تعلقات کی جذباتی بھوک۔۔تنویرسجیل

تعلقات  کے بغیر انسانی زندگی ایک ایسے صحرا کی  مانند ہے جہاں پر ہر وقت ریت کے بادل چھائے ہوتے ہیں اور ان بادلوں کی گھٹن سے انسانی وجود اپنی موت خود مر دہ  ہوتا ہے ہم زمین زاد گر نہ بھی چاہیں کہ کسی دوسرے سے کوئی تعلق قائم کریں  تب بھی روز پیدائش سے  ہی بہت سے تعلقات ہمارے نام کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں،  گھر کے افراد سے لیکر خاندان کے لوگ ہماری تعلقاتی حیثیت کی ایک پہچان بنتے ہیں۔

ویسے تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی فرد بنا کسی تعلق کے خوبصورت، مطمئن اور شاندار زندگی گزار رہا ہو البتہ نت نئے تعلقات بنانے کی تمنا اور شوق ہر عمر کے فرد میں موجود ہوتا  ہے اور اس تمنا و شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ  بہت سے دوسرے افراد سےتعلقات کی ڈور جوڑنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔  تعلقات بنانے کے اس شوق کے پس پردہ جس ضرورت کا نام ہے اسے جذباتی بھوک کہا جا سکتا ہے اور یہ بھوک کئی لوگوں میں بہت زیادہ او ر کچھ میں بہت کم ہوتی ہے۔

یہ بھوک بھی دوسری بھوک کی طرح انسان کو تب تک بے چین کیے رہتی ہے جب تک اس کی تشنگی نہ ہو جائے،اپنی اس جذباتی بھوک کو ختم کرنے کے لیےفرد معاشرے کے دوسرے افراد سے کل وقتی اور جزوقتی تعلقات استوار کرتا ہے  کبھی یہ تعلقات عمر بھر کا ساتھ بنتے ہیں اور کبھی ان کی عمر کم مدت کی ہوتی ہے۔

تعلقات کی یہ ریل گاڑی تمام عمر چلتی رہتی ہے  اور ہر تعلق کا ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے جب اس کا پلیٹ فارم  آن پہنچتا ہے تو وہ تعلق باقی زندگی کے سفر کا حصہ نہیں رہتا،  مگر مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب صرف اک تعلق کی خاطر انسان مرنے ، مارنے پر تل جاتا ہے اور کبھی وہ تعلق کی تپش میں ایسا گھلتا ہے  کہ اس کا وجود ہی اس تعلق کی غیرموجودگی  کی صورت میں غیر اہم اور غیر ضروری ہو جاتا ہے یا پھر اس کا تعلق کسی ایسے فرد سے جڑ جاتا ہے جس کو چھوڑنے کا مطلب زندگی کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنا ہے۔

تعلقات کے یہ انداز  ہرگز صحت مندانہ نہیں ہیں۔ اصل تعلق کی خوبصورتی یہ ہے  کہ وہ فرد کی زندگی کو رونق بخشیں، اس کو سرشار کر دیں اور ذات کی شادابی کا موجب بنیں، جس سے فر د کی جذباتی بھوک بھی تمام ہو اور زندگی کا  اطمینان بھی نصیب ہو ۔ اگر کسی فرد کے تعلقات میں یہ تمام خوبیاں اور صلاحیتیں نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ تعلقات  بنانے کا ہنر  اور آرٹ سے واقف  نہیں  یا پھر جس سےتعلق جوڑا گیا ہے وہ  جذباتی  ناخواندگی  کا شکار  ہے  کیونکہ  تعلق کی اساس زیادہ  تر جذباتی  ہوتی ہے۔

اس لیے جذباتی وابستگی کے لیے ضروری ہے  فرد کو  جذبات کی آگاہی ہو ، جذبات کو برتنے کی صلاحیت ہو اور جذبات کو سمجھنے کی اہلیت ہو اگر  ان تینوں  عناصر میں سے کوئی ایک بھی فرد کی ذات کا حصہ نہ ہو تو وہ کبھی جذبات کو مناسب انداز میں نہیں نبھا سکے گا اور ایسی مشکلات کا شکار ہو جائے گا جس سے نکلتے نکلتے وہ اپنی زندگی کو ہی بگاڑ کے رکھ لیتا ہے ۔

جیسے زندگی کے دوسرے اہم معاملات سے لیکر عام معاملات کو نمٹا نے کے لیے ایک اوسط درجے کی ذہانت درکار ہوتی ہے جس سے معاملات کی نوعیت،  پیچیدگی اور انکے مناسب حل کے لیے سمجھ بوجھ اور ادراک سے کام لیا جاتا ہے  ویسے ہی جذباتی ذہانت بھی افراد کی مدد کرتی ہے کہ وہ دوسرں کے جذبات کو سمجھ سکے  اور اپنی جذباتی کیفیت سے دوسرے کو بغیر الجھے آگاہ کر سکے جو کہ تعلقاتی ضروریات کے لیے انتہائی اہم ہے۔

یہ بات عام فہم ہے کہ ہر شخص میں ذہانت  یکساں طور پر برابر نہیں ہوتی ۔ کوئی بہت زکی اور معاملہ فہم ہوتے  اور کچھ اوسط سے کم درجے کی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں،  ویسے  ہی جذباتی ذہانت بھی ہر شخص میں  یکساں  نہیں ہوتی  او ر یہی وجہ ہے تمام لوگوں کے تعلقات بھی مختلف قسم کے ہوتے ہیں، کیونکہ جذباتی  ذہانت ہی فیصلہ کرتی ہے  کہ تعلق کتنا  خوبصورت اور توانا ہو گا۔   یہ بات  بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مادی وسائل یا  تعلیمی قابلیت کبھی اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتی جو یہ طےکرےکہ وہ فرد جذباتی ذہانت سے  کتنا بھرپور ہے  البتہ جذباتی ذہانت سے محرومی کا نتیجہ جذباتی نا خواندگی کا سبب بنتا ہے  اور جذباتی ناخواندگی  کا شکار شخص جذباتی اندھےپن کا مریض ہوتا ہے اس کے پاس اتنی اہلیت ہی  نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کے جذبات کو سمجھ سکے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ  شاید   ہی دنیا میں کوئی ایسا فرد ہو جس میں جذباتی ذہانت سرے سے موجود نہ ہو ورنہ یہ  تو ہر فرد میں موجود  ہے مگر سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ہر شخص میں پائی جاتی ہے تو ان کے تعلقات کیوں خراب اور ناخوشگوار رہتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت نے کبھی جذباتی  ذہانت کے بارے سنا ہی نہیں ہوتا ،  ان کی جذبات کو برتنے ، سمجھنے کی  بنیادی تربیت ہی نہیں ملی ہوتی  اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ لوگ اس ذہانت سے  متعارف ہی نہیں ہوتے اس وجہ سے وہ سیکھ ہی نہیں پاتےکہ تعلقات کی خوبصورتی کے لیےیہ ذہانت کتنی اہم ہے ۔

جذبات  تو سب میں ہی ہوتے ہیں مگر ان کو نبھانے کے لیے جس ذہانت کی ضرورت ہے وہ اگر نہیں تو خالی جذبات صرف  ایک قسم کی سنسنی اور اندھا پن پیدا کر سکتے ہیں اور اس کی مثالیں آپ   کو آس پاس سےکثرت سے مل جائیں گی  جہاں پر لوگ  صرف اس لیے تعلقات کی ناکامی کا شکار ہیں کہ وہ صرف جذباتی ہیں مگر جذباتی طور پر  ذہین نہیں ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جذباتی ذہانت سے بھرپور لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جذبات انسان کی سوچ اور سمجھ بوجھ سے زیادہ طاقتور ہیں اور خود کو جذبات کے حوالے کر دینا  ایک ایسی حماقت  ہوتی ہے جو تعلق کی موت کا سبب بنتی ہے ا س لیے جذباتی طور پر ذہین افراد جذبات کو بہترین سلیقہ مندی سے برتتے ہیں اور کبھی بھی خود کو جذبات کے حوالے کر کے خود کی اور دوسروں کی زندگی کو مشکل سے دوچار نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جذباتی ذہانت والے نہ تو اپنی جذباتی بھوک کو مٹانے کی خاطر دوسروں کو سولی  لٹکاتے اور نہ ہی وہ جذباتی نا خواندگی کا شکار ہو کر  جذباتی اندھے پن  کا مریض بنتے بلکہ سرشاری اور شادابی والے تعلق کو انجوائے کرتے ہیں۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply