لبنی غزل کی نظم ہے۔۔ربیعہ سلیم مرزا

مجھے ڈر ہے،
کہ نہ کچلیں جائیں،

تمہارے قدموں تلے آ کر،
نہ روندیں جائیں،

تمہاری چوکھٹ پہ،
رکھ آئی ہوں ،
اپنے انتظار کی خوابیدہ آنکھیں ۔ ۔

تحریریں آسمانوں سے اترتی ہیں۔زندگی کی طرح ۔۔۔تخیل کا کینوس کائنات جتنا وسیع ہوتا ھے، بصارت کسی بچے کی طرح بصیرت کے تعاقب میں بے لگام دوڑتی ہے ۔لمحوں کے کھیل سےافسانے بنتے ہیں ۔۔اور اگر کوئی زندگی بھر کی کہانی ہو تو ناول تخلیق ہوتا ہے۔۔۔ادیب معاشرے کے ایسے پہلوؤں کو موضوع بناتا ہے ۔۔جن پہ پہلے بات نہیں ہوتی۔
ایسے ہی لبنیٰ غزل صاحبہ نے ناول لاریب لکھا ۔اس ناول میں کہانی ہر موڑ پہ اٹھکھیلیاں کرتی ہے،کسی پہاڑی ندی کی طرح،اپنی روانی میں بہتے ہوئے، کناروں کو ساتھ لئے چلتی ہے۔یہ ناول ایک فلمی ایکٹرس کی زندگی پہ لکھا گیا ہے  ۔شو بز کی دنیا  جتنی بھی جگمگاتی کیوں نہ ہو ،کہیں نہ کہیں تاریکی رہ جاتی ہے ۔ہم میں سے اکثر آج بھی اس بارے میں لاعلم ہیں کہ چمکتے ستارے جانے کہاں طلوع و غروب ہوتے ہیں ۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ناول محبت اور رشتوں کا سمبندھ ہے ۔وہ محبت جو دسمبر کی اوس میں بھیگی ہوئی  ۔کسی کچے راستے کی سلوٹوں میں سانس لیتی ہے،اپنی ٹھنڈی خوشبودار مہک سے روح کو معطر کرتی ہے ۔عورت کو اطاعت پہ مجبور کرتی ہےِمیاں بیوی کے رشتے میں محبت کرنا سراسر عورت کے ہاتھ میں ہے ۔اس ناول کو پڑھتے ہوئے  مجھے اس پرورش کی جھلک محسوس ہوتی ہے جو ہماری مائیں ہماری کرتی تھیں ۔
اور آج ہم اپنے بچوں کے لیے اس پرورش کی حسرت رکھتے ہیں ۔۔
ناول کی فضا پرسکون اور رومانوی ہے۔۔۔۔رواں ،زبان و بیان اور مضبوط کردار نگاری .
ایسےلگتا ہے جیسے کوئی فلم دیکھی ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply