اپنے عہد کے ڈیجیٹل نشئی ۔۔ خنساء سعید

صدیوں سے حضرت ِ انسان اس تگ و تاز میں مگن رہا ہے کہ وہ اس خاک کے بستر اور اس سے متعلق زمردیں بحر (نیلگوں دریا سمندر)اور ان کے متعلقات فضائے بسیط (پھیلے ہوئے خلا) اور عظیم الشان آسمانوں میں پنہاں اسرارو رموز کے بھید کھولے ۔انسان نے ہر طلوع ہوتے ہوئے سورج اور ڈھلتی شام میں تسخیرِ کائنات کے حسیں خواب دیکھے ۔پھر یوں ہوا کہ انسان کے خواب تعبیر پانے لگے وہ ترقی کی منازل طے کرنے لگا ۔انسان نے ٹیکنالوجی کے دور میں قدم رکھا تو نت نئی ایجادات سامنے آنے لگیں۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ تہلکہ سکرین نے مچایا ۔اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس دان جان لوئی بیرڈ نے 1926 میں ٹیلی ویژن ایجاد کر کے دنیا کو پہلی سکرین سے متعارف کروایا ،اس کے بعد کمپیوٹر،لیپ ٹاپ ،ٹیبلٹ ،موبائل فون کی دنیاؤں میں داخل ہو کر حضرت انسان نے اپنے آپ کو سکرین کے سپرد کر دیا ۔ ٹیلی ویژن نے انسان کو رنگ برنگی دنیا سے متعارف کروایا ،کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ ،موبائل فون ،انٹرنیٹ نے دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ۔ان ایجادات کی بدولت انسان نے دماغی ورزشوں ،صد ریاضتوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیا ۔

کوئی بھی ایجاد اُس وقت تک انسان کو نقصان نہیں پہنچاتی ،جب تک انسان خود اُس کا بے جا استعمال شروع نہ کر دے۔زہر ایک طرف ہلاکت کا باعث بنتا ہے تو دوسری طرف تریاک ہے جبکہ اس کے دونوں طرح کے استعمال کا اختیار انسان کے پاس ہے ۔اور اسی طرح ایک طرف ان ایجادات سے انسان نے بے شمار فائدے حا صل کیے تو دوسری طرف اپنا نقصان بھی کرنے لگا ۔لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ پی سی ( ٹیب ) نے انسان کو بہت متاثر کیا اور آج بھی کر رہے ہیں ، مگر یہ اپنا حجم زیادہ رکھنے کی وجہ سے موبائل فون کی جگہ نہ لے سکے مگر جیسے ہی موبائل اپنے ارتقا کی تمام منازل طے کر کے  آیا تو انسان اس چھوٹی سی سکرین کا دیوانہ ہو گیا ۔ہر چھوٹا ،بڑا،مرد ، عورت،بوڑھا ،جوان ،تاجر ،مزدور ،ہر کوئی موبائل کی زلف گرہ گیر کا اسیر نظر آنے لگا ۔

ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد نوجوان موبائل فون کا منفی استعمال کرتے ہیں ۔ نوجوان دن اور رات کا ایک بڑا حصہ موبائل فون پر فحش مواد دیکھ کر گزار رہے ہیں ۔الیکٹرونک ڈیوائسز کا نشہ کرنے سے نوجوان نسل تیزی سے بے حیائی ،بے چینی ،بے راہروی کا شکار ہو رہی ہے ۔حد سے زیادہ موبائل استعمال کرنے والوں کو ایک نفسیاتی عارضہ لاحق ہو جا تا ہے جس کو NOMOPHOBIA کہا جاتا ہے ۔جس کا مطلب ہے No Mobile Phone Phobia.۔اس میں انسان کو ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ اُس کا موبائل فون کہیں کھو جائے گا ،یا اُس کے ہاتھ سے گر کر موبائل ٹوٹ جائے گا ۔اس فوبیا کے شکار لوگ موبائل فون اپنے ساتھ بیت الخلا ء میں بھی لے جاتے ہیں، اور رات کو موبائل اپنے بستر پر اپنے پاس یا تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے ہیں ۔ہر دو منٹ کے بعد موبائل آن کر کے دیکھتے ہیں کہ کہیں کوئی میسج تو نہیں آیا ۔بار بار موبائل کو چارجنگ پر لگاتے ہیں تا کہ اس کی بیٹری فل رہے ۔اس کے علاوہ اگر یہ لوگ اپنا موبائل کہیں رکھ کر بھول جائیں اور موبائل نہ ملنے کی صورت میں کچھ ہی لمحوں میں یہ لوگ بد حواس ہو جاتے ہیں ۔ان کی حالت غیر ہونے لگتی ہے ،ان کو پسینہ آنے لگتا ہے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے یہ لوگ کانپنے لگتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کسی نشہ کرنے والے کو اُس کا نشہ نہ مل رہا ہو ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 87 فیصد سے زائد موبائل صارفین اس فوبیا کا شکار ہیں ۔چھوٹی سکرین کے حد سے زیادہ بے جا استعمال نے ہمیں بہت سے طبی مسائل سے بھی متعارف کروایا ہے ۔لیٹ کر یا بیٹھ کر موبائل چلانے سے کندھوں میں درد ،گردن میں درد،اور سر میں بھی درد روز کا معمول بن جاتا ہے اس کے علاوہ ہاتھوں ،کلائیوں کے ساتھ ساتھ انگلیوں میں بھی درد رہنے لگتا ہے جس کوcarpal tunnel syndrome کہا جاتا ہے ۔جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سکرین سے نکلنے والی روشنی سے میلاٹونین (Melatonin) کی مقدار متا ثر ہوتی ہے جس سے انسان ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے، اُس کو بھوک نہیں لگتی، نیند اُس کی آنکھوں سے غائب ہو جاتی ہے، اُس کی طبیعت میں چڑچڑاپن زیادہ ہو جاتا ہے، انسان غصہ بہت زیادہ کرنے لگتا ہے، اور ساتھ ساتھ موٹاپے کا بھی شکار ہو جاتا ہے ،سکرین کے مسلسل استعمال سے آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اور آنکھوں میں خارش ہونے لگتی ہے ۔ اس کے علاوہ سکرین کا نشہ نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی ،اور تشدد جیسے مسائل بھی سامنے لے کر آ رہا ہے ۔

بچے ہمیشہ بڑوں سے سیکھتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے کیا کر رہے ہیں؟ کیا بولتے ہیں ؟ہم جو بچوں کے سامنے صبح شام جو کریں گے بچہ بھی وہ ہی کرے گا ۔بچوں نے جب ہم بڑوں کو ہر وقت موبائل استعمال کرتے دیکھا تو اُن کے دل میں خواہش جاگی کہ وہ بھی اس رنگ برنگی روشنیوں والی دنیا کی سیر کریں نتیجتاً  ہم نے بچوں کی یہ مشکل بھی آسان کی اور ان کے ہاتھوں میں خود ہی موبائل تھما دیا ۔اب کچھ بچے ایسے ہیں جو دن کا ایک بڑا حصہ ٹی وی کے سامنے گزارتے ہیں ۔کچھ سارا دن ٹیبلٹ پر لگے رہتے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد میں موبائل کی دنیا میں گم ہیں ۔مختصر یہ کہ ہم نے اپنے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی سکرین کا عادی بنا دیا ہے ۔سکرین سے نکلنے والی خطرناک شعاعوں نے بچوں کو اپنی گرفت میں قید کر رکھا ہے ، یہ شعاعیں بچوں کے لیے کتنی مضر ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ 1964 میں رولڈ ڈاہل نے اپنی کتاب (چارلی اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری ) میں لکھا تھا ۔”خدارا،خدارا ہم ہاتھ جوڑتے ہیں ،جاؤ اپنے ٹی وی پھینک آؤ ،اور ان کی جگہ آ پ اسی دیوار پر خوبصورت کتابوں کی الماری نصب کر لو ۔”الیکٹرونک ڈیوائسز کے حد سے زیادہ استعمال نے بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر بیمار کر دیا ہے ۔محمد الیاس شاہ انصاری اپنی کتاب (Public Health and Community Medicine )میں لکھتے ہیں ،وائر لیس ڈیوائسز میں ریڈیو فریکوئنسی توانائی پائی جاتی ہے، ان کو جسم کے جس بھی حصے کے قریب رکھا جائے ،وہاں کے ٹشوز ریڈیو ایکٹو توانائی اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔اس کے علاوہ سکرین سے نکلنے والی شعاعیں انسانی جسم میں موجود گھڑی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسانی ہارمونز کو نشانہ بناتی ہیں ۔وہ بچے جو دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو کر کئی کئی گھنٹے موبائل یا ٹیبلٹ پر سر جھکا ئے رکھتے ہیں وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں اُن کے سر میں درد رہنے لگتا ہے نیند اُن کی آنکھوں سے غائب ہو جاتی ہے ۔اس کے بر عکس جو بچے اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں مختلف قسم کی کھیلیں کھیلتے ہیں وہ ہر طرح سے تند رست و توانا رہتے ہیں ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے مسلسل چھ سے سات گھنٹے کسی بھی سکرین مثلاً  ٹی وی ،موبائل ،ٹیبلٹ وغیرہ کے سامنے گزارتے ہیں ان میں موڈ مزاج کے مسائل آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔سکرین کے زیادہ استعمال سے ماتھے کے بالکل پیچھے جو دماغ کا حصہ ہوتا ہے جس کو prefrontal cortexبولتے ہیں۔ جو ہمیں صیح اور غلط میں پہچان کرنا سیکھاتا ہے جس سے ہم منصوبہ بندی کرنا سیکھتے ہیں ،جو فیصلہ لینے میں ہماری مدد کرتا ہے ،جو ہمیں ضبط نفس سیکھاتا ہے اور جس کے اند ر خاص طور ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ،ایک دوسرے کو مارتے ہیں ،چیختے چلاتے ہیں ، ضد کرتے ہیں ان میں ہمدردی کے جذبات ختم ہوتے نظر آتے ہیں ۔WHOنے اس کو screen behavioral problemsکا نا م دیا ہے ۔اس کے علاوہ جو بچے دن کا ایک بڑا حصہ سکرین کےسامنے گزارتے ہیں وہ مختلف قسم کی آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں cataracts اور myopiaسر فہرست ہیں ۔cataractsمیں ہر چیز دھندلی نظر آتی ہے اور myopiaمیں دور اور نزدیک کی نظر کمزور ہو جاتی ہے ۔ایک اور تحقیق کے مطابق جو بچے سکرین کی لت میں مبتلا رہتے ہیں اُن میں پنسل پکڑنے کی صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نشہ کسی بھی چیز کا ہو جان لیوا ہوتا ہے ۔آج سے صدیوں پہلے لوگ داستان گوئی کا ،طائف الملوکی کا ،شراب کا ،عورت کا نشہ کیا کرتے تھے آج کہ ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کے دور میں سب نشے اکٹھے ہو کر سکرین کی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں آ گئے ہیں ۔اب ان سے جان چھڑانا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ہے ۔چھوٹی اور بڑی سکرین ،انٹر نیٹ، وقت کی اہم ضرورت ہے. سکرین پر لکھنے کے لیے بھی سکرین کا ہی استعمال کیا جاتا ہے اور پڑھنے کے لیے بھی سکرین ہی استعمال ہوتی ہے، مگر ان چیزوں کا نشہ کرنا نقصان دہ ہے ان کو صرف ضرورت اور کام کے وقت استعمال کریں ، ان چیزوں کا مثبت استعمال کریں ،بے جا استعمال سے گریز کریں ۔بچوں کے سامنے ان ڈیوائسز کا استعمال کم کریں ۔بچوں کواس لت سے نکالنے کے لیے پہلے ہمیں خود اس سے نکلنا ہو گا ۔ سکرین کا نشہ چھوڑنے کے لیے ہمیں چائیے کہ ہم کاغذی کتاب کی صورت میں مختلف ادبی اور تاریخی کتب اور ناول پڑ ھیں ،قرآن پاک ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں ،احادیث کی کتب پڑھیں ۔والدین کی اچھی تربیت کا راز اس میں ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سامنے بہترین نمونہ بنیں ۔ والدین بچوں کےحقیقی استاد اور مربی ہوتے ہیں۔ بچے اپنے والدین کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا موبائل کے حوالے سے بچوں کو ڈسپلن کرنا ہو تو بھی والدین آغاز خود اپنے آپ سے کریں ۔ان کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے اوپر چیک اینڈبیلنس رکھیں۔ ضرورت کے علاوہ خود بھی استعمال نہ کریں ۔والدین بچوں کو پاس بیٹھا کر پیار سے سمجھائیں کہ ٹی وی ،موبائل ،ٹیبلٹ وغیرہ کے کیا فائدے اور کیا نقصان ہیں اور ان چیزوں کا حد سے زیادہ استعمال آپ کی صحت پر کس طرح سے اثر انداز ہو گا ۔والدین بچوں کے ساتھ مختلف کھیلوں میں حصہ لیں اُن کے ساتھ کھیلیں ۔ ماں باپ بچوں کو مختلف اسائنمنٹس دیں جب بچے اپنا کام کر لیں تو بچوں کو انعام کی صور ت دن میں ایک یا دو گھنٹے کارٹون یا گیمز وغیرہ کھیلنے دیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply