہ سرا  کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ نہ صرف ماں باپ،بہن بھائی بلکہ ارد گرد کے لوگ بھی ا نہیں اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس ظا لم سماج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جس کے بعد اسے خواجہ سراہی پناہ دیتے ہیں۔ ان خواجہ سراکا ایک گُرو ہوتا ہے جو ان بچوں کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کرتا ہے اور روزی کمانے کاڈھنگ سکھاتا ہے ،ان خواجہ سراؤں کو معاشرے میں جینے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔کیونکہ انہیں ہر طرف سے ہی   دھتکار دیا جاتاہے ۔میں ان لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہیں ؟ سب سے پہلے تو ہمیں گھر والوں کی تربیت کرنی ہو گی ،اس کے بعد معاشرے کی۔ آپ نے کبھی ان کے کرب اور جس ذہنی اذیت کا وہ شکار ہوتے ہیں اس کے بارے  سوچا بھی ہے؟ جب خواجہ سرا کے بارے میں بات ہو تو صرف یہ چیز ذہن میں آتی ہے کہ یہ ناچتے گاتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں اس کے علاوہ انکا اور کوئی تاثر نہیں۔ان کو بھیک مانگنے اور ناچنے گانے کی طرف بھی دھکیلنے والے اور زندگی کے سبھی در ان پربند کرنے والے   ہم لوگ ہی ہیں۔معاشرے کا ان سے یہ امتیازی سلوک انہیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا اور یہ مجبوراً ناچنے گانے یا بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ہماری اکثریت مرد اور عورت کے حقوق کے بلند وبالا دعوے کرتے تو دکھائی دیتی ہے، لیکن کبھی معاشرے کے اس طبقے کی طرف کسی نے دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، کہ بطور فرد وہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ بوڑھوں سے لے کر نوجوانوں تک ہرشخص کے ہاتھوں مذاق اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی اس مخلوق کو انسانیت کے درجے پر فائز ہی نہیں سمجھتے۔نیشنل ڈ سکرمنیشن سروے کے مطابق دنیا میں 41% خواجہ سرا اپنی زندگی میں خودکشی کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔نفسیاتی امراض کے ماہرین کے مطابق ا نسانوں کے ذہنی امراض کی وجوہات میں اس معاشرے کی طرف سے ٹھکرایا جانا، آگے بڑھنے کے مواقع کا نہ ہونا، جنسی تشدد اور معاشرے کا امتیازی سلوک سرفہرست ہیں ۔جو ایک خواجہ سرا اپنی آخری سانس تک جھیلتے ہیں۔معاشرے کی یہ ٹھکرائی ہوئی مخلوق ہسپتالوں میں بھی قابل ذکر توجہ اور علاج کی سہولیات حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔

2016 ،پشاور میں علیشانامی خواجہ سرا کو ہسپتال کس وارڈ میں رکھنا ہے، یہ مسئلہ درپیش رہا اوروہاں کا عملہ علیشاکے ساتھ آنے والوں سے عجیب و غریب سوالات پوچھتے رہے۔ علیشاتو اب اس دنیا میں نہیں رہی مگر ہمارے اس بد نما معاشرے کے لیے جو کہ منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اس کے لیے ڈھیروں سوالات چھوڑ گئی۔آپ اگر ان کی کوئی چارہ جوئی نہیں کر سکتے تو کوشش کیجیے ان کے لیے با عث اذیت بھی نہ  بنیں۔  غور کر لیجیے  کیا اس معاشرے میں سبھی اصناف کو یکساں آزادی اور حقوق حاصل ہیں؟ یا پھر ہم خواجہ سراؤں کو معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھتے؟حال ہی میں پاکستانی ماڈل واداکارہ ایمان علی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ  انہیں اپنا چہرہ پسند نہیں ہے جبکہ لوگ انہیں خوبصورت کہتے ہیں اورانہیں اپنا آپ خواجہ سرا جیسا لگتا ہے۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں شایدکہ وہ خواجہ سرا برادری کے بارے میں براہ راست تنقیدی کلمات ادا  کر رہی ہیں۔یہ ہمارے پورے معاشرے میں کیا جاتا ہے کسی کی تحقیر کے لیے خواجہ سرا سے تشبیہ دینا تو عام ہے۔ اگر ہم اتنا سمجھ لیں کہ وہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں اس میں انکا کوئی عیب نہیں ہے یہ ہم میں سے بھی کوئی ہو سکتا تھا تو شاید کچھ سدھار آجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 10313 ہے۔ لیکن اس کمیونٹی کے بڑے ان اعداد و شمار کو نہیں مانتے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے تحت تشکیل دی گئی ایک رپورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی رِٹ پٹیشن میں خواجہ سرا برادری کی تعداد 18 لاکھ بتائی گئی ہے۔ جب پاکستان میں پہلی خواجہ سرا اینکر پرسن کو نیوز چینل نے نوکری پہ رکھا تو جس چینل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے انہیں بھی اسکا علم ہوگیا اس سے معاشرے میں انکا ایک سافٹ امیج قائم ہو گیا لیکن اس کے بعد کیا اس خواجہ سراکو چھ ماہ بعد ہی نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے پراجیکٹ میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا افسرکے کانٹریکٹ میں ایک سال بعد توسیع نہیں کی گئی تھی۔ ڈھیروں خواجہ سرا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی نوکری حاصل نہیں کر پاتے۔لوگ ان کے بارے میں جو ایک رائے قائم کر کے بیٹھے ہیں اس کی وجہ سے انہیں ان گنت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا بجا ہو گا کہ کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر تشہیر اور اپنا سافٹ امیج قائم کرنے کے لیے خواجہ سرا اکا استعمال کر تی ہیں؟ملک میں خواجہ سرا کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی بل پاس تو کر دیا ہے۔ دا ٹرانس جینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس بل 2018 جو اب ملکی قانون کا حصہ بن چکا ہے اس کی تیاری میں ملک کی پہلی خواجہ سرا لیکچرر عائشہ مغل نیشنل ٹاسک فورس کا حصہ تھیں۔لیکن یہاں اداروں کو بھی چاہیے کہ انہیں معاشی مواقع فراہم کریں تا کہ یہ طبقہ بھی آگے بڑھ سکے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار اداکر ے ہمیں سکول لیول پر ہی بچوں کو جینڈر سٹڈیز پڑھانی چاہیے انہیں تیسری صنف کے بارے میں مثبت چیزیں بتانی چاہئیں ، کیونکہ اگر بچپن سے ہی انہیں یہ چیزیں سمجھ آجائیں گی تو وہ آنے والے کل میں بہتر طریقے سے چل سکیں گے لیکن اس میں ابھی بہت وقت لگے گا کیونکہ سوچ بدلنا آسان کام نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply