حاجی پیر کے دامن میں ایک دن ۔۔جاویدخان

پریس فار پیس فاونڈیشن ایک فلاحی تنظیم ہے۔1999 میں مظفرآباد میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔کشمیر کی وادی پرل کے سردار ظفراقبال اس کے سرپرست ہیں۔یورپ کی ایک درس گاہ میں تدریس کرتے ہیں۔تنظیم نے زلزلہ  2008کے دَوران مظفرآباد میں جم کر کام کیا۔تب سے پریس فار پیس فاونڈیشن اَپنا دائرہ کارآگے بڑھارہی ہے۔تنظیم یورپ سے رجسٹر ہے۔اِس اَگست کے ایک دن،پروفیسر اَیازکیانی صاحب نے کہا۔پریس فار پیس فاونڈیشن کے باغ مرکز میں ایک تقریب ہے اَور تمھیں بھی دعوت ہے۔پھر تنظیم کے سرپرست اَعلی ٰ برادر ظفر اِقبال صاحب نے سمندر پار سے خاص طور پر دعوت دی تو ایاز کیانی صاحب کے ہم راہ باغ کی طرف چل پڑا۔باغ شہر پہاڑوں کے درمیان ایک نالے کے گرداگرد آباد ہے۔پہاڑوں کی بلندیاں اسے اَپنے قدموں میں بسائے تکتی رہتی ہیں۔آزادکشمیر کاضلع باغ درّہ حاجی پیر کی چوٹیوں کے نشیب وفراز میں بستاہے۔حاجی پیر کوہ ہمالیہ صغیر،یعنی پیر پنجال کاپیر بھائی ہے۔پیر پنجال کی بلندی 6000میٹر ہے یاکچھ زیادہ۔ان پربتوں کاپوتر حسن زمانوں سے ان وادیوں کی صورت میں پھیلا ہواہے۔یہ بلندپربت،یہ درّے،اِن سریلی ندیاں اَور نیلگوں دریاوں کامنبع،برفیں سنبھالے ہوئے ہیں۔
باغ شہر پہنچے تو پتہ چلا ہماری منزل ناڑ شیر علی خان نامی ایک دیہات کاپرائمری سکول ہے۔مزید آدھ گھنٹے کے سفر کے بعد ناڑ شیر علی خان پہنچے۔یہ پرائمری سکول ایک پہاڑی ندی کے بائیں کنارے پرواقع ہے۔مشرقی سمت حاجی پیر کابلندپربت ہے۔بائیں ہاتھ نالے کے پار لس ڈنہ کاپہاڑی سلسلہ ہے۔یہ ساراپربتی حسن،ہریالی گھاس،تونگ،بیاڑ اَور دریار کے درختوں سے بھراہے۔جب کہ دائیں طرف یہ سلسلہ مظفر آباد اَور نیلم کے پہاڑی سلسلوں سے جاملتاہے۔بنوں کی ہری گھاس اَب کٹنے کوتیار تھی۔اَور کہیں کہیں کٹائی کاعمل جاری تھا۔ہم گاڑی سے اُترے تو خوش گوارا،خوش مزاج،ٹھنڈی ٹھنڈی ہواوں نے استقبال کیا۔باغ کی نشیبی وادیوں میں ہوائیں گرم اَور حدت زدہ ہوتی ہیں۔لہٰذا گاڑی میں اَے۔سی آن تھا۔جو مصنوعی ٹھنڈ دیتارہاتھا۔لیکن تازہ قدرتی ماحول میں بسنے والی ہواوں نے ساری تھکن اُتار دی تھی۔گاڑی کے مصنوعی ماحول سے طاری ہونے والی اَبکاہٹ دُور ہوگئی تھی۔
ناڑ شیر علی خان (لوہار بیلا) میں ہونے والی تقریب کے تین مقاصد تھے۔پہلاکالم نگاری میں اول،دوئم اَور سوئم آنے والوں کو ایوراڈ دیے جانے تھے۔دوسرا تنظیم مستحق بچوں کی کفالت کرتی ہے۔یوں مستحق بچوں میں وظائف تقسیم کیے جانے تھے۔تیسراحصہ ناڑ شیر علی خان کے مسائل،تنظیم کاتعارف،اس وقت تک کیاجانے والاکام اَور مستقبل کے اَہداف شامل تھے۔تنظیم کے اراکین اَور سربراہ کاہدف ہے کہ ناڑشیر علی خان کو مثالی گاوں (ماڈل ویلج) بنایاجائے۔ناڑ شیر علی خان میں تنظیم کے زیر نگرانی چلنے والے اَدارے میں سلائی،کڑھائی اَورکچھ دُوسرے ہنر سکھاے جاتے ہیں۔اَب تک تین سو (300 )خواتین فارغ التحصیل ہو چکی ہیں۔یہ خواتین گھر بیٹھے اَپنی مشینوں پر اَور ہاتھ سے کپڑے تیار کرتی ہیں۔تنظیم کی ایک آئن لائن شاپ ہے۔تیار شدہ کپڑوں کی تصاویر اَورنمونے اس آئن لائن سائیٹ پر دکھائے جاتے ہیں۔اَور بیرون ملک لوگ شوق و اِشتیاق سے ناڑ شیر علی خان کی مصنوعات خرید لیتے ہیں۔اِن سے حاصل ہونے والی آمدنی ان خواتین کو دے دی جاتی ہے۔اس آمدنی سے وہ اَپنے گھر کے اَخراجات اَور بچوں کی تعلیم میں لگادیتی ہیں۔تنظیم کی اس آئن لائن شاپ کو صرف ناڑشیر علی خان سے ہی تین سو خواتین دست کار میسر ہیں۔جو تنظیم کے اَپنے تیار کردہ ہیں۔ یہ اَو ر ناڑ شیر علی خان ہی میں تیار ہوئیں۔ناڑ شیر علی خان میں تنظیم کے ذمہ دار راجا سعید الرحمٰن صاحب ہیں۔بزرگ ہیں۔پونچھ (کشمیر کاآر پار ضلع) کی تاریخ انھیں اَزبر ہے۔لوہار بیلا(ناڑ شیر علی) کے اس چھوٹے سے دیہات میں 30 بچیاں فن دست کاری کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔اَب ان کا آخری سمسٹر چل رہا ہے۔تنظیم اس سے قبل سرحد پر فائرنگ سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی امداد کر چکی ہے۔
تنظیم کے آمدہ اَہداف میں آزادکشمیر کے ہر ضلع میں ایک لائبریری کاقیام عمل میں لانا ہے۔بعد ازاں لائبریری کاسلسلہ تحصیل سطح اور پھر یونین کونسل کی سطح پر منتقل کردیاجائے گا۔کئی جگہوں پر میڈیکل کیمپ لگائے جاچکے ہیں۔نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی،سیاحت کافروغ تو اولین ترجیحات میں شامل ہے۔تنظیم کشمیر کے علاقائی کلچر و ثقافت کو فروغ دینے کاپروگرام رکھتی ہے۔لوہار بیلا(ناڑ شیر علی خان)میں اپنی نوعیت کایہ پہلا پروگرام تھا۔مقررین نے علاقائی مسائل،لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور آمدہ مسائل و وسائل کو زیر بحث لایا۔میں نے سمندر پار یورپ کی اک درس گاہ میں تدریس کرتے جناب ظفر اقبال صاحب کو ان کے کام،کاوش اورلگن پر مبارک باد دی تو انھوں نے کہا”مٹی کی چاہت میں یہ سب کر رہا ہوں اور کرتارہوں گا۔“
کسی شاعر نے کہاتھا۔ ؔمٹی کی چاہت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے جو واجب بھی نہ تھے۔
انھوں نے بتایاتنظیم کاہدف پسماندہ علاقے ہیں۔چاہے وہ آزادکشمیر کے جس علاقے میں ہوں۔روبینہ ناز باغ تنظیم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔پر اعتماد،بالغ نظر روبینہ نازکم عمر ہونے کے باوجود اعلی ٰ انتظامی صلاحیتوں سے لیس ہیں اور ان صلاحیتوں کااستعمال کب اور کہاں کیسے کرنا ہے،وہ خوب جانتی ہیں۔ناڑ شیر علی خان میں اٹھائیس ہزار نفوس آباد ہیں۔اس دیہات کی سرحد مقبوضہ کشمیر میں سرحدکے اُس طرف والے دیہات اُڑی سے ملتی ہے۔یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناڑ شیر علی خان (لوہار بیلا)ایک عارضی سرحدی گاؤں ہے۔جیسے تمام جبری سرحدیں آخر کار عارضی ثابت ہوتی ہیں۔اَیسے ہی ناڑ شیر علی خان ایک عارضی سرحد پر بستاگاؤں ہے۔تقریب کے اختتام پر دُوسرے کمرے میں مہمانوں کے لیے کھانے کاانتظام تھا۔کھانے کی میز پر بیٹھے تو پر تکلف کھانوں کے علاوہ کشمیر کے ثقافتی کھانوں کاخاص طور پر اہتمام تھا۔یہ سارے کھانے دست کارطالبات کے ہاتھوں کے بنے ہوئے تھے۔ثقافتی کھانوں میں دیسی مکئی کی روٹی،دیسی دہی،چٹنی،دیسی سبزیاں بہت ہی مہارت سے پکائی گیئں تھیں۔تنظیم باغ کے ذمہ دار راجاسعید صاحب میرے بائیں طرف،تقریب کی مہمان خصوصی ڈاکٹر نگہت یونس سامنے بیٹھی ہوئی تھیں۔جب کہ دوسرے مہمانوں میں سردر رفیق بیگ،الطاف ماگرے،محترمہ ثمینہ چوہدری،ثنااللہ صاحب،آصف سدوزئی،سردار ولیدیاسین،محسن شفیق اور اصباح نثار کے علاوہ دیگر مہمانان بھی تھے۔ان سب کی موجودگی میں،کشمیر کے ثقافتی کھانے دیکھ کر میر ا ضبط شکست وریخت کاشکار ہوگیا۔میں نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایاہی تھاکہ راجاسعید صاحب نے میرے ہاتھ میں مکئی کی روٹی تھمائی اور ساتھ دہی کاڈونگہ آگے سرکادیا۔دیکھا تو پروفیسر ایاز کیانی صاحب اَور پار ڈاکٹر نگہت صاحبہ بھی کم بے تاب نہ تھے۔
باہر آیا تو نالے میں بہتاپانی ہلکی موسیقی پیدا کر رہا تھا۔ایک کوئل اُڑتی ہوئی اَور کوکتی ہوئی ایک بڑے پتھر پر آکر بیٹھ گئی۔یہ پہاڑی نالا درّہ حاجی پیر کی طرف سے آتاہے اورآگے نالاماہل میں مل جاتاہے۔ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔مہمان جانے لگے تھے۔ہم نے بھی اپنی گاڑی کارُخ کیاتو دُور اُڑی سے آنے والی ہواوں نے پوچھا اِدھر کب آو گے۔۔؟پیچھے مڑ کر دیکھا تویہی سوال درّہ حاجی پیر بھی یہی پوچھ رہاتھااَور لوہار بیلا بھی۔پروفیسر ایاز کیانی گاڑی کادروازہ کھول چکے تھے۔آ بی موسیقی بہہ رہی تھی ہوائیں جبری سرحد سے بے نیاز وادیوں میں پھر رہی تھیں۔ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply