• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک مزاحمت کار اور معاشرتی انقلابی ناٹک کار: بادل سرکار ۔۔احمد سہیل

ایک مزاحمت کار اور معاشرتی انقلابی ناٹک کار: بادل سرکار ۔۔احمد سہیل

بادل سرکار، 15 مئی 1925 کو مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ وہ بنگالی زبان کے ڈرامہ نگار اور پیش کار ہیں ۔ وہ بنگال اکاڈیش چرچ انجینئرنگ کالج (سول) سے فارغ التحصیل ہیں۔ مگر انھوں نے انجینئرنگ کو کبھی اپنا پیشہ نہیں بنایا۔1992 میں بادل سرکار نے”   ماسٹر آ ف آرٹ کی سند تقابلی ادب” میں جاد و و  پور{Jadavpur} یونیورسٹی ، کولکتہ ، مغربی بنگال سے حاصل کی۔ انھون نے ہندوستاں، لندن اور نائجیریا میں بحیثیت ” ٹاؤن پلانر”( town planner)کے بھی کام کرتے رہے۔

انہوں نے 1970 کی دہائی میں بنگال میں “نکڑ  ناٹک” (اسٹریٹ تھیٹر) کی بحالی اور فروغ میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے ڈرامے بنیادی طور پر حکومت شکن ( اینٹی اسٹبلشمنٹ) ہوتے تھے۔جب  بھارتی حکومت نے نکسلیوں کے خلاف متشدد  استبدادی خونی کھیل کھیلا  تو بادل سرکار نے اپنے نکڑ ناٹک کی وساطت سے اس ریاستی قہر کے خلاف نعرہ بغاوت بلند  کرتے ہوئے حکومت سے ٹکر لی اور بنگالی تھیٹر کی روایت میں نئے عوامی احتجاجی، مزاحمتی اور انقلابی رویوں کو روشناس کروایا۔ اس کو ” تیسرا تھیٹر” یا “بھوما” تھیٹر بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں شہری معاشرت کی بازگشت ہوتی تھی۔

” نکڑ  ناٹک”(اسٹریٹ تھیٹر) کے ساتھ ساتھ بادل سرکار تجربہ کار اور معاصر بنگالی تھیٹر میں بھی وہ ایک مساوی “تیسرا تھیٹر” کی اہم شخصیت ہیں ، انہوں نے اپنی آنگن منچ (آنگن اسٹیج) کی پرفارمنس کے لیے اسکرپٹ لکھے اوروہ ایسے ہندوستانی ڈرامہ نگاروں میں بھی شامل ہیں   جنہوں  نے غیر ملکی اور دیگر مقامی زبانوں کے ترجمے کیے، اور انھیں  اسٹیج کی زینت بنایا۔   ان میں سے اگرچہ ان کے  کئی ابتدائی ڈرامے مزاحیہ نوعیت کے تھے۔ جو بہت   مقبول ہوئے۔ اس میں ایونگونگ اندراجیت ( اندراجیت) کی مشاورت حاصل تھی۔ جو ہندوستانی تھیٹر میں ایک اہم ڈرامہ بن گیا اور 1960 کی دہائی میں ایک ممتاز ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ان کا عروج بنگالی زبان میں جدید ہندوستانی ڈرامہ نگاروں کے دور کی طرح دیکھا جاتا ہے ، جیسے وجے تنڈولکر نے مراٹھی میں ، ہندی میں موہن راکیش ، اور کرناٹک میں گیریش کرناڈ نے بام عروج تک پہنچایا۔

بھوک اور اس کی شدت سے زندگی کی تلاش کے موضوع پر ڈرامہ بھوما( Bhoma )اسٹیج کیا۔ جو مراعات یافتہ شہری ہندوستانی کا ضمیر ہے۔ اس ڈرامے نے دیہی علاقوں میں بقا کی جدوجہد کو نہایت ہی شدت کا نشانہ بنایا ہے جب متوسط ​​طبقے کے باشندے کے خودساختہ نوعیت کے معمولی خدشات ہیں جب یہ دوسری کئی معاشرتی اور سیاسی حقیقتیں  ان کی روز مرہ زندگیوں میں داخل ہوتی ہیں ۔
بادل سرکار نے نے جو جمالیاتی اور سیاسی نظریات اور  ڈرامائی اظہار کی جو ماہرانہ تکنیک اس ڈرامے میں استعمال کی تھی اس پر بھی قدامت پسند حلقوں اور حاکمیت ( اسٹبلشمنٹ) کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔   ایک طویل عرصے سے مداح سونترا بنرجی نے اپنے” تیسرے تھیٹر” کے اس مرحلے پر ان ڈراموں کے بارے میں لکھا تھا۔ “اگرچہ ان کے ڈرامے کسی اصل خیالات کے ساتھ سامنے نہیں آئے ہوں گے ، اس کے باوجود معاشرتی انصاف کے عزم اور اس کی ترجمانی میں ان کی عمدہ مہارت اس تھیٹر کی اصطلاحات میں اس کے جادوگر  طلباء کی مدد سے دلچسپ تجربات کرتے ہوئے ان لوگوں نے اپنے تجربات کے مختلف مراحل میں غیرمحسوس ہی رہے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے انتخاب کے معاملات میں توجہ کی ایک خاص کمی ہے، جو اپنے مزاج اور اصل میں ان سے نمٹنے میں مستقل مزاجی کی کمی ہے۔ وہ ایک ہی ڈرامے کے دائرہ کار  میں بہت ساری مشکلات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ غریبوں کی معاشی حالت ، سرمایہ دارانہ نظام جو اس حالت زار کا سبب بنتا ہے، استحصال غریبوں کے سامنے سیاسی ترجیہات اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے درمیانے طبقے کے دانشور ، فوج ، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی نوعیت اس کا من مانا قانون اور حکم وغیرہ سے جوہری جنگ کے خطرے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ یہ تمام جہت یقینی طور پر ہندوستان کی صورتحال کے سیاسی تجزیے کے لئے موزوں ہیں ، بادل سرکار کسی نہ کسی طرح ان مختلف خطوں کو جوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور اسے ایک مزاحیہ تھیٹر میں تبدیل کردیتے ہیں۔

یہ بات قابل فہم ہے جب کوئی نقاد کسی مخصوص ڈرامے کو لکھتے ہوئے اپنے “پیغام” کے مشمولات میں توجہ مرکوز نہ کرنے پر کسی ڈرامہ نویس پر پابندی لگاتا ہے۔ بنرجی کی بادل سرکار کے ڈراموں پر تنقید ان کے اپنے سیاق و سباق میں ہی درست ہے۔ بادل سرکار کے ڈرامے سن 1972 کے بعد سے غریبوں اور ذمہ دار دیہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچنے میں کامیاب رہے جن کا ابلاغ بھی موثر رہا۔  جنہیں اس وقت تک اقتداری حکمران طبقے نے نظرانداز کردیا تھا۔ اس کے ڈراموں نے نہ صرف ان کا اعتماد ایک ڈگری پر بحال کیا بلکہ ان میں خودغرضی کا احساس پیدا کیا۔ یقیناً یہ انقلابی جمہوری سوچوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ جس نے ہندوستانی ڈ رامے اور تھیٹر کو نئی تنویریت معاشرتی اور سیاسی آگاہی   سے  روشناس کروایا۔ جس میں ڈرامے کی تازہ جمالیات بھی شامل تھی۔

بادل سرکار نے” اے دم انارجیت”، ” باقی اتہاس( تاریخ)”، ” ساری رات، اور ‘انت نیس” جیسے سنجیدہ ڈرامے لکھے س کے ساتھ ہی انھوں نے ” رام شام جدو” بلیہو پور کی روپ کتھا”، “کوکی کہانی” اور ” یدی” جیسے طنزیہ اور مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے۔

انہیں 1972 میں پدم شری ، 1968 میں سنگت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور گورنمنٹ کے ذریعہ پرفارمنگ آرٹس میں اعلیٰ اعزاز سنگت ناٹک اکیڈمی فیلوشپ سے نوازا گیا۔    1997 میں بادل سرکار نے اپنے وقت کے متعدد فلمی ہدایت کاروں ، تھیٹر ہدایتکاروں کے ساتھ ساتھ ادیبوں کو بھی متاثر کیا۔

وہ پچاس  سے زائدڈراموں کے مصنف اور پیش کار ہیں۔ ان کے چند مشہور ڈراموں میں۔ ‘باسی خبر‘، ‘جلوس‘(اس کا اردوترجمہ ہوچکا ہے)، ‘ساری رات،‘ اور ‘کوئی(شاعر) کہانی ‘شامل ہیں۔ اردو میں ان کے مقبول ڈرامے ” جلوس” کو انیس اعظمی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس ڈرامے کو 1980 میں دہلی سے معیار پبلیکیشنز نے شائع کیا۔ اس ڈرامے کے دیباچے میں ایم کے رینا نے لکھا ہے” چونکہ یہ ناٹک ( ” جلوس”) غیر سیاسی ہے اس لیے یہ ان ساری استعداد پسند طاقتوں پر تیکھا وار کرتا ہے ۔ جن کی مٹی میں عام آدمی کی روتی ہوئی گڑ گڑاہٹ، ضرورت مند زندگی قید ہے۔ یہ استعداد پسند طاقتیں اندرونی بیرونی سطحوں پر گھیرے ہوئے ہیں”۔۔ ڈارامے “جلوس” میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا ذکر بھی ایک مکالمے میں ملتا ہے۔ 13 مئی 2011 میں کولکتہ میں کولن سرطان کے عارضے کے سبب 85 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 بادل سرکار کے ڈراموں کی فہرست یہ ہے 
Evam Indrajit (And Indrajit) (1963)
Basi Khabar
Baaki Itihaash (Remaining History) (1965)
Pralap (Delirium) (1966)
Tringsha Shatabdi (Thirtieth Century) (1966)
Pagla Ghoda (Mad Horse) (1967)
Shesh Naai (There’s No End) (1969)
Spartacus
Prastava
Michhil (Procession)
Bhoma
Solution X
Baropishima
Saara Raattir
Baro Pisima
Kabi Kahini
Manushe Manushe
Hottomalar oparey
Bollovpurer rupkatha
Sukhapathya bharoter itihash(Indian History Made Easy)
Gondi (adaptation from ‘Caucasian Chalk Circle by Bertolt Brecht)
Nadite Dubiye Dao (Adaptation from ‘We come to the river’ by Edward Bond)
Sinri
bagh
Ka Cha Ta Ta Pa (A satire)
Bagala Charit Manas
Ore Bihanga
Dwirath
Manushe Manushe
Janmavumi Aaj (A poetry Monaz)
Mara-Saad
Choruivati (An adaptation from “Picnic in the Battlefield” by Fernando Arrabal)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply